Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اللہ بھلا کرے سپریم کورٹ کا

کراچی ( صلاح الدین حیدر) سارے کے سارے مبصرین ناکام ہوگئے۔ ان کا خیال یہی تھا کہ جسٹس ثاقب نثار کے ریٹائر ہوتے ہی، عدالتی نظام پیر سے غیر متحرک ہوجائے گا۔ موجودہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ صرف عدالتی مقدمات پر ہی نظریں مرکوز رکھیں گے لیکن کارہائے نمایاں کی بنیاد ان کے پیشرو نے ڈالی تھی وہ اب بھی شد و مد سے جاری و ساری ہے۔ وہی چیف جسٹس جنہوں نے اپنے کلمات افتتاح میں یہ ہدایت کی تھی کہ ہر محکمہ اپنے کام سے کام رکھے۔ انہی کے ایک جج جسٹس گلزار نے کراچی میں 500 سے زیادہ ناجائز طریقے پر تعمیر کی گئیں، عمارتوں کو فوری طور پر گرانے کا حکم صادر فرما دیا ۔ یہی نہیںبلکہ سپریم کورٹ، سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ سے بھی ناراض نظر آئی اور بھری عدالت میں انہیں اپنے آپ کو سدھارنے کی ہدایت کی۔ چیف جسٹس ایک معصوم لڑکی کو جھوٹی گواہی پر جیل میں رکھنے پر بھی برہم نظر آئے۔ ہائی کورٹ کے حکم کو یکسر پلٹ ڈالا۔ بیٹی سے زیادتی ثابت کرنے کےلئے باپ کی جھوٹی گواہی؟ انہوں نے حیرت سے پوچھا اور پھر خود ہی سوال کر ڈالا کہ ہائی کورٹ نے جھوٹی گواہی کیوں نہ پکڑی، ایسے جج گھر بھیج دیئے جائیں۔کراچی کے مسائل پر مقدمہ سنتے ہوئے سپریم کورٹ کے ریمارکس سونے میں تولنے کے قابل تھے۔ ہر ایک کیلئے رہنمائی کیلئے روشنی کے چراغ کی مانند۔ کراچی شہر تباہ کردیا۔ کوئی خوبصورت مقام نہیں چھوڑا۔ سندھ حکومت کراچی کو اصل پلان کے تحت بحال کرے۔ بادی النظر میں دیکھا جائے تو ہمیں آج سے 20 سال سے پہلے کا کراچی یاد آتا ہے جہاں کلفٹن کے رہائشی علاقوں میں بوٹ بیسن تھا۔ ایک جھیل تھی جس میں بطخیں تیرا کرتی تھیں۔ چھوٹی چھوٹی کشتیاں لوگوں کو تفریح کا سامان مہیا کرا تی تھیں۔ شہید ملت روڈ کی پہاڑی پر ہل پارک تھا جس میں ایک چھوٹی سی جھیل تھی۔ کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی کا نعرہ تھا کہ کریں گے اہل نظر تازہ بستیاں آباد۔ نئی نئی رہائشی اسکیمیں عوام کے لئے بنائی جاتی تھیں۔اب سب کچھ خواب ہوکر رہ گیا۔ عمارتی کمپنیوں نے کھیل کے میدان، تفریحی مقامات اور پارک وغیرہ پر بلند و بالا عمارتیں کھڑی کر کے شہر کا نقشہ ہی بدل ڈالا۔ کراچی اب ایک شہر نہیں سیمنٹ اور پتھر کاجنگل ہے۔ اگر سپریم کورٹ نے اس بات کا نوٹس لیا ہے تو قوم کو ان کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈیولپرز نے رہائشی اسکیموں کے نام پر شہر کو تباہ و برباد کرڈالا۔ آج شہر بھر میں آدھے درجن کے قریب کنٹونمنٹ بورڈ ہیں۔ ڈیفنس سوسائٹی اور کئی دوسرے علاقے ہیں۔ ان کے بارے میں بھی سپریم کورٹ نے احکامات جاری کیے کہ فوجی زمینوں پر کمرشل سرگرمیاں ختم کی جائیں۔ فوجی زمینوں پر شادی گھر جو محض کمانے کا ذریعہ ہیں اور دوسرے علاقوں میں بھی بلا اجازت قائم کئے گئے شادی ہالز وغیرہ فوری طور پر مسمار کردیئے جائیں۔ کراچی کو پرانے ماسٹر پلان کے تحت بحال کیا جائے۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ کو 2 ہفتے میں رپورٹ جمع کرنے کو کہہ دیا کہ کراچی کو کیسے اپنی اصل حالت میں واپس لایا جاسکتا ہے۔ جہاں دیکھو وہاں غیر قانونی تعمیرات ہو رہی ہیں۔ رشوت خوری عام ہے۔ شہری ادارے اپنا کام کرنے کی بجائے پیسے لے کر سب چیزوں پر آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔ یہ سب نہیں چلے گا۔ اللہ بھلا کرے سپریم کورٹ کا۔
 

شیئر: