Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’’ٹُنا ،منا ،چُنّا گھنّا، چھنا‘‘

***شہزاد اعظم***
ہمارے دوست شرفو کے سکڑ دادا کا نام شرف، پڑ دادا کا نام تشریف، داداکا نام اشرف اورباپ کا نام شرافت تھا۔اس جملے میں بیان کردہ تسمیہ کا سب سے حیرت انگیز پہلو یہ ہے کہ پانچوں ہستیاں یعنی ’’شرف، تشریف، اشرف، شرافت اور شرفو‘‘سب کے سب ایک ہی دور میں زندہ تھے اور ایک ہی دسترخوان پر بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے۔ان میں سکڑ دادا ’’شرف‘‘وہ شخصیت تھے جوہندوستان میں انگریز ی بولنے والوں کی حکمرانی کے دور میں پاکستان کی تحریک شروع کرنے کا منصوبہ بنانے والوں میں شامل تھے۔پڑ دادا ’’تشریف‘‘ان لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے علیحدہ دطن پاکستان بنانے میں اپنے ابا کا ساتھ دیا۔ ان کے بعد دادا ’’اشرف‘‘ ایسی ہستی تھے جو پاکستان میں ترقی کا پہیاگھمانے والوں میں اپنے ابااور ابائے ابا یعنی دادا کے ’’گھٹنا بہ گھٹنا‘‘ اور’’ٹخنہ بہ ٹخنہ‘‘ تھے۔باپ ’’شرفات‘‘ وہ وجود تھے جو پاکستان کو لوٹنے والے اولین ٹولے میں سے ایک تھے جبکہ شرفو بذات خوداباکی جانب سے ملک و قوم کی لوٹی ہوئی دولت پر عیش کرنے والے بے ضمیروں کے ٹولے میں شامل تھا۔آپ کو یہ جان کر پُر مسرت حیرت ہوگی کہ ہمارا نام بھی ان خوش نصیبوں کی فہرست میں درج ہو چکا ہے جنہوں نے اس ’’پنج نسلی‘‘ دسترخوان سے نوالے چُنے ہیں۔ایک روز ہم اپنے دوست شرفو کے ہاں عشائیے پر مدعو تھے۔رات کے 9بجے دسترخوان سجایاگیا۔واقعی عجیب سماں تھاکم از کم 52قدم طویل دستر خوان تھاجس کی چوڑائی میں 26قدم کی طوالت کے بعدایک چلمن عموداً ایستادہ تھی جس میں سے آر پاردیکھنا تومشکل تھا تاہم محسوس کیا جا سکتا تھا۔وضع وضع کے پکوان دستر خوان پر موجود تھے۔کوئی نوجوانوں کیلئے مفید شمار کیا جاتا تھا اور کوئی نوجوانی کے لئے ۔کوئی پکوان زندہ لوگوں کے کھانے کے لئے تھا اور کوئی کھا کر زندہ رہنے کیلئے۔کوئی دانت والوں کے لئے تھا اور کوئی بے دانت شخصیات کیلئے موزوں قرار دیا جا رہاتھا۔چلمن کی اِس جانب ہم ’’مونچھدار‘‘پکوانوں سے انصاف کر رہے تھے اور چلمن کی دوسری جانب سے چوڑیوں کی کھنک، پائلوں کی جھنک، جھمکوں کی جھمک، گیسوئوں کی مہک، نسوانی چہک سنائی دے رہی تھی اور ہماری رگِ جاں ان سماعتوں کا یوں استقبال کر رہی تھی جیسے صدیوںکا پیاسا صحراشبنم کے قطروںکی پذیرائی کر رہا ہو۔اسی دوران سکڑ دادا تشریف لائے۔ انہوں نے جیسے ہی پہلا نوالہ منہ میں رکھا، سب نے کھانا تناول کرنا شروع کر دیا۔سب لوگ انتہائی تمیز ، ادب، احترام اور سلیقے سے کھانا کجھ رہے تھے، کہیں سے چپڑچپڑ، شپڑشپڑ، کھپڑ کھپڑ کی ناپسندیدہ اور بے سُری آوازیں نہیں آ رہی تھیں۔
 سکڑ دادا ’’محترم شرف‘‘نے چلمن کے دونوں طرف موجود لوگوں سے مختصرخطاب فرمایا۔ انہوں نے کہا کہ ہم پاکستان بننے سے قبل ’’خواب نگر‘‘ میں رہا کرتے تھے۔علاقے کا ایک بااثر شخص’’ٹُنا‘‘ تھا، اس کا ایک بیٹا ’’منا‘‘ تھا۔’’ٹُنا‘‘ خواب نگر کے لوگوں سے ہر ماہ ’’چندہ‘‘ وصول کرتا ،لاکھوں جمع ہوتا اورچند ہزار وہ بھی کبھی کبھار خرچ کر کے علاقے میں پگڈنڈیوں کی دیکھ بھال، کنویں کی صفائی اور ایسے ہی چھوٹے موٹے کام کرا دیتا تھا۔باقی رقم اپنے عیش پر صرف کرتا۔وقت گزرتا رہا۔’’منا‘‘ جوان ہوگیا۔’’ٹُنا‘‘ نے اسے انگریزوں کے اسکول میں داخل کرایا تو چندے کی رقم بڑھا دی۔ اس کے بعد ’’منا‘‘ کو اعلیٰ تعلیم کیلئے بیرون ملک بھیجا تو چندے کی رقم میں اضافہ کر دیا۔ ’’منا‘‘ واپس آیا تو اس نے سینماہال تعمیر کرائے اور اس میں فلم اور ڈرامے کے نام پر روزانہ محافل منعقدکرانے لگا۔ اس نے نہ صرف خود نشہ کرنا شروع کردیا بلکہ اپنے دوستوں کو بھی اس لت کا اسیر کر دیا۔اب ہر ماہ لاکھوں کا نشہ کیاجانے لگا ۔ ’’ٹُنا‘‘ نے چندے میں مزید اضافہ کر دیا۔ ایک دو نوجوانوں نے اعتراض کیا تو اس نے انہیں اپنے ہاتھوں سے گولی مار دی اور کہا کہ جو چندہ دینے سے ا نکار کرے گا اس کا حشر ایسا ہی ہوگا۔کچھ عرصے کے بعد ’’منا‘‘کسی جرم میں گرفتار ہوگیا۔جب اسے عدالت لے کرجایاجاتا تو دسیوں گاڑیاں اس کے ساتھ ہوتیں۔ ان گاڑیوں کے پٹرول اور عملے کی تنخواہوں کے اخراجات ادا کرنے کیلئے ’’ٹُنا‘‘ نے چندے کی رقم بڑھا دی۔ایک بڈھے نے شکوہ کیا تو اسے گولی مار دی اور کہا کہ انکار کا انجام یہ ہوگا۔عدالت نے’’منا‘‘ کی ضمانت کے لئے 5کروڑ کے مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا تو ’’ٹُنا‘‘ نے چندے میں پھر اضافہ کر دیا۔ ایک بڑھیا نے اعتراض کیا تو اس نے اسے گولی مار دی اور کہا کہ جس نے انکار کیا اس کا انجام ایسا ہی ہوگا۔’’منا‘‘ نے بیرون ملک عیش کرنے کے لئے عشرت کدے تعمیر کرنا چاہے، اس نے اپنے باوا ’’ٹُنا‘‘سے پیسے مانگے تو اس نے چندے میں اضافہ کر دیا۔ ایک لڑکی نے انکار کیا تو ’’ٹُنا‘‘نے اسے گولی مار دی اور کہا کہ انکار کا انجام ایسا ہی ہوتا ہے۔پاکستان بننے کے بعد وہ ’’ٹُنا،منا‘‘بھی پاکستان چلے آئے اور یہاں آ کر انہوں نے پورے ملک کو ہی ’’خواب نگر‘‘بنا دیا۔ انہوں نے اپنے عیش و عشرت،تکمیل یاس وحسرت ، ماکول و مشروب، ضارب و مضروب،طلاق و شادی، آبادی و بربادی،سزا و جزا، جیلوں کی ہوا، پروٹوکول کے اخراجات ، پیدائش و اموات،صحت و بیماری ،بے وفائی و وفاداری، سب کیلئے مختلف عنوانوں اوربہانوں کے تحت عوام سے رقوم بٹورنی شروع کر دیں۔ ملکی خزانہ خالی کیا اوراس ملک کو مقروض و بے حال کر دیا۔شرفو نے بات اُچک لی اور بولا لیکن اب تو معاملہ اُلٹ گیا ، ایک لیڈر ایسے بھی آگئے ہیں جو لٹیروں سے فرماتے ہیں کہ جولوٹاہے ، وہ مال واپس کرو، وہ مال نہیں دیتے تو انہیں جیل میں ڈال کر کہتے ہیں کہ لوٹ مار کرو گے تو انجام یہی ہوگا۔سنا ہے ’’ٹُنا ،منا ،چُنّا،گھنّا، چھنا‘‘ سب کے سب فکر مند ہیں اور راہ فرار تلاش کر رہے ہیں جو مل نہیں رہی۔
 

شیئر:

متعلقہ خبریں