Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

2019ءسعودائزیشن کی شرح تیزی سے بڑھانے والا سال

عبدالحمید العمری ۔ الاقتصادیہ
نجی اداروں میں سعودائزیشن کی شرح میں اضافہ موجودہ مرحلے میں سعودی قومی اقتصاد کو درپیش 2بڑے نمایاں چیلنجوں میں سے ایک ہے۔ دوسرا چیلنج یہ ہے کہ سعودیوں کو مکانات حاصل کرنے کی راہ میں جو رکاوٹیں پیش آرہی ہیں انہیں تیزی سے حل کیا جانا ضروری ہے۔ آج میری گفتگو کا موضوع سعودائزیشن کی شرح میں تیزی کیساتھ اضافہ ہے۔
2018ءکی تیسری سہ ماہی کے اختتام تک کے اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ نجی اداروں میں سعودائزیشن میں شرح نمو 3.4فیصد سے زیادہ نہیں ہوئی۔ابتدائی 3سہ ماہیوں کے دوران خواتین اور مرد حضرات کی تقرری میں کمی کے اعدادوشمار ایک جیسے ہیں۔ 3.4فیصد مرد اور 3.5فیصد خواتین روزگار سے منسلک ہوئیں۔ بے روزگاری کی شرح 2018ءکے وسط تک 13فیصد تک ریکارڈ کی گئی۔
کہنے والا کہہ سکتا ہے کہ سعودائزیشن کی شرح میں تیزی لانے کی بات تو اس وقت کی جائے جب سعودائزیشن کا عمل موزوں اور مناسب طریقے سے ہورہا ہو۔ دیگر حضرات یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ سعودائزیشن میں شرح نمو سے قبل نجی اداروں میں شرح نمو کی گفتگو زیادہ ضروری ہے۔اقتصادی پالیسی نجی اداروں میں شرح نمو کس طرح لاسکتی ہیں۔ نجی اداروں کو درپیش مسائل کسی بھی حالت میں نظر انداز نہیں کئے جاسکتے۔
اس حوالے سے عرض ہے کہ 2018ءکی تیسری سہ ماہی کے اختتام پر نجی اداروں میں 2.0فیصد شرح نمو ریکارڈ کی گئی۔ یہ اعدادوشمار محکمہ شماریات کے ہیں۔ 2017ءکے اعدادوشمار کا تناسب بھی یہی رہا تھا۔اعدادوشمار سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ صنعتوں میں حقیقی شرح نمو 3.1 فیصد تک پہنچ گئی۔ 2016ءکی چوتھی سہ ماہی کے اختتام پر بھی یہی شرح نمو ریکارڈ پر آئی تھی البتہ 2017ءکے دوران اس میں کمی واقع ہوئی ۔ پھر 2018ءکے دوران اس میں اضافہ ہوا۔
میں کئی با ر ایک بات تاکیداً کہہ چکا ہوں کہ موجودہ لیبر مارکیٹ سعودائزیشن کے حوالے سے مختلف طریقہ کار کی متقاضی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نجی اداروں میں درمیانے اور اعلیٰ درجے کے عہدوں پر سعودی تعینات کئے جائیں۔ جب جب ایسا ہوگا تب تب غیر ملکی کارکنان کی تعداد کم ہوگی اور جب جب اس اصول کو توڑا جائیگا تب تب غیر ملکی ملازمین کی تعداد میں اضافہ ریکارڈ ہوگا۔ غالباً وزارت محنت و سماجی بہبود اس انتہائی اہم پہلو کی جانب متوجہ ہوگئی ہے۔ اس نے زیادہ موثر پروگرام جاری کئے ہیں۔ 
وزرات محنت کی ایک ذمہ داری یہ بھی ہے کہ وہ نجی ادارو ںمیں کلیدی اور ایگزیکٹیو اسامیوں کی سعودائزیشن پر توجہ مرکوز کرے۔ یہ اسامیاں ایسی ہیں جن پر کام کرنے والوں کیلئے اچھی تنخواہیں مقرر ہیں اور یہ وہ اسامیاں ہیں جن پر سرفراز افراد نجی اداروںکے فیصلے کرتے ہیں اور یہی وہ علاقہ ہے جہاںسعودائزیشن کے جملہ فیصلوں کے موثر اور غیر موثر ہونے کا مستقبل طے ہوتا ہے۔اگر وزارت محنت 2017ءاور 2011ءکے دوران غیر ملکی کارکنان کے اثر و نفوذ کی بابت حقیقی جائزہ دیکھے گی تو اسے پتہ چلے گا کہ جب جب کلیدی مناصب اور ایگزیکٹیو اسامیوں پر غیر ملکی تعینات پائے گئے تب تب سعودائزیشن کی مطلوبہ شرح حاصل نہیں ہوسکی۔
ان سب سے اہم یہ ہے کہ وزارت محنت نجی اداروں میں فیصلہ ساز اسامیوں کی بابت نئے اور موثر پروگرام ڈیزائن کرے۔ کلیدی اور ایگزیکٹیو کلاس کے عہدو ںکی سعودائزیشن بڑے پیمانے پر کرے۔وجہ یہ ہے کہ جو کچھ نجی اداروں میں ہورہاہے، وہ غیر ملکی کارکنان کو حد سے زیادہ روزگار فراہم کرنے کی دین ہے۔ غیر ملکی کلیدی عہدو ں اور مختلف کمپنیوں و ادارو ںمیں ایگزیکٹیو کلاس کی اسامیوں پر حد سے زیادہ براجمان ہیں۔نجی کمپنیوں و ادارو ںکے مالکان یہ کام باصلاحیت سعودی نوجوانوں کے حساب پر کررہے ہیں۔
سعودی لیبر مارکیٹ کواس بات کی اشد ضرورت ہے کہ زیادہ اسمارٹ اور ڈائنامک سعودائزیشن کے پروگرام تیار کئے جائیں۔ ہر ادارے کی سرگرمیوں اوراسکے حجم کی نشاندہی کرکے اسکے لئے کلیدی اور ایگزیکٹیو عہدے ترتیب دیئے جائیں۔ وزارت محنت ایسا کرکے بہت کچھ حاصل کرسکتی ہے۔ دوسرا کام وزار ت محنت کو یہ کرنا ہے کہ وہ مختلف اداروں اور کمپنیوں میں انتظامی عہدوں کی درجہ بندی کرے، انکی فہرست تیار کرے، ان پر سرفراز افراد کے محنتانوں کا پتہ لگائے، ان کےلئے درکار علمی اور تجرباتی استعداد کی نشاندہی کرے اور اس تناظر میں انکی سعودائزیشن کی فکر کرے۔ 
٭٭٭٭٭٭٭٭
 

شیئر: