Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کون ہے جو بے قرار کی پکار سنتا ہے ؟

بے سہاروں کا سہارا اﷲ ہی ہے ،جب بے قرار و بے کس اُسے دل سے پکارتا ہے تو وہ ہلاکت و بربادی میں پڑنے سے پہلے اپنے بندہ کو بچالیتا  
مولانا محمد عابد ندوی۔ جدہ
اﷲ تعالیٰ کے وجود اور اس کی وحدانیت پر دلالت کرنے والی بے شمار نشانیاں اس کائنات میں پھیلی ہوئی ہیں ، ان میں غور وفکر کی دعوت دینے کے لئے قرآن نے جابجا ان نشانیوں کا تذکرہ کیا ہے ، ایک جگہ اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’ کون ہے جو بے قرار و بے کس کی پکار کو سنتا ہے جب وہ اسے پکارتا ہے ؟ اور اس کی تکلیف و پریشانی کو دور کردیتا ہے اور تمہیں زمین کا خلیفہ بناتا ہے ؟ کیا اﷲ کے ساتھ اور کوئی معبود بھی ہے ؟ تم بہت کم نصیحت و عبرت حاصل کرتے ہو۔ ‘‘ ( النمل62) ۔
ہر شخص کی دُعا کو سننے اور قبول کرنے والا اﷲ ہی ہے ، اس معاملہ میں کوئی اس کا شریک و ساجھی نہیں ،اس کا ارشادہے:
’’ جب میرے بندے میرے بارے میںتم() سے سوال کریں تو تم() کہہ دو کہ میں بہت ہی قریب ہوں ہر پکارنے والے کی پکار کو جب کبھی وہ مجھے پکارے قبول کرتا ہوں ، اس لئے لوگوں کو بھی چاہئے کہ وہ میری بات مان لیا کریں ( یعنی میری اطاعت کریں ) اور مجھ پر ایمان رکھیں ، یہی ان کی بھلائی کا باعث ہے ۔‘‘ (البقرہ 186) ۔
اسی طرح ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’ تم مجھے پکارو ( مجھ سے دُعاء کرو ) میں تمہاری دُعاؤں کو قبول کرتا ہوں۔ ‘‘ ( المومن 60)۔
ہر شخص کی دُعا کو سننے اور قبول کرنے والا اﷲ ہی ہے لیکن اس قبولیتِ دُعا کا واضح طورپر مشاہدہ اس وقت ہوتا ہے جب ایک شخص چاہے وہ اﷲ کا فرمانبردار بندہ ہو یا نافرمان اور کافر و مشرک ، جب وہ اچانک کسی مصیبت میں گرفتار ہوتا ہے ، موت وہلاکت اس کی نگاہوں کے سامنے رقصاں ہوتی ہے ، اس ناگہانی آفت میں کوئی اس بے کس وبے قرار کا ہاتھ تھامنے والا اور اس کی دستگیری کرنے والا نہیں ہوتا تو اس کا دل گواہی دیتا ہے کہ اب میں لمحوں میں موت کی آغوش میں چلا جاؤں گا کیونکہ ہلاکت سے اپنے آپ کو بچانے کیلئے دور دور تک کوئی اسباب و سائل نظر نہیں آتے ۔ ایسی بے بسی کے وقت جو خوف اوردہشت طاری ہوگی اس کا صحیح اندازہ وہی کرسکتا ہے جو ان لمحات سے گزرا ہو اور اس کی زندگی میں بھی کوئی اس طرح کا واقعہ پیش آیا ہو۔ایسے عالم میں انسان کی فطرت پکار اُٹھتی ہے کہ نہیں !ایک ذات ایسی بھی ہے جو مافوق الاسباب ہر چیز پر قادر ہے ، وہ چاہے تو تباہی وبربادی کے اس گرداب سے صحیح و سالم نکال سکتی ہے چنانچہ اُمید و خوف کی ملی جلی کیفیت اور حیرت وتذبذب کے عالم میں بے قرار دل کی گہرائیوں سے پکار اُٹھتی ہے کہ یا رب ! میری مدد فرما، مجھے اس آفت سے بچالے ، کبھی تو اس کی یہ پکار الفاظ کا جامہ بھی نہیں پہن پاتی کہ یہ بندہ مصیبت میں گھِر کر اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھتا ہے لیکن رحیم و کریم اور شفیق ذات اس بے قرار کا ہاتھ تھام لیتی اور اسے مشکل سے نکال دیتی ہے ، جس سے نکلنا اسباب کے دائرہ میں بالکل اس کے بس میں نہ تھا اور یہ سب کچھ آناً فاناً اس طرح ہوتا ہے کہ خود اس شخص کی عقل حیران رہ جاتی ہے کہ میں اس مصیبت سے کیسے بچ گیا ؟ ۔
یہ اﷲ رب العالمین ہی ہے جو بے کس و بے قرار کی دستگیری فرماتا اور اسے مشکل سے نکال دیتا ہے۔ یہ ایک ایسی کھلی اور واضح حقیقت ہے کہ وقتاً فوقتاً انسان اپنی آنکھوں سے اس کا مشاہدہ کرتا ہے ۔اسی بناپر اﷲ تعالیٰ نے اسے اپنی وحدانیت کی اہم نشانی اور دلیل کے طورپر ذکر کیا کہ آخر وہ کون ہے جسے بے قرار شخص پکارتا ہے جب سارے سہارے ٹوٹ جاتے ہیں اوروہ اس بے قرار کی پکار کو سنتا اور اسے مصیبت سے نکال دیتا ہے ؟امام احمد رحمہ اللہ ؒکے حوالہ سے حافظ ابن اکثیر رحمہ اللہؒنے ایک روایت ذکر کی کہ ایک شخص نے رسول اﷲ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا: آپ کس چیز کی دعوت دیتے ہیں ؟ آپنے ارشاد فرمایا:
’’ میں اس ایک اﷲ کی طرف بلاتا ہوں کہ جب تمہیں مصیبت پہنچتی ہے اور تم اسے پکارتے ہو تو وہ تمہاری مصیبت دور کردیتا ہے ، جب تم چٹیل میدان میں راستہ بھٹک جاتے ہو اور اسے پکارتے ہو تو وہ تمہیں راہ دکھادیتا ہے ، جب تمہیں قحط سالی پہنچتی ہے اور تم اسے پکارتے ہو تو وہ تمہارے لئے ( بارش برسا کر ) غلہ اُگا دیتا ہے۔ ‘‘ ( تفسیر ابن کثیر،النمل62)۔
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہؒہی نے ابن عساکر رحمہ اللہ ؒ کے حوالہ سے ایک شخص کا یہ واقعہ خود اس کی زبانی اس طرح نقل کیا۔ وہ کہتا ہے کہ میں دمشق سے ایک شہر تک خچر پر سواری لے جایا کرتا تھا۔ ایک دن ایک آدمی میرے ساتھ سوار ہوا اور ایک غیر معروف راستہ اختیار کرنے کو کہا ۔ میں نے کہا کہ اس راستہ کے بارے میں مجھے کوئی تجربہ نہیں۔ اس نے کہا کہ یہ راستہ زیادہ قریب ہے اسی پر چلو چنانچہ میں اسی راستہ سے اس شخص کو لے چلا ۔کچھ دور چلنے کے بعد ایک گہری وادی میں ہم جا پہنچے جہاں بہت سی نعشیں پڑی تھیں۔ اس شخص نے مجھ سے کہا کہ خچر کو روکو میں اُتروں گا ۔ وہ اُترا اور اپنے کپڑے سمیٹ کر پھرتی سے چاقو نکال کر میری طرف بڑھا۔میں نے نازک صورتِ حال دیکھ کر راہ فرار اختیار کی لیکن اس نے میرا پیچھا کیا ۔ میں نے اس سے کہا کہ خچر اور جو کچھ ساز و سامان اس پر ہے سب لے لو اور میری جان چھوڑ دو ۔ اس نے کہا وہ تو میں لوں گا ہی لیکن تمہیں قتل بھی کروں گا۔میں نے اسے اﷲ کا حوالہ دیا ، اس کا ڈر و خوف دلایا لیکن اس نے ایک نہ سنی چنانچہ میں نے اس کے سامنے اپنے آپ کو حوالہ کرتے ہوئے کہا کہ کم از کم مجھے 2 رکعت نماز پڑھنے کی اجازت دو ۔ اس نے کہا جلدی پڑھو۔میں نماز کیلئے کھڑا ہوا لیکن قتل کئے جانے کا خوف اور ہیبت ایسی طاری تھی کہ زبان سے کچھ نہ نکلا سوائے اس آیت قرآنی کے جس میں ارشاد ربانی ہے’’ کون ہے جو بے قرار کی پکار کو سنتا ہے ، جب وہ اسے پکارے اور تکلیف و مصیبت کو دور کردیتا ہے۔ ‘‘ ( النمل62)۔
میں یہ آیت بار بار پڑھتا رہا ۔ اچانک وادی کے دہانے سے ایک شہسوار نمودار ہوا جس نے نیزہ کا نشانہ لگاکر اس شخص کو قتل کردیا ۔ میں نے اس شہسوار سے اﷲ کا حوالہ دے کر پوچھا کہ تم کون ہو ؟ اس نے جواب دیا میں اس ذات( باری تعالیٰ ) کا قاصد ( فرشتہ) ہوں جو بے کس و بے قرار کی پکار کو سنتا ہے جب وہ اسے پکارے اور مصیبت و پریشانی کو دور کردیتا ہے۔ میں پھر خچر اور ساز و سامان کے ساتھ صحیح سالم واپس لوٹ گیا ( تفسیر ابن کثیر،النمل62)۔
مشہور صاحب ِعلم حافظ ابن قیم جوزی  رحمہ اللہؒنے بھی ابن ابی الدنیا رحمہ اللہ ؒکے حوالہ سے حضرت حسن بصری رحمہ اللہ ؒسے منقول یہ واقعہ نقل کیا کہ ایک انصاری صحابیؓ بہت متقی و پرہیزگار تھے اور بغرض تجارت دور دراز علاقوں کا سفر کیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ انھیں مسلح ڈاکو سے پالا پڑا جس نے انھیں قتل کرنا چاہا ۔ جب اسے قتل کے ارادہ پر مصر دیکھا تو صحابی نے نماز پڑھنے کی اجازت طلب کی اور سجدہ میں اﷲ سے عجز و انکساری کے ساتھ اس کی عزت و قدرت اور عظیم سلطنت کا واسطہ دے کر دُعاء کی کہ اے اﷲ ، اے مدد کرنے والے ! میری مدد فرما اور اس چور کے شر سے مجھے بچالے۔ انھوںنے دُعاء کی اور اِدھر اچانک ایک شہسوار نمودار ہوا جس نے اس ڈاکو قتل کردیا ۔ صحابیؓ نے سوال کیا کہ تم کون ہو، اﷲ نے تمہارے ذریعہ آج میری مدد کی ؟ اس شہسوار نے جواب دیا کہ میں چوتھے آسمان کا فرشتہ ہوں ۔جب تم نے پہلی مرتبہ دُعاکی تو میں نے آسمان کے دروازے کھلنے کی آواز سنی ، جب دوسری مرتبہ اﷲ کو پکارا تو میں نے فرشتوں کے درمیان شور و غل سنا ، جب تیسری مرتبہ تم نے اﷲ سے مدد کی درخواست کی تو مجھ سے کہا گیا کہ یہ ایک مصیبت زدہ مظلوم کی فریاد ہے ، میں نے اﷲ سے درخواست کی کہ مجھے اس ظالم کو قتل کرنے کا حکم ملے ، اﷲنے مجھے اجازت دی اور میں یہاں تمہاری مدد کے لئے آپہنچا (الجواب الکافی ) ۔
سچ ہے بے سہاروں کا سہارا اﷲ ہی ہے ۔جب بے قرار و بے کس اسے دل کی گہرائیوں سے پکارتا ہے تو وہ ہلاکت و بربادی میں پڑنے سے پہلے اپنے بندہ کو بچالیتا ہے ۔الغرض اﷲ تعالیٰ نے اپنے وجود کی نشانیوں اور وحدانیت کی دلیلوں میں ایک یہ حقیقت بھی ذکر فرمائی ہے کہ وہ بے کس و بے قرار کی پکار کو سنتا ہے جب وہ اسے پکارتا ہے اور اس کی مصیبت و تکلیف کو دور کردیتا ہے۔ توحید اور اﷲ کی وحدانیت کا اقرار فطرت کی آواز ہے۔ ایک حدیث میں یہ حقیقت بیان کی گئی کہ ہر شخص صحیح فطرت ( دین توحید ) پر پیدا ہوتا ہے لیکن اس کے ماں باپ اور غلط ماحول اسے یہودی ، مجوسی اور نصرانی بنادیتے ہیں۔ زندگی میں کبھی ایسے حالات پیدا ہوتے ہیں یا انسان کبھی ایسی مصیبت میں گھر جاتا ہے کہ اس مصیبت سے نکلنے کی بظاہر کوئی اُمید نظر نہیں آتی بلکہ وہ اپنے آپ کو موت کی آغوش میں پاتا ہے۔ ہلاکت اُسے اپنے سامنے نظر آتی ہے ، ایسے میں سارے جھوٹے معبودوں سے اُمید ٹوٹ جاتی ہے اورانسانی فطرت پکار اُٹھتی ہے کہ ایک ہی ذات ایسی ہے جو اس مصیبت سے نکال سکتی ہے۔ انسان بڑا ناشکرا ہے کہ مصیبت و پریشانی دور ہوتے ہی اپنے پروردگار کو بھول جاتا ہے ، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’ وہ اﷲ ہی ہے جو تمہیں خشکی اور دریا میں چلاتا ہے یہاں تک کہ جب تم کشتی میں ہوتے ہو اور وہ کشتیاں لوگوں کو موافق ہوا کے ذریعہ لے کر چلتی ہیں اور وہ لوگ اس سے خوش ہوتے ہیں ، ان پر ایک جھونکا سخت ہوا کا آتا ہے اور ہر طرف سے ان پر موجیں اُٹھتی چلی آتی ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ اب ہم گھیرے میں آگئے ، اس وقت سب خالص اعتقاد کرکے اﷲ ہی کو پکارتے ہیں کہ اگر تو ہم کو اس سے بچا لے تو ہم ضرور شکر گزار بن جائیں گے ، پھر جب اﷲ تعالیٰ ان کو بچالیتا ہے تو فوراً ہی وہ زمین میں ناحق سرکشی کرنے لگتے ہیں ، اے لوگو ! یہ تمہاری سرکشی تمہارے لئے وبال ہونے والی ہے ، دنیاوی زندگی کا تھوڑا سا فائدہ ہے پھر ہمارے ہی پاس تم کو آنا ہے ، پھر ہم سب تمہارا کیا ہوا تم کو بتلادیں گے۔ ‘‘ ( یونس 22،23)۔
کتب ِحدیث میں حضرت عکرمہؓ بن ابی جہل کے بارے میں آتا ہے کہ جب مکہ مکرمہ فتح ہوا تو یہ وہاں سے فرار ہوگئے اور کسی کشتی میں سوار ہوگئے ۔ اتفاق یہ کہ کشتی کچھ دور چلنے کے بعد طوفانی ہواؤں کی زد میں آگئی ، ملاح نے کشتی میں سوار لوگوں سے کہا کہ آج اﷲ واحد سے دُعاء کرو تمہیں اس طوفان سے اس کے سوا کوئی نجات دینے والا نہیں ۔ عکرمہ کہتے ہیں میں نے سوچا کہ اگر سمندر میں نجات دینے والا صرف ایک اﷲ ہے تو خشکی میں بھی یقینا نجات دینے والا وہی ہے اور یہی بات محمد ()کہتے ہیں چنانچہ انھوںنے فیصلہ کرلیا کہ اگر میں اس مصیبت سے بچ گیا تو مکہ مکرمہ واپس جاکر اسلام قبول کرلوں گا ، پھر یہ اس مصیبت سے بچ گئے تو فطرت کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے رسول اﷲکی خدمت میں حاضر ہوئے اور اسلام قبول کرلیا ( ابوداود ، نسائی )۔
اﷲ ہی اس بات کا مستحق ہے کہ اس کے سامنے دستِ سوال دراز دیا جائے اور اسی سے مانگا جائے لیکن انسان کفر و شرک کا راستہ اختیار کرتے ہوئے اﷲ کو چھوڑ کر غیروں کے آگے ہاتھ پھیلاتا ہے۔ کبھی بے جان مورتیوں کو نفع و نقصان کا مالک سمجھ بیٹھتا ہے تو کبھی قبروں میں مدفون مُردوں سے اُمیدیں وابستہ کرلیتا ہے اور ان سے سوال کرتا ہے اس یقین کے ساتھ کہ وہ اس کی حاجت برآری کرسکتے ہیں حالانکہ اﷲ کے سوا کوئی نہیں جو بندہ کی دُعاء کو سنے اور اس کی حاجت پوری کرے ۔ عام حالات میں نافرمان اور ناشکرا انسان چاہے جس کو پکارے لیکن اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جب کبھی وہ ناگہانی مصیبت میں گھر جاتا ہے جس سے نکلنے کی بظاہر کوئی صورت نظر نہیں آتی تو ذہن و دماغ سے وہ سب ہستیاں غائب ہوجاتی ہیں جن سے اس نے جھوٹی اُمیدیں وابستہ کررکھی تھیں اور وہ پورے یقین و اعتقاد اور خلوص کے ساتھ جھوٹے سہاروں سے کٹ کر تنہا ایک ذات کو پکارتا ہے جو اس کا اور سارے جہانوں کا رب ہے ، کائنات کا ذرہ ذرہ اس کا تابع فرمان ہے  لیکن یہ انسان کی عجب دو رخی ہے کہ مصیبت سے نجات پاکر وہ پھر اپنے رب حقیقی کو بھول جاتا ہے۔اﷲ تعالیٰ کا یہ ارشاد پڑھئے اور غور و تدبر کیجئے کہ وہ کس طرح اپنی قدرت کی واضح نشانیاں بیان کرکے اپنے بندوں کو اپنی طرف بلاتا ہے ، ارشادہے:
’’ تمہارا پروردگار وہ ہے جو تمہارے لئے دریا میں کشتیاں چلاتا ہے تاکہ تم اس کا فضل تلاش کرو ، وہ تمہارے اوپر بہت ہی مہربان ہے اور سمندروں میں مصیبت پہنچتے ہی جنھیں تم پکارتے تھے سب گم ہوجاتے ہیں ، صرف وہی اﷲ باقی رہ جاتا ہے ، پھر جب وہ تمہیں خشکی کی طرف بچالاتا ہے تو تم منھ پھیر لیتے ہو اور انسان بڑا ہی ناشکرا ہے ، تو کیا تم اس سے بے خوف ہوگئے ہو کہ وہ تمہیں خشکی کی طرف لے جاکر زمین میں دھنسادے ، یا تم پر پتھروں کی آندھی بھیج دے ، پھر تم اپنے لئے کسی نگہبان کو نہ پاسکو ، کیا تم اس بات سے بے خوف ہوگئے ہوکہ اﷲ تعالیٰ پھر تمہیں دوبارہ دریا کے سفر میں لے آئے اور تم پر تیز و تند ہواؤں کے جھونکے بھیج دے اورتمہارے کفر کے باعث تمہیں ڈبو دے ، پھر تم اپنے لئے ہم پر اس کا دعویٰ ( پیچھا ) کرنے والا کسی کو نہ پاؤگے۔ ‘‘ ( الاسراء66،69)۔
یہ کتنی بڑی ناشکری اور زیادتی ہے کہ مصیبت میں اﷲ یاد آئے اور جب اﷲ اپنے فضل سے مصیبت دور کردے تو اس کو بھلا دیا جائے۔ اس ناشکری کی سزا کبھی اس طرح ملتی ہے کہ اﷲ تعالیٰ دوبارہ مصیبت میں گھیر کر ہلاکت و بربادی کیلئے بے یار ومددگار چھوڑ دیتا ہے ۔
 

شیئر: