Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ملائیشیا میں 6 روز

ملائیشیا بڑا ہی خوبصورت ملک ہے۔ اس ملک میں مسلمانوں کی آبادی 62 فیصد ہے۔13 ساڑھے 13 سو سال پہلے پہلی مرتبہ اسلام کی آواز پہنچی

 

 
عبدالمالک مجاہد۔ریاض

15نومبر 2018 کو جمعرات کا دن تھا ۔میں اپنی اہلیہ کے ساتھ 6روز کیلئے سنگاپور سے کوالالمپور پہنچا تو رات کے10 بج رہے تھے۔ میرا شروع دن سے سفر کا اصول اور طریقہ کار رہا ہے کہ میں اس بات کا خوب اہتمام کرتا ہوں کہ مجھے ایئرپورٹ پر کس نے ویلکم کہنا ہے اور میں نے کون سے ہوٹل میں ٹھہرنا ہے۔ 15سال پہلے میں کوالالمپور بڑی کثرت سے آیا کرتا تھا۔ ہم نے یہاں در السلام کی برانچ بھی کھولی تھی۔ اس زمانے میں چین آتا تو وہاں سے 2 سے 3 دنوں کیلئے کوالالمپور ضرورآتا۔ ملائیشیا آکر مجھے بڑا مزا آتا ہے۔ بڑا کھلا شہر ،قدرے اسلامی ماحول، مساجد ،مدارس، اسلامی یونیورسٹی، اسلامی حکومت۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ میں ملائیشیا میں اسلام کو میٹھا میٹھا اسلام کہتا ہوں۔ یہ میٹھا میٹھا اسلام کیوں کہتا ہوں؟ اس کے بارے میں آگے جا کر پڑھیں گے۔ فی الحال تو آپ کو بتانا مقصود ہے کہ ہم کولالمپور ائیرپورٹ پر کوئی آدھ گھنٹہ پیدل چلتے رہے تب جاکر ایمیگریشن اور کسٹم کی باری آئی۔ پہلے جب میں یہاں آتا تو مسافروں کو ہوائی جہاز سے اترتے ہی ٹرین کے ذریعہ امیگریشن حال میں پہنچایا جاتا تھا مگر شاید سنگاپور سے آنے والے مسافروں کے ساتھ خصوصی سلوک تھا کہ ایئرپورٹ کے اندر ہی اندر پیچ دار راستوں سے گزر کر ہم ایمیگریشن حال میں پہنچے۔ وہاں بھی مسافروں کی لمبی قطاریں لگی ہوئی تھیں میں نے کوشش کی کہ ہماری باری جلد آ جائے اس لئے ایک 2 مرتبہ لائن کو بھی تبدیل کیا مگر ایمیگریشن والے خاصا وقت لے رہے تھے ۔مجھے اس بات کی کوفت تھی کہ میرا چینی دوست سلیمان صینی ائیرپورٹ پر ہمارے استقبال کے لیے کھڑا تھا۔ کوالالمپور میرے کتنے ہی جاننے والے ہیں جن کو میں ائیرپورٹ پر استقبال کی زحمت دے رکھی تھی۔
     بعض لوگوں سے آپ اللہ کیلئے محبت کرتے ہیں۔ آپ کی زندگی میں بے شمار ایسے لوگ ہوںگے جن کے ساتھ آپ کے کاروبار یا دنیاوی مقاصد ہیں اس لئے آپ ان سے محبت بھی کرتے ہیں۔ ان سے ملاقات بھی کرتے ہیں۔ جس کے ساتھ آپ کے کاروباری یا دنیاوی تعلقات نہ ہوں بلکہ آپ اس سے صرف اور صرف اللہ کیلئے محبت کرتے ہوں تو ایسے شخص کے ساتھ مل کر بڑی خوشی اور مسرت ملتی ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑی مشہور حدیث ہے جس میں آپ نے فرمایا کہ: قیامت کے روز 7 قسم کے ایسے لوگ ہوں گے جنہیں اللہ رب العزت اپنے عرش کا سایہ نصیب کریں گے۔ اس دن اللہ کے عرش کے علاوہ اور کوئی سایہ نہ ہوگا۔ ان7 خوش نصیب لوگوں میں 2شخص وہ بھی ہوںگے جو محض اللہ کی ذات کیلئے ایک دوسرے کے ساتھ محبت کرتے ہیں۔ وہ ملتے ہیں تو اللہ کی رضا کے لئے ،جدا ہوتے ہیں تو اللہ کی رضا کے لئے۔ ان کی محبت کا پیمانہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ برادرم سلیمان صینی الحمدللہ میرے انہی دوستوں میں سے ہیں جن کے ساتھ میں صرف اللہ کے لئے محبت کرتا ہوں۔ میرے ان کے ساتھ کم و بیش 20 سال سے تعلقات چلے آ رہے ہیں۔ یہ مدینہ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہیں۔ انہوں نے لنجو کے علاقے میں اسلام کی تعلیمات کو عام کرنے کیلئے بے پناہ کام کیا ہے۔ میرا جب چین جاناہو تو میری کوشش ہوتی ہے کہ میں ان سے ضرور ملاقات کروں۔ بے پناہ متحرک ساتھی ہیں۔ ان کی سوچ اور فکر اسلام اور کتاب وسنت کی دعوت سے شروع ہوتی ہے اور اسی پر ختم ہو جاتی ہے ۔دبلے پتلے سلیمان جب کبھی ریاض تشریف لاتے تو میں زبردستی ان کو اپنے گھر لے آتا۔ ان سے کہتا کہ دیکھو سلیمان بھائی! جو چاہے مجھ سے طلب کر لو، میں نے تمہیں قیامت کے روز اپنے اللہ کے سامنے پیش کرکے کہنا ہے کہ میرے رب میں اس بندے سے صرف اور صرف تیری ذات کیلئے محبت کرتا ہوں۔ مجھے اپنی زندگی میں جن باتوں پر افسوس ہوا ہے ان میں ایک یہ بھی ہے کہ سلیمان نے درجنوں بار لنجو آنے کی دعوت دی جو بیجنگ سے کم و بیش ایک ہزار کلومیٹر کے فاصلے پر شمال کی جانب واقع ہے، جہاں انہوں نے کتنے ہی ادارے بنائے ہیں۔ اس علاقے میں مسلمان خاصی تعداد میں بستے ہیں۔ آپ کو پڑھ کر خوشی ہوگی کہ اس شخص کی وساطت سے چین کے مختلف علاقوں میں کم و بیش 330 مساجد بن چکی ہیں۔ ہم نے جب چینی زبان میں قرآن پاک کا ترجمہ کرنا تھا تو یہی سلیمان میرے کام آیا تھا۔ میں نے شنگھائی میں ان لوگوں کے ساتھ مذاکرات کئے تھے ۔ڈاکٹر حبیب اللہ جو چینی زبان میں قرآن کے مترجم ہیں، ان کے ساتھ تعارف انہوں نے ہی کروایا تھا۔اب اگر آپ کو معلوم ہو کہ آپ جس شہر میں جارہے ہیں وہ شخص اس شہر میں مقیم ہے تو کیا آپ اس سے ملے بغیر رہ سکیں گے؟ میرا یہ دوست کاروباری آدمی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے خوب دے رکھا ہے۔ اس کا دسترخوان بڑا وسیع ہے۔ خود بہت کم کھاتا ہے۔ مہمانوں کو زبردستی اپنی جیب سے کھلاتا ہے۔ کچھ حالات ایسے بنے کہ میرے اس دوست کو چند سالوں سے ملائیشیا میں بسنے کا موقع ملا ہوا ہے۔ میرا سلیمان سے رابطہ رہتا ہے۔ میں نے ملائیشیا جانے کا پروگرام بنایا تو جن لوگوں سے ملاقات کی خواہش رکھتا تھا، ان میں سلیمان صینی سرفہرست تھا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ سلیمان! میں چند دنوں کیلئے ملائیشیا آرہا ہوں کیا تم مجھے ایئرپورٹ پر خوش آمدید کہو گے، تو اس کا جواب مثبت میں تھا۔ کہنے لگا: کیوں نہیں، میں ضرور آؤں گا ۔
    میری اس کے ساتھ کوئی 12,10سال بعد ملاقات ہو رہی تھی اس لئے کوالالمپور ایئرپورٹ پر ایمیگریشن اور کسٹم کی کوفت کو چھوڑیں،جب آپ کا دوست ،محب جس کے ساتھ آپ اللہ کیلئے محبت کرتے ہیں، اگر آپ کا انتظار کر رہا ہے اورآپ اس سے12سال بعد ملتے ہیں تو اس سے ملتے ہی سفر کی ساری کوفت بھول جائیں گے۔ بالکل میرے ساتھ ہوا بھی یہی ۔مجھے خاصی دیر تک گلے لگائے رکھا۔یہ محبت ،دوستی اور معانقہ اللہ کیلئے تھا۔ رات کے 11بج رہے تھے۔ میں اپنے دوست کے حالات جاننے کیلئے بے چین تھا۔ مجھے اپنے گناہ گار ہونے کا اعتراف ہے مگر مجھے اعزاز ہے کہ میں مسلمانوں کے ساتھ محبت کرتا ہوں۔ ان کا تعلق کسی بھی ملک بستی یا شہر سے ہو میرا دل ان کے ساتھ دھڑکتا ہے اور یہی میرا سرمایۂ حیات ہے۔
     کولالمپور میں میرا پسندیدہ ہوٹل ایسٹن ہوٹل ہے ۔ماضی میں جب بھی ملائیشیا آتا اسی ہوٹل میں قیام کرتا ہے۔ یہ فائیو اسٹار ہوٹل مجھے اس لیے پسند ہے کہ اس کے کمرے کی کھڑکی کھولیں تو سامنے حد نگاہ تک سبزہ نظر آتا ہے۔ سر سبز اور شاداب علاقے اور باغات میری کمزوری ہیں۔
     میرے بیٹے عبدالغفار نے 6راتوں کیلئے اس ہوٹل کو ہمارے لئے بک کروا دیا ہوا تھا اور کریڈٹ کارڈ سے مبلغ بھی ادا کر دیا تھا۔ جب ہم سلیمان کی نئی نویلی گاڑی میں بیٹھے تو ہمارا رخ ایسٹن ہوٹل کی طرف تھا۔ ایئرپورٹ سے ہوٹل پہنچنے تک کم وبیش گھنٹہ تو لگ ہی گیا ہو گا مگر میں اس دوران اپنے بھائی سے چینی مسلمانوں کے حالات کرید کرید کر پوچھتا رہا۔ اسکی داستان سن کر میں کبھی مسکراتا تو کبھی رو دیتا ۔
     عزیزو! میں اکثر سوچتا ہوں کہ پاکستان بہت بڑی نعمت ہے۔ ایک آزاد اسلامی ملک ،جس میں ہمیں اپنی عبادات اور دین پر چلنا کتنا آسان ہے۔ قائداعظم اور ان کے ساتھیوں نے جس طرح اس ملک کو آزاد کروایا ،اس کیلئے دن رات محنت اور جدوجہد کی، اس کی آزادی کیلئے لاکھوں لوگوں نے قربانیاں دیں ہمیں اس نعمت کی قدر کرنی چاہیے۔
     چینی مسلمان اسلام کو باقی رکھنے کیلئے بڑی قربانی دے رہے ہیں۔ ان کی داستان کو سنیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ’’یہ شہادت گہ الفت میں قدم رکھنا ہے،لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلمان ہونا۔‘‘
     میں نے چین کے مسلمانوں پر بہت کچھ لکھا ہے اور آئندہ بھی انشاء اللہ لکھتا رہونگا۔ اپنے قارئین سے درخواست کروں گا کہ ان کے حق میں دعا ضرور کیا کریں۔ اللہ تعالی انہیں استقامت عطا فرمائے، جو شہداء ہیں ان کے درجات کو بلند فرمائے اورجو قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں، اللہ تعالیٰ انہیں اپنے عزیز و اقارب میں واپس لوٹا دے،آمین۔
     ایسٹن ہوٹل کوالالمپورکے اطراف میں واقع ہے۔ جب ہم ہوٹل پہنچے تو رات کے12 بج چکے تھے۔ برادرم سلیمان کا اصرار تھا کہ میں آج کی رات تو اس ہوٹل میں ٹھہر جاؤ ںمگر کل سے ان کے گھر ٹھہروں۔ اس نے الحمدللہ اپنا گھر خرید رکھا ہے اور اس کے بقول اس کا ایک حصہ بالکل خالی ہے۔ یہ بالکل نیا اور صاف ستھرا اپارٹمنٹ ہے۔ میں نے اسے بتایا کہ میں ہوٹل کا کرایہ ادا کر چکا ہوں۔ میرے پاس بہت سارے لوگوں نے ملنے کیلئے آنا ہے۔ ہوٹل میں رہنے سے آسانی رہے گی مگر اس اللہ کے بندے نے مجھے اتنا مجبور اور اصرار کیا کہ وعدہ کرنا پڑا کہ آئندہ جب کبھی میں اس ملک میں آؤں گا تو انشاء اللہ ان کے پاس ہی ٹھہروں گا۔
     قارئین کرام! جی تو چاہتا ہے کہ میں آپ کو پوری تفصیل کے ساتھ چین میں بسنے والے مسلمانوں کے حالات سے آگاہ کروں مگر شاید یہ صفحات اس کی اجازت نہیں دیتے۔ اتنا ضرور ہے کہ جب مجھے سلیمان کی معرفت بنائی گئی مساجد کی تفصیل ،وہاں پر نمازیوں کی تعداد ۔دعوتی سرگرمیاں ،سلیمان کا مساجد بنانے کا طریقہ کار وغیرہ ان ساری باتوں کا علم ہوا تو پھر مجھے اطمینان بھی ہوا کہ اللہ اور اسکے رسول کا دین ہر بستی ،ہر شہر میں پھیل رہا ہے۔
    قارئین کرام!میںآپ کو کتنے سال پہلے چین میں مسجد بنانے کا تذکرہ بیان کرچکا ہوں۔ مختصر یہ ہے کہ میں جس شہر میں کام کرواتا تھا وہاں ایک بھی مسجد نہیں تھی اور یہ شہر اتنا بڑا ہے کہ آپ گھنٹوں کے حساب سے اس شہر میں گھومتے پھرتے ر ہیں یہ شہر ختم نہیں ہوتا۔ وہاں اکیلا مسلم ریسٹورنٹ تھا جہاں ہمیں حلال فوڈ مل جاتا تھا۔ یہ کوئی 15سال پہلے کی بات ہے۔ مجھے معلوم ہوا کہ یہاں چینی مسلمان ایک کمرہ کرایہ پر لے کر جمعہ کی نماز ادا کرتے ہیں۔ ایک سفر میں جمعہ کا دن تھا۔ میں نے اپنا مسلمان مترجم ساتھ لیا اور امام سے ملا۔ خوب لمبے چوڑے قدو قامت کے مالک تھے۔ عمر کوئی 65 سال ہوگی ۔میں نے جب ان سے کہا کہ آپ لوگ مسجد کیوں نہیں بناتے تو اس نے مالی بے بسی کا اظہار کیا۔ میں نے کہا کہ آپ مسجد بنانے کی نیت کریں،آدھے پیسے میں ادا کردوں گا۔ آدھے آپ اکٹھے کر لیں۔ بس قارئین کرام!کچھ نہ پوچھیں اس باباجی کے چہرے پر کیسی چمک آئی۔ میں شاید اس چمک کی خوشی کو قیامت تک نہ بھول سکوں۔ انھوں نے مجھے گلے لگا لیا ۔اسکے بعد کچھ نہ پوچھئے، اس شہر کے چینی مسلمانوں کو معلوم ہوا کہ اس شہر میں نماز پڑھنے کی جگہ بننی ہے تو انہوں نے اس شوق اور جذبہ سے مسجد کی تعمیر کے لیے فنڈدیئے کہ آنا فاناً رقم جمع ہوگئی۔ میرے حصہ میں تو بالکل تھوڑی سی رقم آئی تھی۔
    قارئین کرام! میںنے یہ واقعہ اس لئے بیان کیا ہے کہ مسلمانوں میں اب بھی جذبہ موجود ہے۔ وہ جس جگہ بھی رہتے ہیں دین مذہب اور اسلام کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ اسلام کے لیے قربانیاں دینا یہ سلسلہ روز ازل سے چلا رہا ہے۔
     ملائیشیا بڑا ہی خوبصورت ملک ہے۔ اس ملک میں مسلمانوں کی آبادی 62 فیصد ہے۔ مسلمان کم و بیش ڈھائی سے 3 کروڑ ہونگے۔ اس علاقے میں مسلمان تاجروں کی بدولت آج سے کوئی  13 ساڑھے 13 سو سال پہلے پہلی مرتبہ اسلام کی آواز پہنچتی ہے۔ اسلام امن کا دین ہے۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دوراقدس میں سیدنا ربعی بن عامر ؓ  کسریٰ کے دربار میں کھڑے اس سے گفتگو کر رہے ہیں۔ کسریٰ نے بڑی رعونت سے پوچھا کہ تم کون ہو اور ہمارے علاقے میں کیوں آئے ہو تو سیدنا ربعی بن عامرؓ نے جواب دیا کہ ہم بندوں کو بندوں کی عبادت سے نکال کر بندوں کو رب کی عبادت میں داخل کرنے کیلئے آئے ہیں۔
     اسلام نے اپنے ماننے والوں کی اعلیٰ اخلاق پر تربیت کی جس میں دھوکہ، فراڈ، جھوٹ فریب کا کوئی حصہ نہیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس نے کسی کو دھوکہ دیا اسکا محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی تعلق نہیں۔ اسلام یمن اور ہندوستان کے مسلمان تاجروں کی بدولت انڈونیشیا اورملائیشیا کے علاقے میں پہنچتا ہے۔ یہ لوگ ایماندار اور سچے تھے۔ لوگ ان کے دین کو پسند کرنے لگے۔ اس علاقے میں ہندو راجہ حکومت کرتا تھا۔ اسلام بتدریج پھیلتا رہا مگر حقیقی طور پر اسلام آج سے800 سال پہلے یعنی 12سو میلادی میں پھیلتا ہے۔ اس علاقے کے سلطان قدح شاہ نے اسلام قبول کیا۔ اسکے اسلام میں داخل ہونے کے بعد اس علاقے کے بہت سارے لوگ اسلام قبول کر لیتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی تعداد بڑھتی چلی گئی اور آج الحمدللہ ملائیشیا میں 62 فیصد مسلمان پائے جاتے ہیں۔ یہاں کا سرکاری مذہب بھی اسلام ہے۔ اکثریت امام شافعی  رحمہ اللہ کے ماننے والے لوگ ہیں۔ سرکاری مذ ہب بھی سنی شافعی ہے۔ یہاں جگہ جگہ بڑی خوبصورت مساجد ہیں۔ ان کو دیکھ کر دل خوش ہو جاتا ہے ۔مجھے ان6 دنوں میں مختلف مساجد میں نماز پڑھنے کا موقع ملا۔ میں نے دیکھا کہ مساجد صرف نمازوں کے لیے نہیں بلکہ ان میں دروس اور تحفیظ القرآن کے حلقات بھی قائم ہیں۔ مساجد صرف بڑی ہی نہیں بلکہ صاف ستھری بھی ہیں۔ ہم مسجد میں نماز ادا کرنے گئے تو میرے میزبان نے مسجد کے دروازے کے باہر ایک کاغذ پر حساب و کتاب کی طرف میری توجہ دلائی۔ یہاں کی کرنسی رنگٹ ہے جو سعودی ریال کے تقریباً برابر ہے۔ سعودی ریال تھوڑا سا مہنگا ہے ۔اس لحاظ سے یہ ملک سعودی عرب یا گلف کے ممالک جانے والوں کے لیے خاصا سستا ہے۔ میں نے حساب کتاب پر نظر دوڑائی تواس پر لکھا ہوا تھاکہ اس ہفتہ ہماری کتنی آمدن اور کتنا خرچ ہوا۔ اس ملک کی ہر مسجد میں چندہ اکٹھا ہوتاہے۔ چندہ جمع کرنے کیلئے بڑے خوبصورت چھوٹے چھوٹے  صندوق بنے ہوئے ہیں۔لوگ اپنی حیثیت کے مطابق چندہ ڈالتے ہیں۔ اگر آپ کو معلوم ہو کہ شام تک یا اگلے دن ہمیں معلوم ہو جائے گا کہ آج کتنا چندہ اکٹھا ہوا ہے یا اس ہفتہ کتنے رنگٹ جمع ہوئے ہیں تو چندہ دینے والے پورے اعتماد کے ساتھ چندہ دیتے ہیں۔ میرے میزبان نے بتایا کہ میں مسجد کامستقل نمازی ہوں۔ یہاں کم و بیش ہر ماہ 30ہزار رنگٹ جمع ہوتے ہیں۔ یہ خاصی بڑی رقم ہے ۔اس سے امام مسجد، موذن ،قاری صاحب ،مسجد کی صفائی اور دیگر پروگراموں پر جتنے بھی خرچ کر لیں رقم پھر بھی  بچ جاتی ہے۔
    ملائیشیا کے اس سفر میں مجھے بہت سارے لوگوں سے ملنا تھا۔ اگلے دن صبح 11 بجے دارالسلام ملائیشیا کے سابق منیجرغلام الٰہی ہوٹل میں ملنے آ گئے۔ ان کے ساتھ طے تھا کہ ہم اکٹھے جمعہ کی نماز ادا کریں گے۔ ہم نے ایک زمانے میں ڈمنسرا کے علاقے میں دارالسلام کا دفتر کھولا تھا۔ اس کے قریب الجامعۃ الاسلامیہ کے پرانی مسجد تھی۔ میں پہلے بھی اس مسجد میں جمعہ ادا کر چکا ہوں۔ سو آج بھی اس خوبصورت اور بڑی مسجد میں جمعہ کی نماز پڑھنے کا لطف آگیا۔ ربیع الاول کے مہینہ کی مناسبت سے امام صاحب کی تقریر کا موضوع سیرت اور اخلاق النبی صلی اللہ علیہ وسلم تھا۔خطبہ جمعہ ملایو زبان میں تھا تاہم جب وہ آیات یا عربی زبان اور احادیث پڑھتے تو سمجھ آجاتی تھی کہ وہ کونسا واقعہ بیان کر رہے ہیں۔ اگر میں یہ کہوں کہ مجھے خاصا خطبہ سمجھ آ گیا تو کوئی مبالغہ نہ ہوگا۔
     مکہ مکرمہ میں رکن الدعوۃ کے نام سے ہمارے دوست فرید احمد کتابوں کی فروخت کا کام کرتے ہیں۔ موصوف کا تعلق برمی مسلمانوں سے ہے۔ بڑے ہی قابل اور سمجھدار آدمی ہیں۔ بڑے پڑھے لکھے دین اور دنیا دونوں علوم پر مہارت رکھتے ہیں۔ اردو، عربی ،انگلش ،بنگالی اور شاید ملایو زبان پر بھی خوب مہارت رکھتے ہیں۔ انہوں نے کئی سال سے کولالمپور میں رکن الدعوہ کی کئی برانچیں کھول رکھی ہیں۔ ان کی طرف سے پیغام مل چکا تھا کہ میں آپ کیلئے فارغ ہوں۔ آپ جب چاہیں اور جہاں جانا چاہیںمیں اور میری گاڑی حاضر ہے۔ موصوف کی 2 بیویاں ہیں۔ ان میں ایک کا تعلق ملائیشیاسے ہے۔ ان سے ملاقات اور تبادلہ خیال کرکے بڑا مزا آیا۔ میں نے ان سے کہا تھا کہ آپ شام کے وقت آجائیں۔ ہم نے سیر بھی کرنی ہے اور رات کا کھانا بھی کھانا ہے۔

(جاری ہے)
مزید پڑھیں:- - -  - -نبی اکرم بحیثیت تاجر

شیئر: