Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت تاجر

بہترین کمائی اْن تاجروں کی ہے جو جھوٹ نہیں بولتے، امانت میں خیانت نہیں کرتے اوروعدہ خلافی نہیں کرتے

 مفتی محمد راشد ڈسکوی۔کراچی

گزشتہ سے پیوستہ

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی عمر مبارک کے 25ویں سال تک تجارتی اسفار میں اپنے اخلاقِ کریمانہ، حسنِ معاملہ، راست بازی، صدق ودیانت کی وجہ سے اتنے زیادہ مشہور ہو چکے تھے کہ خلقِ خدا میں آپ ’’صادق وامین ‘‘کے لقب سے مشہور ہو گئے تھے۔لوگ کھلے اعتماد کے ساتھ آپ کے پاس بے دھڑک اپنی امانتیں رکھواتے تھے۔انہی خصائل کی بنا پر حضرت خدیجہ بن خویلد رضی اللہ عنہا کی رغبت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہوئی تھی اور پیغام ِ نکاح بھیج دیا تھا۔
    لڑائی جھگڑے سے پرہیز کرنا:
    تجارتی معاملات کی کامیابی کیلئے معاملات کی صفائی اور لڑائی جھگڑے سے پرہیز اہم ترین کردار ادا کرتا ہے اور یہ صفات نبی اکرم میں بدرجہ اتم موجود تھیں چنانچہ حضرت قیس فرماتے ہیں کہ نبی اکرم زمانۂ جاہلیت میں میرے شریک ہوتے تھے اور آپ شرکاء میں سے بہترین شریک تھے، نہ لڑائی کرتے تھے اور نہ ہی جھگڑا کرتے تھے (الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ)۔
    بحث وتکرار سے  اجتناب:
    مسلمان تاجر کی صفات میں سے ایک صفت معاملات کے وقت شور شرابا اور آپس کی بے جا بحث وتکرار سے بچنا بھی ہے اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے اس وصف عظیم کی گواہی زمانۂ نبوت سے پہلے بھی دی جاتی تھی چنانچہ حضرت عبد اللہ بن سائب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا تو آپ کے اصحاب رضی اللہ عنہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے میری تعریف اور میرا تذکرہ کرنے لگے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
    ’’میں تمہاری نسبت ان سے زیادہ واقف ہوں۔‘‘
    میں نے کہا : میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آپ سچ فرماتے ہیں، آپ زمانۂ جاہلیت میں میرے شریک ہوتے تھے اور آپ کتنے بہترین شریک ہوتے تھے کہ نہ شور شرابا (بحث وتکرار) کرتے تھے اور نہ جھگڑا کرتے تھے (سنن ابو داؤد، کتاب الادب)۔
    ایفائے وعدہ:
    وعدوں کی پاسداری تجّار کی بہت بڑی خوبی شمار ہوتی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اندر یہ وصف کیسا تھا؟ اس بارے میں حضرت عبد اللہ بن ابی حمسآء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے نبوت ملنے سے قبل آپ سے خرید وفروخت کا ایک معاملہ کیا، خریدی گئی شئے کی قیمت میں سے کچھ رقم میرے ذمہ باقی رہ گئی، تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے وعدہ کیا کہ میں کل اسی جگہ آ کر آپ کو بقیہ رقم ادا کر دوں گا، پھر میں بھول گیا اور مجھے 3 روز بعد یاد آیا۔میں اس جگہ گیا، تو دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی جگہ تشریف فرما ہیں۔مجھے دیکھ کرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے نوجوان! تم نے مجھے اذیت پہنچائی، میں 3 دن سے اسی جگہ پر تمہارا منتظر ہوں (سنن ابو داؤد، کتاب الادب)۔
    نبوت کے بعد معاشی صورتِ حال:
     رسول اللہ نے نبوت مل جانے کے بعد حصول معاش کے لیے کچھ کیا یا نہیں؟ اس بارے میں بالاتفاق قولِ فیصل یہ ہے کہ بعثت کے بعد آپ نے اپنی محنت اور توجہ صرف اور صرف احیائے دینِ متین کی طرف مبذول کر دی تھی۔ بعثت کے بعد آپسے کسی بھی قسم کی معاشی مشغولیت کا ثبوت نہیں ملتاالبتہ ! دین کے دیگر شعبوں کی طرف رہنمائی کی طرح اس شعبے کی بھی بہت واضح اور تفصیلی انداز میں رہنمائی کی۔اس میدان سے کامیابی کے ساتھ گزرجانے والوں کو جہاں بہت بڑی بڑی بشارتیں سنائیں تو وہاں اس میدان کے چور، ڈاکووئوں اور خائنوں کو وعیدیں سنا سنا کر انھیں لوٹ آنے کی طرف بھی متوجہ کیا۔ نبی اکرم کے فرمودات کا جائزہ لیا جائے تو عبادت کے احکام اور معاملات کے احکام میں ایک اور تین کی نسبت نظر آئے گی، یعنی : عبادات سے متعلق احکام ایک ربع اور معاملات سے متعلق احکام تین ربع ملیں گے چنانچہ کتبِ فقہ میں اہم ترین کتاب’’ ہدایہ ‘‘کو دیکھ لیا جائے کہ اس کی 4 ضخیم جلدوں میں سے صرف ایک جلد عبادات کے بارے میں ہے اور 3 جلدیں معاملات کے بارے میں ہیں، اسی سے شعبۂ معاملات کی اہمیت کا اندازہ کر لیا جائے۔
    ایک غلط ذہن کی اصلاح:
    موجودہ دور میں ایک طبقہ کم عقلی اور کم علمی کی وجہ سے یہ ذہن رکھتاہے کہ محنت کرنے اور کمانے کی کوئی ضرورت نہیں ، اللہ تعالیٰ تو رزق دینے میں ہماری محنت کے محتاج نہیں ، وہ ایسے بھی دینے پر قادر ہیں لہٰذا ہمیں کچھ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں، ہم تو اعمال کے ذریعے اللہ سے لیں گے، اسباب کے ذریعے نہیں۔
    تو اس بارے میں اچھی طرح جان لینا چاہیے کہ ایک ہے اسباب کا اختیار کرنا اور انھیں استعمال کرنا اور ایک ہے ان اسباب کو دل میں اتارنا اور ان پر یقین رکھنا۔پہلی چیز کو اپنانا محمود اور مطلوب ہے اور دوسری چیز کو اپنانا مذموم ہے۔ہماری محنت کا رخ یہ ہونا چاہیے کہ ہم ان اسباب کی محبت اور یقین دل سے نکالیں اور اس کے برعکس یقین اللہ تعالیٰ پر رکھیں کہ ہماری ہر طرح کی ضروریات پوری کرنے والی ذات اللہ تعالیٰ کی ذات ہے، وہ چاہے تو اسباب کے ذریعے ہماری حاجات وضروریات پوری کر دے اور چاہے تو ان اسباب کے بغیر محض اپنی قدرت سے ہماری ضروریات وحاجات پوری کر دے۔ وہ اس پر پوری طرح قادر اور خود مختار ہے البتہ ہم دنیا میں اسباب اختیار کرنے کے پابند ہیں تاکہ بوقتِ حاجت وضرورت ہماری نگاہ وتوجہ غیر اللہ کی طرف نہ اٹھ جائے۔
    اس بات میں تو کوئی شک وشبہ ہے ہی نہیں کہ اللہ رب العزت ہماری محنتوں کے محتاج نہیں لیکن کیا شریعت کا مزاج اور منشا بھی یہی ہے کہ ہم ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے رہیں، بالخصوص جب اس ترکِ اسباب کا نتیجہ یہ نکلتا ہو کہ بیوی، بچوں اور والدین کے حقوق تلف ہوتے ہیں اور یہ غیروں کے اموال کی طرف حرص وہوس کے ساتھ دیکھتا رہتا ہے، تو یاد رکھیں کہ اس طرح کے لوگوں کو شریعت اس طرزِ عمل کی تعلیم نہیں دیتی بلکہ سیرتِ نبویؐ اور سیرتِ صحابہؓ  تو حلال طریقے سے کسب ِ معاش کی تعلیم دیتی ہے۔ایسے بے شمار واقعات ہیں جن سے یہ سبق ملتا ہے کہ کماکر کھاؤ، دوسرے کے سامنے ہاتھ نہ پھیلاؤ۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ تونگری کی وجہ سے آج کے دور میں ہمارا دین وایمان محفوظ رہے گا، ورنہ اندیشہ ہے کہ اختیاری فقر وفاقہ کہیں کفر وشرک کے قریب ہی نہ لے جائے۔ہاں! اولیاء اللہ اور یقین و توکل کے اعلیٰ درجہ پر فائض لوگوں کا معاملہ اور ہے۔
    حضرت سفیان ثوری رحمہ اللہ کی ذریں نصائح:
    حضرت سفیان ثوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ گزشتہ زمانہ میں مال کو بْراسمجھا جاتا تھا لیکن جہاں تک آج کے زمانہ کا تعلق ہے تو اب مال ودولت مسلمانوں کی ڈھال ہے۔حضرت سفیان ثوری رحمہ اللہ نے یہ بھی فرمایاکہ اگر یہ درہم ودینار( اور روپیہ پیسہ) نہ ہوتا تو یہ سلاطین وامراء ہمیں رومال بناکر ذلیل وپامال کر ڈالتے، نیز! انہوں نے فرمایا: کسی شخص کے پاس اگر تھوڑا بہت بھی مال ہو تو اس کو چاہیے کہ وہ اس کی اصلاح کرے کیونکہ ہمارا یہ زمانہ ایسا ہے کہ اس میں اگر کوئی محتاج ومفلس ہو گا تو اپنے دین کو اپنے ہاتھ سے گنوانے والا سب سے پہلا شخص وہی ہو گا (حلیۃ الاولیاء ،طبقات الاصفیاء ، سفیان الثوری)۔
    توضیحات شرح مشکاۃ میں لکھا ہے:
    پچھلے زمانہ میں مال ودولت کو ناپسند کیا جاتا تھا۔ مومن اورمتقی حضرات مال کو مکروہ سمجھتے تھے کیونکہ عام ماحول زہد وتقویٰ کا تھا۔ لوگ غریب و فقیر کو ذلیل وفقیر نہیں سمجھتے تھے، مالی کمزوری کی وجہ سے اس کے ایمان کو تباہ نہیں کرتے تھے، نیز بادشاہ اور حکمران بھی اچھے ہوتے تھے جو غریب کو سنبھالا دیتے تھے اس لیے لوگ مال ودولت اکٹھا نہیں کرتے تھے اور اکٹھا کرنے کو معیوب سمجھتے تھے مگر اب معاملہ اس کے برعکس ہے کہ غریب وفقیر آدمی کو معاشرہ میں ذلیل وحقیر سمجھتے ہیں اور پیسے کی بنیاد پر اس کے ایمان کو خریدا جاتا ہے، نیز حکمران بھی خیر خواہ نہیں رہے، تو نتیجہ یہ نکلے گا کہ غریب آدمی مالداروں اور حکمرانوں کا دستِ نگر اور دست وپابن جائے گااور ان کے ہاتھ صاف کرنے اور میل کچیل صاف کرنے کے لیے تولیہ اور رومال بن جائے گا۔
    پھر مزید لکھا ہے:
    جس شخص کے پاس اس مال میں سے کچھ بھی ہو وہ اس کی اصلاح کرے، مطلب یہ کہ تھوڑا پیسہ بھی ہو تو اس کو کسی کاروبار میں لگا دے۔یہ اس کی ترقی وبڑھوتری ہے یا پھر اصلاح کا مطلب یہ ہے کہ اس کو قناعت کے ساتھ خرچ کرے ، اسراف نہ کرے۔
    کمائی کے ذرائع:
    کسبِ معاش کے بہت سے ذرائع ہیں، ان میں سے کون سا افضل ہے ؟! اس کی تعیین میں سلفِ صالحین کا اختلاف ہے۔ اس بارے میں شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب کاندہلوی رحمہ اللہ کی ایک بہترین کتاب ’’فضائل ِ تجارت‘‘ سے خلاصۃً کچھ بحث ذیل میں نقل کی جاتی ہے۔
    حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
    ’’میرے نزدیک کمائی کے ذرائع 3ہیں: تجارت، زراعت اور اجارہ۔ اورہر ایک کے فضائل میں بہت کثرت سے احادیث ہیں ۔ بعض حضرات نے صنعت و حرفت کو بھی اس میں شامل کیا ہے، جیسا کہ اوپر گزرا۔ میرے نزدیک وہ ذرائع آمدنی میں نہیں، اسبابِ آمدنی میں ہے اور آمدنی کے اسباب بہت سے ہیں: ہبہ ہے، میراث ہے، صدقہ ہے، وغیرہ وغیرہ۔ جنہوں نے اس کو کمائی کے اسباب میں شمار کیا ، میرے نزدیک صحیح نہیںاس لئے کہ نرا صنعت وحرفت کمائی نہیں کیونکہ اگر ایک شخص کو جوتے بنانے آتے ہیں یا جوتے بنانے کا پیشہ کرتا ہے، وہ جوتے بنا بنا کر کوٹھی بھر لے ، اس سے کیا آمدنی ہو گی؟ یا تو اسکو بیچے گا یا (پھر یہ جوتے) کسی کا نوکر ہو کر اسکا (مال)بنائے یہ دونوں طر یقے تجارت یا اجارہ میں آ گئے اور اس سے بھی زیادہ قبیح ’’جہاد‘‘ کو کمائی کے اسباب میں شمار کرنا ہے اس لیے کہ جہاد میں اگر کمائی کی نیت ہو گئی تو جہاد ہی باطل ہے۔ میں پہلے لکھ چکا ہوں کہ میرے نزدیک تجارت افضل ہے، وہ بحیثیت پیشہ کے ہے، اسلئے کہ تجارت میں آدمی اپنے اوقا ت کا مالک ہوتا ہے۔ تعلیم وتعلم، تبلیغ، افتاء وغیرہ کی خدمت بھی کر سکتا ہے، لہٰذا اگر اجارہ دینی کاموں کے لیے ہوتو وہ تجارت سے بھی افضل ہے اسلئے کہ وہ واقعی دین کا کام ہے مگر شرط یہ ہے کہ وہی دین کا کام مقصود ہو اور تنخواہ بدرجۂ مجبوری ہے۔ میرے اکابرِ دیوبند کا زیادہ معاملہ اسی کا رہااور اسکا مدار اِس پر ہے کہ کام کو اصل سمجھے اور تنخواہ کو اللہ کا عطیّہ اس لیے اگر کسی جگہ پر کوئی دینی کام کر رہا ہو، تدریس، افتاء وغیرہ اور اس سے زیادہ کسی دوسرے مدرسہ میں تنخواہ ملے تو پہلی جگہ کو محض کثرتِ تنخواہ کی وجہ سے نہ چھوڑے۔میں نے جملہ اکابر کا یہ معمول بہت اہتما م سے ہمیشہ دیکھاجس کو آپ بیتی نمبر6، صفحہ155میں لکھوا چکا ہوں کہ انہوں نے اپنی تنخواہوں کو ہمیشہ اپنی حیثیت سے زیادہ سمجھا ۔ در حقیقت میرے اکابر کے بہت سے واقعات اس کی تائید میں ہیں کہ تنخواہ اصل یا معتد بہ چیز نہیں سمجھتے تھے جیسا میں نے اوپر لکھا اور تنخواہ محض عطیۂ الٰہی سمجھتے تھے، جو ہم لوگوں میں بالکل مفقود ہے، یہی وہ چیز ہے جس کی بنا پر میں نے اجارۂ تعلیم کو سب انواع سے افضل لکھا ہے۔
     اس ملازمت کے بعد تجارت افضل ہے ۔اس لیے کہ تاجر اپنے اوقات کا حاکم ہوتا ہے، وہ تجارت کے ساتھ دوسرے دینی کام تعلیم، تدریس، تبلیغ وغیرہ بھی کر سکتا ہے۔اس کے علاوہ تجارت کی فضیلت میں مختلف آیات واحادیث ہیںچنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
    ’’اللہ تعالیٰ نے مو منوں سے ان کی جانیں اور ان کے مال خرید لیے ہیں (اور اسکے)عوض میں اْن کے لیے بہشت (تیار) کی ہے۔‘‘(التوبہ111)۔
    اور بھی بہت سی آیات تجارت کی فضیلت میں ہیں، ان کے علاوہ احادیث میں ہے:
    ’’سچا، امانت دار تاجر(قیامت میں) انبیاء، صدیقین اور شہدا کے ساتھ ہو گا۔‘‘(ترمذی،کتاب البیوع)۔
    ’’بہترین کمائی اْن تاجروں کی ہے جو جھوٹ نہیں بولتے، امانت میں خیانت نہیں کرتے، وعدہ خلافی نہیں کرتے اور خریدتے وقت چیز کی مذمت نہیں کرتے (تا کہ بیچنے والا قیمت کم کر کے دیدے) اور جب (خود) بیچتے ہیں تو (بہت زیادہ) تعریف نہیں کرتے (تا کہ زیادہ ملے) اور اگر ان کے ذمہ کسی کا کچھ نکلتا ہو تو ٹال مٹول نہیں کرتے اور اگر خود ان کا کسی کے ذمہ نکلتا ہوتو وصول کرنے میں تنگ نہیں کرتے۔‘‘(شعب الایمان للبہیقی)۔
    حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
    ’’ سچ بولنے والا تاجر قیامت میں عرش کے سایہ میں ہو گا۔‘‘(اتحاف الخیرۃ المھرۃ بزوائد المسانید العشرۃ)۔
    حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :    ’’ جب تاجر میں 4 باتیں آ جائیں تو اس کی کمائی پاک ہو جاتی ہے:*جب خریدے تو اس چیز کی مذمت نہ کرے* بیچے تو (اپنی چیز کی بہت زیادہ) تعریف نہ کرے* بیچنے میں گڑ بڑ نہ کرے اور* خرید و فروخت میں قسم نہ کھائے۔‘‘(الترغیب والترھیب، کتاب البیوع)۔
    حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
    ’’ خرید وفروخت کرنے والے کو (بیع توڑنے کا) حق ہے،جب تک وہ اپنی جگہ سے نہ ہٹیں۔ اگر بائع ومشتری سچ بولیں اور مال اور قیمت کے عیب اور کھرے کھوٹے ہونے کوبیان کر دیں تو ان کی بیع میں برکت ہوتی ہے اور اگر عیب کو چھپا لیں اور جھوٹے اوصاف بتائیں تو شاید کچھ نفع تو کما لیں (لیکن) بیع کی برکت ختم کر دیتے ہیں۔‘‘(صحیح البخاری، کتاب البیوع)۔
    مناوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
    ’’ رزق کے 9حصے تجارت میں ہیں اور ایک حصہ جانوروں کی پرورش میں ہے۔‘‘(نظام الحکومۃ النبویۃ المسمیٰ التراتیب الاداریۃ)۔
    حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ میں تمہیں تاجروں کے ساتھ خیر کے برتاؤ کی وصیت کرتا ہوں کیونکہ یہ لوگ زمین میں اللہ کے امین ہیں۔
    تجارت کے بعد میرے نزدیک زراعت افضل ہے۔ زراعت کے متعلق حدیث میں آیا ہے، حضرت انس رضی اللہ عنہ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کیا :کوئی مسلمان جو درخت لگائے یا زراعت کرے، پھر اس میں سے کوئی انسان یا پرندہ یا کوئی جانور کھا لے تو یہ بھی اس کے لیے صدقہ ہے ۔ مسلم کی روایت میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ اس میں سے کچھ چوری ہو جائے تو وہ بھی اس کے لیے صدقہ شمار ہوتا ہے۔

(جاری ہے)
مزید پڑھیں:- - - - - -قرآن مجید کا عددی اعجاز

شیئر: