Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ٹیکس …اسامیاں اور کچھ نا معلوم

***برجس حمود البرجس۔مکہ***
ہماری معیشت بڑی بھی ہے اور مضبوط بھی ۔آئندہ سطور میں پیش کئے جانیوالے اعداد و شمار پڑھ کر آپ کو میری بات درست لگے گی ۔ ہماری کمپنیوں کو سعودی معیشت کو جدید خطوط پر استوار کرنے اور اعلیٰ تنخواہوں والی اسامیاں فراہم کرنے سے متعلق سعودی قیادت کی امنگوں کو پورا کرنے کیلئے ’’مقامی شراکت‘‘ میں اضافہ کرنا ہو گا ۔ مندرجہ ذیل اعداد و شمار سے آپ کو پتہ چلے گا کہ سرکاری سودے اور کمپنیوں سے ہونیوالے سودے کتنے زیادہ ہیں ۔ ان کے اعدادوشمار کیا ہیں ۔ 
اعداد و شمار پیش کرنے سے پہلے یہ بات جان لی جائے کہ سعودی کمپنیاں سامان فروخت اور خدمات مہیا کرنے سے پہلے کیا کچھ کر رہی ہیں ۔ یہ کمپنیاں تیار اشیاء اور تیار خدمات درآمد کرتی ہیں ۔ ہماری کمپنیاں ان پر اپنے ٹیگ لگاتی ہیں اور انہیں مارکیٹ کے حوالے کرنے کیلئے درکا ر تدابیر کرتی ہیں ۔ اس طرح مصنوعات اور خدمات کے سلسلے میں ان کی شراکت انتہائی معمولی ہے ۔ 
کسی بھی ملک کی معیشت کو جانچنے کیلئے یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس ملک کے لوگ ادارے اور کمپنیاں پیداوار میں کتنا کچھ حصہ لے رہے ہیں ۔ میں اپنی بات واضح کرنے کیلئے نیا طریقۂ کار اختیار کروں گا ۔ 
سعودی عرب سالانہ 500ارب ریال سے زیادہ کا سامان درآمد کر رہا ہے ۔ مختلف خدمات اور اشیاء کے سودوں پر سالانہ 910ارب ریال سے زیادہ ویلیو ایڈڈ ٹیکس آتا ہے اور سعودی کمپنیاں 800ارب ریال زکات کی مد میں دیتی ہیں ۔ غیر ملکی کمپنیوں کا منافع 50ارب ریال کے لگ بھگ ہے یعنی ان کی درآمدات 500ارب ریال سے زیادہ کی ہیں ۔ 2018ء کے بجٹ کے نتائج کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ 168ارب ریال تک ٹیکس پہنچ گیا ہے ۔ ویلیو ایڈڈ ٹیکس کا حجم 45.6ارب ریال تک کا ہے ۔ یہ ایک سال کے دوران 912ارب ریال مالیت کی خدمات اور اشیاء کے سودوں پر 5فیصدٹیکس کا نتیجہ ہے ۔ یہ بھی ذہن میں رہے کہ ویلیو ایڈڈ ٹیکس سے بعض اشیاء اور ادارے مستثنیٰ ہے ۔ ایسی دکانیں جو ایک ملین ریال سے کم مالیت کا سامان درآمد کرتی ہیں ان پر ویلیو ایڈڈ ٹیکس نہیں ۔ غیر سعودی کمپنیوں پر انکم ٹیکس اور دوسرا ٹیکس 16.1ارب ریال تک کا ہے ۔ اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ غیر ملکی کمپنیوں کا خالص منافع 50ارب ریال تک کا ہے ۔ گویا اس منافع کا حجم سعودی حصص مارکیٹ میں رائج کمپنیوں کے 50فیصد منافع کے مساوی ہے ۔ جہاں تک زکات آمدنی کا تعلق ہے تو وہ اللہ کے کرم سے 20ارب ریال تک پہنچ جائے گی ۔ سعودی کمپنیوں اور مالکان سے 2.5فیصد وصول کی جاتی ہے ۔ اس کا حجم 800ارب ریال تک پہنچے گا ۔ 
یہ اعداد و شمار سعودی مارکیٹ کی سرگرمیوں کا پتہ دیتے ہیں ۔ ہر سال یہ اعداد و شمار خود کو دہراتے ہیں ۔ ہر سال بڑھتے ہیں ۔ کمپنیاں اب تک صرف 20لاکھ سے کم سعودیوں کو اپنے یہاں روزگار فراہم کر سکی ہیں ۔ ان کی سالانہ مجموعی تنخواہ 170ارب ریال بنتی ہے بشرطیکہ اوسط تنخواہ 7300ریال ماہانہ فرض کر لی جائے ۔ نجی ادارے کو روزگار فراہم کرنے میں اول ہونا چاہئے ،سرکاری سیکٹر کو نہیں ۔ 
اصل معاملہ یہ ہے کہ مقامی پیداوار کا تناسب نہایت کمزور ہے ۔ کمپنیاں گاڑی ، جہاز اور ٹرین درآمد کر رہی ہیں ۔ یہ ساری چیزیں تیار حالت میں سعودی بندرگاہوں پر پہنچتی ہیں ۔ یہ سب کچھ فروخت کرنیوالوں کو ملازمتیں مہیا کرنا ہوں گی ۔ اسی طرح مختلف خدمات ، کھانے پینے کی اشیاء ، الیکٹرانک آلات ، مشینیں اور ساز و سامان سب کا سب تیار حالت میں آتا ہے ۔ بعض بنیادی اشیاء اس سے مستثنیٰ ہیں ۔ درآمدی کمپنیوں کا کام درآمد شدہ سامان کو فروخت کرنے کے سوا کچھ نہیں ۔ یہ کمپنیاں مقامی پیداوار کو بڑھانے کے سلسلے میں کچھ نہیں کر ر ہیں ۔ یہ ہدف حاصل کرنے کیلئے ریسرچ ،ترقی یافتہ ٹیکنالوجی مہیا کرنا ہو گی ۔ مقامی کمپنیاں ایسے کسی بھی عمل سے کافی دور ہیں ۔ 
 

شیئر: