Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بچھڑنا بھی ضروری تھا: مشرف گھر دیر سے آیا

ابھی سے میں شادی بیاہ کے جھنجھٹ میں پڑ کر اپنا کیرئیر تباہ نہیں کرنا چاہتا، اپنے پیروں پر کھڑا ہونا ہے، وہ بہت بدتمیزی سے کہہ رہا تھا
 مسز زاہدہ  قمر۔ جدہ 
صارف کو اندازہ نہیں تھا وہ جس بات کو آسانی سے حل ہوتا محسوس کر رہا تھا وہ اسقدر اُلجھی ہوئی ہو گی۔ نہ ہی گھر والو ں کو اس بات کا احساس تھا کہ گھر میں پھیلی ہوئی خاموشی کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ ہے۔ آخر خوش فہمیوں کے سارے بند توڑ کر تباہی ان کے دروازے پر کھڑی تھی۔ مُشرف کو عالم آراء نے جیسے ہی خوشگوار حیرت سے اچانک دوچار کرنے کا سوچ کر یہ خبر سُنائی وہ بُری طرح چونک گیا۔ اس کا چونکنا اتنا حیران کُن نہیں تھا جتنی اس کے چہرے پر پھیلی ہوئی ناگواری اور بیزاری تھی ۔ عالم آراء تھوڑی دیر تک تو نا سمجھی کی کیفیت میں اسے دیکھتی رہ گئیں ۔ ’’کیا بات ہے ؟؟ کیا تم خوش نہیں ہوئے ؟؟‘‘ ،وہ خود پر قابو پا کر مُشرف سے نارمل  انداز میں استفسار کر رہی تھیں ۔ ’’اس میں خوشی کی کیا بات ہے امی؟؟ میں ابھی شادی کے لئے بالکل تیار نہیں ہوں ، ابھی مجھے کلینک  چلانا ہے اسے اسٹیبل کر کے چھوٹا سا  اسپتال بنانا ہے، اپنے پیروں پر کھڑا ہونا ہے۔ ابھی سے میں شادی بیاہ کے جھنجھٹ میں پڑ کر اپنا کیرئیر تباہ نہیں کرنا چاہتا‘‘۔ وہ بہت بدتمیزی سے کہہ رہا تھا۔ آپ فی الحال غزالہ کی شادی کر دیں اور مُجھے بالکل بھی ڈسٹرب نہ کریں !!  اپنے کیرئیر کی قربانی نہیں دے سکتا‘‘۔ اس نے تھوڑا سا وقفہ دیکر گُم صُم کھڑی  عالم آراء کو صاف جواب دیا، جو اب تک غیر یقینی سے اسے تک رہی تھیں۔ 
مگر مُشرف !!! تم نے خود ہی غزالہ کو پسند کیا تھا ۔اب تک تم شادی کے لئے بہت اصرار کر رہے تھے۔۔۔۔ تم تو منگنی کے بجائے شادی کی ڈیمانڈ کر رہے تھے۔۔۔ مسلسل کبھی صارف کو اور کبھی اپنے دوستوں کو میرے پاس بھیجتے رہے مجھے کنوینس کرنے کے لئے کہ میں منگنی کی بجائے تمھاری تایا سے شادی کی بات کروں ۔۔۔۔اور اب تمھیں جلدی نہیں ہے ۔۔۔۔ کیوں ؟؟ آخر کیا بات ہے ؟؟ کیرئیر تو تم شادی کے بعد بھی بنا سکتے ہو۔۔۔۔مرد کا کیرئیر اس کی بیوی کے نصیب سے بنتا ہے۔دیکھنا نرمین تمھارے لئے کتنی خوش نصیب ثابت ہوگی‘‘۔ ان کا دل انجانے خوف سے دھڑک رہا تھا مگر وہ دل کی بات جُھٹلا کر بڑے پیار سے مُشرف کو ڈانٹ رہی تھیں۔۔۔۔۔ خود کو تسلی دے رہی تھیں۔۔۔کاش !!مشرف کہہ دے ’’امی !! میں مذاق کر رہا تھا، میں آپ کے فیصلے سے بہت خوش ہوں !!! ‘‘ ،انہوں نے کرب سے سوچا۔۔۔
’’امی !! مشرف نے بڑے سنگین اور فیصلے کُن لہجے میں انہیں پُکارا۔۔۔۔ میں نرمین سے شادی نہیں کر سکتا!!! وہ مُجھے پسند نہیں ۔۔۔۔‘‘ ، وہ بالکل جذبات سے عاری ایک سنگدل  آقا کی طرح انہیں فیصلہ سُنا رہا تھا۔’’پسند نہیں ؟؟ ارے تمھیں نرمین پسند نہیں ؟؟ تو پھر اس سے منگنی کیوں کی ؟؟ اس کے لئے میری خوشامد کیوں کرتے تھے؟؟ تم تو اس کے لئے پاگل ہوئے جا رہے تھے۔۔۔۔ میں نے تمھارے  خاطربھائی جان سے کتنا اصرار کیا، ان کی منت سماجت کر کے انہیں راضی کیا۔۔۔۔ورنہ نرمین کے لئے رشتوں کی کوئی کمی نہیں تھی۔۔۔۔ مگر اب تم کہتے ہو وہ تمھیں پسند نہیں۔۔۔۔۔ آخر اچانک ایسا کیاہو گیا جو وہ تمھیں پسند نہیں ؟؟؟ ‘‘، عالم آراء حیرت اور دُکھ کی زیادتی کے باعث بمشکل بول رہی تھیں۔۔۔ ان کی بتدریج بلند ہوتی آواز نے پورے گھر کو چونکا دیا  وہ ڈائننگ روم میں مُشرف سے بات کر رہی تھیں۔ حسب سابق آج بھی مُشرف دیر سے گھر آیا تھا بہانہ یہی تھا کہ کلینک کو زیادہ وقت دے رہا ہوں وہ تو کھانا بھی نہیں کھانا چاہتا تھا مگر عالم آراء نے ممتا سے مجبور ہو کر اسے ڈانٹ ڈپٹ کرکھا نے کے لئے بیٹھایا دو چار لقمے جلدی جلدی کھا کر اُّٹھنے ہی والا تھا ۔ عالم آراء کو اس پر بہت پیار آیا ۔ وہ اسے مشرف کی تھکن سمجھ رہی تھیں ۔ انہیں مُشرف پر ترس آرہا تھا کہ وہ اتنی محنت کر رہا ہے کہ کھانا پینا بھی بھول گیا۔ انہیں علم نہیں تھا کہ وہ نازو کے گھر سے خوب کھا پی کر لوٹا تھا۔ انہوں نے اسے خوش کرنے کے لئے نرمین سے شادی کی خبر سُنائی تھی۔ آج کل گھر میں بھی اس کا موڈ خراب رہتا ، وہ ہر وقت غُصے میں رہتا تھا۔۔۔۔غصہ تو اس کو پہلے بھی بہت آتا تھا مگر اب تو اس کا رویہ کسی کو بھی اس کے قریب نہیں آنے دیتا تھا، بہنیں بھی اس سے خائف ہو کر دور دور رہتیں صرف عالم آراء تھیں جنہیں اس کی بدمزاجی تھکن اور شبانہ روز کی محنت کا نتیجہ لگتی اور آج بھی انہیں اس کا چہرہ دیکھ کر ٹوٹ کر پیار آیا۔
’’کیا ہوا امی ؟؟‘‘ ، ان کی آواز سُن کر سب سے پہلے صارف اندر آیا۔۔۔۔اسے دیکھ کر مُشرف کے تیور اور بگڑ گئے۔’’کیا ہونا ہے ؟؟؟ صاحبزادے شادی سے انکار کر رہے ہیں ، انہیں نرمین پسند نہیں ہے اب !!! عالم آراء کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کہیں ۔۔۔۔۔ صارف کا دل دھک سے رہ گیا۔۔ اوہ !!تو معاملہ اس حد تک خراب ہو چُکا ہے ۔۔۔۔ اس نے دُکھ سے سوچا۔۔۔۔ ’’کیا بات ہے  مُشرف ؟؟؟ امی کیا کہہ رہی ہیں ؟؟ ‘‘، اس نے انجان بن کر پوچھا۔ ’’امی بالکل ٹھیک کہہ رہی ہیں ۔۔۔ مُجھے نرمین پسند نہیں اور میں اس سے شادی نہیں کر سکتا‘‘ اس نے بڑے اطمینان سے صارف کو بتایا۔ ’’مگر کیوں ؟؟ تمھیں نرمین کیوں پسند نہیں؟؟ تم تو اسے بہت چاہتے تھے، اب کیا ہوا؟؟ صارف نے اپنا غصہ ضبط کر کے پوچھا۔ ’’بھائی جان !! اس کو پسند کرنا میری بھول تھی اور اب مجھے معلوم ہوا ہے کہ میں اسے بالکل بھی چاہتا واہتا نہیں ہوں۔۔۔۔ دراصل اب میں آپ کو صاف صاف  بتا ہی دوں ۔۔۔ تاکہ یہ مسئلہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے، مجھے نازو پسند ہے اور میں اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔ وہی نازو جو آپکو  تقریب میں ملوانے لایا تھا۔۔۔۔  آپ کو تو یاد ہو گا؟؟ ‘‘ اس نے ماں کو یاد دلایا۔ ’’وہ لڑکی !!!! عالم آراء ہی نہیں بلکہ دروازے میں کھڑی غزالہ ، کشمالہ اور انیلہ بھی حیران رہ گئیں۔
’’ارے اس قدر بدکردار لڑکی۔۔۔۔اور اتنا اخلاق باختہ خاندان ۔۔۔۔ تو نے ان لوگوں میں کیا دیکھا؟؟؟ کیا دیکھ کر اُسے پسند کیا؟؟ کیا تُجھے نہیں معلوم ؟؟ وہ لوگ ناچ گانا کرنے والے لوگ ہیں ابھی پرسوں  مُجھے سامنے والی مہ جبین نے بتایا۔ وہ ان کو تقریب میں دیکھ کر حیران ہو رہی تھی اس نے بتایا کہ یہ لوگ اس کی بہن اور نند کی تقریبات میں ناچ گانا کرنے آئے تھے۔۔۔۔‘‘، عالم آراء تفصیل بتا رہی تھیں ، وہ سمجھ رہی تھیں شاید مُشرف کو کچھ عِلم نہیں اور نازو کی  اصلیت جان کر وہ شرمسار ہو جائے گا مگر ان پر اس وقت حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے جب مُشرف کو کہتے سُنا مُجھے سب معلوم ہے ، کسی کا کردار پیشے سے نہیں بنتا، لوگ مجبوری میں بھی کوئی پیشہ اختیار کر سکتے ہیں ، ؛پڑھی لکھی عورتیں ماسی تک بن جاتی ہیں، اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟؟؟‘‘ ، وہ نازو کی وکالت کر رہا تھا۔۔۔۔۔ 
’’اگر مجبور تھی توواقعی ماسی بن جاتی، یہ ناچ گانا کیوں کرنے لگی۔ اتنے لوگوں کے بیچ ناچنے گانا والی تُجھے شریف لگ رہی ہے اور اپنی بہینیں اگر فون بھی ریسیو کر لیں تو ہنگامہ برپا کر دیتا ہے کہ کہیں کسی آدمی کا فون نہ ہو، کہیں بہنوں کی آواز نہ سُن لے ، تُجھے غیرت نہ آئی کہ اتنی بدکردار اور غیر مردوں کے سامنے ناچنے گانے والی لڑکی ۔۔۔۔ اس کو محفلوں کی زینت بنا نے والے اس کے والدین اور اس کے ہم پیشہ رشتےداروں  سے رشتے داری کرنے کا سوچ بیٹھا ہے ‘‘۔ عالم آراء کی آواز دُکھ سے رُندھ گئی ’’آپ کچھ بھی کہیں ۔۔۔۔ مُجھے نازہ سے ہی شادی کرنی ہے میں ۔۔۔۔۔‘‘ وہ مسلسل بول رہا تھا۔ 
٭٭٭٭٭٭٭٭
 

شیئر: