Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اتحاد امت اور اس کی حقیقی بنیاد یں

آج مسلمانوں کے سارے مسائل کا حل ان کی اجتماعیت اور اتحاد ہے،وہ متحد نہیں اس لئے ان کی شریعت محفوظ نہیں
مفتی تنظیم عالم قاسمی ۔ حیدرآباد دکن

    رسول اکرم کی بعثت اس لئے عمل میں آئی تاکہ آپاپنی کوششوں اور جدو جہد سے اسلام کو غالب کرسکیں ۔اس سرزمین پر قرآنی قانون کا نفاذ ہو ‘باطل نظام کا خاتمہ ہوکر نظام ِ حق قائم ہو سکے اور دنیاشیطانی راہوں سے نکل کر ایک خدا کی عبادت میں لگ جائے ۔ یہاں صرف اور صرف اسلامی تہذیب وتمدن کا چلن ہو ‘اگر کوئی دوسرا مذہب رہے بھی تو مغلوب ہو کر جس میں کوئی زور ہو اور نہ کوئی طاقت ۔اسلام کے علاوہ تمام مذاہب کی شناخت مٹ جائے اور اسلامی رنگ غالب آجائے کہ جس طرف بھی نظر دوڑائی جائے قرآن کی حکمرانی نظر آئے اور ایسا محسوس ہو کہ دنیا اب شرک و کفر کی غلاظتوں اور اس کے اثرات سے پاک ہو گئی ہے ۔اس کو قرآن نے اس طرح بیان کیا ہے :
    ’’وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تا کہ اسے پوری جنس دین پر غالب کردے خواہ مشرکوں کو یہ کتنا ہی ناگوارہو ۔ ‘‘(التوبہ33)۔
    اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اگر اس دنیا میں اسلام کا عادلانہ نظام قائم ہو جائے تو دنیا شراب ،جوا،رشوت،زنا،چوری ،ڈاکہ زنی ،ظلم و زیادتی اور دیگر تمام منکرات سے پاک ہو جائے گی ۔عورتوں کی آبرو محفوظ رہے گی ،لوگوں کی جان و مال کا تحفظ ہوگا اور ایک پاکیزہ ماحول کی تشکیل عمل میں آئے گی جس کے نتیجے میں معاشرہ اور سماج بہتر ہوگا اور ہر آدمی آزادانہ اور پرسکون زندگی بسر کرسکے گاجو اسلام کی آمد اور رسالت کا اہم مقصد ہے اور ظاہر ہے کہ نظام حق کے نفاذ کیلئے اسلامی اقتدار کی ضرورت ہے جس کے ذریعے حدود وکفارات نافذ ہوں گے ،معیشت،سیاست ،عدالت اور زندگی کے ہر شعبے میں قرآن کے مطابق عمل ہوگا اور اس طرح دنیا مظالم سے پاک ہوگی ،ورنہ وہ افراد جن کے ہاتھ میں قانون ،سیاس،عدالت ،معیشت اور تہذیب و تمدن نہ ہو اور نہ ملکی نظام ہو وہ ہزار چاہنے کے باوجود معاشرے میں صالح انقلاب نہیں لاسکتے اور نہ دنیا منکرات سے پاک ہو سکتی ہے اسی لئے رسول اکرم   جس وقت مکہ مکرمہ سے ہجرت فرماکر مدینہ تشریف لا رہے تھے آپ کی زبان اقدس پر جو جملہ جاری تھا اس کا اہم جز حصول اقتدار کی دعا پر مشتمل تھا ( بنی اسرائیل80)۔
    اس سے معلوم ہوا کہ نظام حق کے قیام کیلئے اقتدار اور فرماں روائی نہایت ضروری ہے، اس کے بغیر اس کا تصور محض خواب ہے جو شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتااور اقتدار اور غلبۂ دین کیلئے مسلمانوں کے درمیان اجتماعیت اور اتحاد کی سخت ضرورت ہے اسی لئے مذہب اسلام نے اس پر بڑا زور دیا ہے کہ اس قدر تاکید دنیا کے کسی مذہب نے نہیں دی ۔
    اسی اتحاد اور اجتماعیت کی غرض سے جب آپ مدینہ تشریف لائے تو اہل کتاب سے فوری معاہدہ کیا تاکہ اسلام داخلی انتشار سے محفوظ رہے اور آپ مدینہ سے باہر دیگر قوتوں کا مقابلہ کرسکیں ۔اسی طرح آپ نے خانۂ کعبہ کی از سر نو تعمیر کرنے کا ارادہ کیا اور آپ نے چاہا کہ بِنائے ابراہیمی پر اس کو کردیا جائے لیکن مسلمانوں کے اختلاف اور شکوک و شبہات میں پڑنے کے اندیشے کی وجہ سے اس ارادے کو ترک فرمادیا۔ رسول اکرم   نے مسلمانوں کو متنبہ کرتے ہوے فرمایا تھا کہ میرے بعد کچھ ظالم اور ناحق خلفاء خلافت کے عہدے پر فائز ہوں گے، وہ اگرچہ نااہل ہوں گے لیکن تم ان سے اختلاف نہیں کرنا ،ان کی اطاعت اور فرماں برداری تمہارے ذمے واجب ہے خواہ وہ تمہاری پشت پر کوڑے برسائیں (صحیح بخاری)۔اس میں حکمت یہ ہے کہ اگر خلیفہ کے خلاف آواز اٹھائی جائیگی تو اختلاف پیدا ہوگا ،دونوں طرف سے تلواریں اٹھیں گی جس کے نتیجے میں خانہ جنگی ہوگی، اسلامی نظام متأثر ہوگا اور باطل طاقتوں کو اس طرف نظر اٹھانے کا موقع ہاتھ آجائے گا چنانچہ حجاج بن یوسف ظالم بادشاہ تھا ۔اسلامی تاریخ میں بدنام ترین خلفاء میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ ان کے زمانہ میں اکابر صحابہؓ  موجود تھے لیکن کسی نے ان کے خلاف آواز نہیں اٹھائی ۔تقریباً سبھی نے ان کی خلافت کو تسلیم کرتے ہوے ان کے ہاتھ پر بیعت کرلیا تھا اس لئے کہ اگر آواز اٹھاتے تو اسلامی حکومت کمزور پڑ جاتی اور نئے فتنے پیدا ہو جاتے ۔اگرچہ وہ ظالم تھا لیکن پھر بھی اسلامی سرحد کی حفاظت کررہا تھا ۔اسلامی نظام کسی نہ کسی حد تک قائم تھا ۔اسلام اور مسلمانوں کی جانب سے دفاع ہو رہا تھا اور اسلامی پرچم بلند تھاجو رسالت کا مشن ہے ۔
    حضرت عثمان غنی ؓ نے صحابۂ کرامؓ  اور مسلمانوں کی اجتماعیت باقی رکھنے کی غرض سے مصحف عثمانی کے علاوہ تمام مصاحف جلا دیئے تھے تاکہ مختلف انداز کی تلاوت کی وجہ سے مسلمان اختلاف اور کسی فتنے کے شکار نہ ہوں اور وہ سب ایک قرآن پر جمع ہو سکیں ۔اسی کا اثر ہے کہ قرآن کے باب میں آج تک کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا اور ملت اسلامیہ متحد اور ایک ہے ۔اتحاد اور یکجہتی کا اس قدر اہتمام اس لئے کیا گیا ہے کہ اتحاد سب سے بڑی طاقت اور قوت ہے ۔اس میں ایٹم بم اور بارود سے بھی زیادہ طاقت ہے ۔اگر افراد بہت زیادہ ہوں مگر ان میں انتشار ہو تو کثرت کے باوجود ان کی دنیا میں کوئی حیثیت نہیں اور اگر افراد کہیں کم ہوں تاہم اتحاد ہو تو اقلیت کے باوجود ان کی طاقت زیادہ ہوگی اسی لئے کہا گیا ہے کہ متحد اقلیت منتشر اکثریت سے ہزار گنا زیادہ بہتر ہے ۔اسی طرح جہاں اتحاد ہو وہاں ظاہری اسباب و وسائل کی کمی کے باوجود دنیا پر اس کا رعب ہوگا اور بڑی بڑی طاقتیں اس قوم کی طرف نگاہ نہیں اٹھا سکتیں اور جس قوم کے پاس مادی طاقت بہت ہو لیکن اندرونِ خانہ خلفشار اور اختلاف کا شکار ہو وہ ساری طاقت رکھنے کے باوجود کمزور ہے،اس سے کوئی ڈرنے والا نہیں ہوگا۔آپ نے کتوں پر بچوں کو ڈھیلا پھینکتے ہوے دیکھا ہوگا ۔کتے ہزار بھی ہوں گے پھر بھی ایک ڈھیلا ان سب کو بھگانے کیلئے کافی ہے کیونکہ ان میں اتحادی قوت نہیں اس لئے وہ مقابلہ نہیں کرسکتے لیکن شہد مکھیوں پر کسی کو ڈھیلا مارنے کی قوت نہیں اور نہ کوئی اس کی حماقت کرتا ہے بلکہ لوگ اس کے چھتے سے بچتے ہوے نکلتے ہیں۔شہد مکھیاں دیکھنے میں نہایت کمزور ہیں لیکن ان کے اتحاد اور اجتماعیت نے انہیں ایسی طاقت ور بنادیا ہے کہ اچھے اچھے لوگ بھی انہیں چھیڑنے کے لئے ہزار بار سوچتے ہیں ۔موتی یقینا بہت قیمتی چیز ہے لیکن وہ گلے کا ہار اور زینت کا سامان نہیں بن سکتا جب تک کہ اسے دھاگے میں پرو نہ دیا جائے ،اینٹ اور پتھر کے ذرات کے آپس میں جمنے اور ملنے کے بعد ہی بلڈنگوں اور عالیشان مکانوں کی تعمیر ہوتی ہے۔ اگر وہ میدان میں بکھرے رہیں تو کبھی مکان کی تعمیر نہیں ہو سکتی۔ٹھیک اسی طرح آج مسلمانوں کے سارے مسائل کا حل ان کی اجتماعیت اور اتحاد ہے،وہ متحد نہیں اس لئے ان کی شریعت محفوظ نہیں ۔ان کی شناخت مٹانے کی کوشش کی جارہی ہے ،ان کے سینوں سے ایمان چھیننے کی سازشیں کی جارہی ہیں،وقفہ وقفہ سے کبھی طلاق ثلاثہ ،کبھی وندے ماترم ،کبھی سوریہ نمسکار اور کبھی حجاب اور اسلامی شعائر پر انگلیاں اٹھائی جارہی ہیں اور باطل طاقتیں مکمل کوشش کررہی ہیں کہ اسلام اور مسلمانوں کا خاتمہ ہوجائے۔کوئی مسلمان اپنی تہذیب اور شناخت کے ساتھ زندہ نہ رہے۔ اگر کسی کو رہنا ہے تو وہ ہندووانہ تہذیب و تمدن کے ساتھ زندہ رہے ،اس کی تعلیمات کو ہی اپنا رہبر اور پیشوا تسلیم کرے اور ایک خدا کی طاقت کا انکار کرتے ہوے پھر زمانہ ٔ جاہلیت کی طرف مسلمان لوٹ جائیں ۔آج ملکی اور بین اقوامی جو مسائل اور نئے نئے فتنے جنم لے رہے ہیں اُن کی وجہ مسلمانوں کا باہمی انتشار ہے ۔ان کا اختلاف یہاں تک پہنچا کہ ان کی مسجدیں ،کتابیں ،مدارس وغیرہ منقسم ہو گئیں اور وہ مختلف جماعتوں اور گروپ میں بٹ گئے۔اس انتشار کی وجہ سے اسمبلی اور پارلیمنٹ میں مسلمانوں کے نمائندے نہیں جو شریعت کے خلاف اٹھنے والی آواز کی مخالفت کرسکیں ۔اس انتشار اور اختلاف کا علم تمام مخالفین کو اچھی طرح ہے۔ وہ لوگ ان کی کمزوری سے مکمل واقف ہیں اس لئے اس سے فائدہ اٹھاتے ہوے یہ ناچ ناچ رہے ہیں۔
    قرآن و سنت اسلام کی اساس اور بنیاد ہے ۔جن آیات و احادیث کی تشریحات نصوص میں موجود نہیں ، ان میں اختلاف ہے اور یہ اختلاف ایک فطری چیز ہے اس لئے کہ اذہان اور عقلیں مختلف ہیں۔
    ان کی تعبیر ائمہ کرام نے اپنے اجتہادات کی روشنی میں پیش کی ہیں ۔ ہر ایک کو یہ حق ہے کہ اپنے علم کی روشنی میں ان نصوص کی تعبیرات بیان کریں لیکن اسی کے ساتھ اتنی رواداری ضروری ہے کہ وہ اور ان کے متبعین ان پر عمل کریں اور دوسرے نظریات کے حامل لوگوں پر زبردستی ان کو نہ تھو پیں اور مخالف نظریات کے افراد کو بھی چاہئے کہ وہ جس تعبیر کو بہتر سمجھتے ہیں اس کو مانیں لیکن دوسروں کو ہرگز ہرگز نہ چھیڑیں کیونکہ یہ اختلاف اجتہاد کی روشنی میں ہے جس میں خطا اور صواب کا امکان بہر حال موجود ہے ۔یہ بالیقین نہیں کہا جا سکتا کہ ہم نے جو سمجھا ہے وہی صحیح ہے اور دوسرا غلط ہے ۔ہرایک مسلک کے پیچھے دلائل کی قوت ہے اور ان دلائل کے واسطے سے ہرایک گویا حدیث پر عمل پیرا ہے پھر کسی ایک پر اصرار کسی بھی صور ت میں جائز نہیں ۔

مزید پڑھیں:- - - - -اِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ کَانَ مَشْھُوْدًا

شیئر: