پاکستان کے سابق فوجی صدر پرویز مشرف شہر ہ آفاق تاج محل سے کچھ فاصلے پر واقع ہوٹل امر ولاس میں اپنے حکومتی رفقا کے ساتھ بے چینی سے کسی پیغام کے منتظر تھے۔
یہ 16 جولائی 2001 کی رات تھی۔ ہندوستانی شہر آگرہ میں موجود پاکستانی صدر کے علاوہ ہوٹل میں موجود بین الاقوامی میڈیا کے نمائندے بھی تھوڑے فاصلے پر واقع جے پی پیلس ہوٹل سے بھارتی وزارت خارجہ کے ذمہ داروں کی آمد کے منتظر تھے۔
تین گھنٹے طویل انتظار کے بعد صدر مشرف نے اپنے وفد کے ارکان کو فوری طور پر وطن واپسی کا حکم دیا حالانکہ ان کے طے شدہ پروگرام میں اجمیر شریف کی حاضری کے بعد جے پور سے ہوتے ہوئے پاکستان واپسی کا راستہ متعین ہوا تھا۔
مزید پڑھیں
-
پرویز مشرف: کمانڈو جس کی کھال وردی تھی اور ہتھیار مُکاNode ID: 740581
ایئرپورٹ روانگی سے قبل ان کا رخ اس وقت کے بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کی آگرہ میں رہائش کی جانب تھ۔
دونوں کے درمیان 45 منٹ کی خلوت میں میٹنگ کے بعد پرویز مشرف کا طیارہ ایئرپورٹ سے پرواز کر گیا۔ یہ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان 14 سے 16 جولائی 2001 کو ہونے والے آگرہ سمٹ کا اختتامی منظر نامہ تھا۔
اس روز دونوں پڑوسی مگر حریف ملکوں کے کروڑوں لوگوں کے علاوہ عالمی میڈیا کے سبھی بڑے ادارے سانس روکے کسی ’بریک تھرو‘ کے منتظر تھے۔
مگر یوں ہنگامی طور پر پاکستانی صدر کی ملک واپسی سے ’بریک ڈاؤن‘ کا تاثر قائم ہو گیا۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کے قد آور نظریاتی رہنما اور مفکر سیاست دان کی پہچان رکھنے والے واجپائی نے جنوری 2001 میں اپنے ایک مضمون میں پاکستان کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔
پاکستان کی جانب سے پرجوش اور مثبت رد عمل نے دونوں ملکوں کے تعلقات پرطاری جمود کو توڑنے میں مدد دی ۔ضروری سفارتی تیاریوں کے بعد حکومتی سربراہوں کی سطح پر آگرہ میں دو روزہ کانفرنس کا انعقاد طے پایا۔
مئی 2025 میں پاکستان اور بھارت کے درمیان محدود جنگی جھڑپوں کے بعد تعلقات تاریخ کی نچلی ترین سطح پر جا چکے ہیں۔اسی طرح 24 برس قبل بھی دونوں ملکوں میں جولائی 1999 کی کارگل جنگ کی وجہ سے سفارتی تناؤ اور ہر طرح کے تعاون سے گریز کی کیفیت تھی۔
دونوں ملکوں کے درمیان امن اور مفاہمت کے جنم لیتے امکانات دو دنوں کے دوران سربرھان کی جاری ملاقاتوں میں متعدد بار زیر بحث آئے۔
مذاکرات کے آخری روز کی رات پرویز مشرف اور ان کی حکومتی ٹیم کانفرنس کے متفقہ اور مشترکہ اعلامیہ کے ڈرافٹ کا انتظار کر رہے تھے ۔ جس کا وعدہ بھارتی وزیر خارجہ جسونت سنگھ اپنے پاکستانی ہم منصب عبدالستار سے کر کے گئے تھے۔
اس دور کے پاکستانی وزیر خارجہ عبدالستار کے بقول ہندوستانی وزیر خارجہ ’پانچ منٹ‘ میں اپنے وزیراعظم کی منظوری کے بعد واپس آنے اور دستخط کی تقریب منعقد کرنے کا کہہ کر گئے تھے۔
جسونت سنگھ کی پانچ منٹ میں واپسی کے راستے میں کون سی نادیدہ قوتیں حائل ہوئیں؟ اس کا احوال جاننے سے قبل یہ معلوم کرتے ہیں کہ دونوں ملکوں کے تعلقات کی نئی بنتی تاریخ میں رخنہ کیسے آیا؟
پرویز مشرف کی آبائی حویلی اورآموں کا تحفہ
پاکستانی صدر پرویز مشرف کے دورہ ہندوستان نے پاک بھارت تعلقات کے منجمد منظر نامے پر بحث و توقعات کی گرمی اور شخصی حوالے سے ہلچل پیدا کر دی۔
اس کی وجہ ان کا کارگل کی جنگ کا معمار ہونا بھی تھا۔
پہلے کارگل کے محاذ پر لڑائی اور پھر دسمبر 1999 میں بھارتی ہوائی جہاز کی ہائی جیکنگ کی وجہ سے بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کا ماحول تھا۔ان حالات میں مشرف کا دورہ ہندوستان میں سفارتی، سیاسی اور صحافتی دلچسپی اور بحث و مباحثے کا عنوان بن گیا۔
ہندوستان کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی سیاست علی الاعلان پاکستان مخالف جذبات پر استوار تھی ۔ مگر ایک تو واجپائی جیسی بھاری بھرکم سیاسی شخصیت اور دوسرا بھارتی رائے عامہ کی جانب سے پاکستان کے ساتھ مذاکرات کی پرجوش حمایت نے اس جماعت کے انتہاپسند عناصر کو کھل کر اس فیصلے کی مخالفت کرنے سے باز رکھا۔
ان سب باتوں سے ہٹ کر مشرف کی ذات میں غیر معمولی دلچسپی کی ایک بڑی وجہ دہلی کا ان کی جنم بھومی ہونا بھی تھا۔
ان کے والد سید مشرف الدین کی آبائی حویلی دریا گنج کے علاقے میں واقع تھی ۔نہر والی حویلی کے نام سے معروف اس جگہ مشرف نے آنکھ کھولی تھی۔
انڈین میڈیا میں ان کے خاندانی گھر کی نشان دہی کے بعد اس علاقے کی اہمیت اور تذکرہ اور بڑھ گیا۔حکومت نے بھی پرویز مشرف کے آبائی گھر کی تزئین و آرائش کے علاوہ اس علاقے کی سجاوٹ اور صفائی پر خصوصی توجہ دی۔
14 جولائی کو صدر پرویز مشرف اپنی اہلیہ صبہا مشرف کے ساتھ دلی پہنچے۔انہیں نہر والی حویلی لے جایا گیا تو ان کے بچپن کی آیا ان کی منتظر تھیں۔
90 سالہ کشمیرہ ان کے گھر میں ملازمہ رہ چکی تھیں۔ بقول ان کے مشرف ان کی گود میں کھیلے تھے ۔درجنوں ٹیلی ویژن کیمروں کی موجودگی میں صدر مشرف اور ان کی بیگم کشمیرہ بی بی سے مل کر جذباتی ہو گئے۔اخبارات کے مطابق انہیں ماں کہہ کر مخاطب کیا۔ اس روز دریا گنج کے علاقے میں جشن کی کیفیت تھی۔
پاکستانی صدر کے اعزاز میں بھارتی صدر کے أر نرائن نے ظہرانے کا بندوبست کر رکھا تھا۔ صدر مشرف جب راشٹریہ پتی بھون پہنچے تو بارش کے باوجود واجپائی ان کے استقبال کے لیے دروازے کے باہر موجود تھے۔
پرویز مشرف بھی اپنے ساتھ مختلف تحائف لے کر گئے تھے لیکن ان میں پاکستانی چونسا آم کے بے مثال ذائقے نے میزبانوں کے دل مو لیے۔
ان کی روانگی سے قبل ہی ملتان اور شجاع آباد سے اعلی کوالٹی کا آم ڈبوں میں پیک کر کے ہندوستان بھجوایا گیا ۔آموں کا یہ تحفہ بھارتی صدر، وزیراعظم کے علاوہ اعلی حکومتی اور عسکری شخصیات کو بھجوایا گیا۔
اس وقت کے انڈین وزیر داخلہ اور نائب وزیراعظم کے ایل ایڈوانی نے میڈیا کو أموں کی پیٹی سے أم نکال کر دکھاتے ہوئے کہا کہ مشرف نے چونسا جیسے لذیذ، خوشبودار اور میٹھے آم انہیں بھیجے ہیں۔
یہ الگ بات ہے کہ بعد میں انہی ایڈوانی کو دونوں ملکوں کے تعلقات میں ترشی اور تلخی گھولنے والا قرار دیا گیا۔
صدر پاکستان سے بھارتی فلم انڈسٹری کے مایہ ناز فنکاروں دلیپ کمار اور شاہ رخ خان کی خصوصی ملاقات کروائی گئی ۔شاید اس کی وجہ دونوں شخصیات کا پاکستانی پس منظر بھی تھا۔
پرویز مشرف انڈیم میڈیا کے ’ڈارلنگ‘ کیوں بنے؟
صدر پاکستان نے بھارت روانگی سے ایک روز قبل خلیجی اخبار کو انٹرویو میں کہا کہ شملہ معاہدہ اور اعلان لاہور سے مسئلہ کشمیر حل نہیں ہو سکتا۔ اس بیان کی بنیاد بھارتی وزیراعظم کی جانب سے شملہ معاہدہ اور ان کے دورہ لاہور کے موقع پر جاری ہونے والے اعلامیہ کو پاکستان اور بھارت کے تعلقات کی بنیاد قرار دینا تھا۔
15 جولائی کو پرویز مشرف آگرہ پہنچے ۔اسی روز واجپائی کے ساتھ ان کی ملاقاتوں کے دو دور ہوئے ۔جس نے سرد مہری کی برف پگھلا دی ۔اسی روز بھارت کی جانب سے کرکٹ کی بحالی اور دونوں ملکوں میں میچوں کا سلسلہ شروع کرنے پر اتفاق بھی ہو گیا۔
پاکستان کی جانب سے تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے مسئلہ کشمیر کی مرکزیت پر زور دیا گیا ۔جبکہ بھارتی وزیراعظم نے اپنے ملک کا موقف سرحد پار دہشت گردی کے خاتمے کے مطالبے پر رکھا۔
دونوں ہمسایوں میں کارگل کی جنگ کے بعد یہ پہلا اعلی سطحی رابطہ تھا ۔دنیا بھر کے میڈیا کے لیے آگرہ سمٹ خبروں اور تبصروں کا مرغوب موضوع اور مرکز بن چکا تھا۔
دونوں ایٹمی طاقتوں کے درمیان کسی متوقع سمجھوتے کہ امکانات کی تلاش میں پاکستان اور بھارت کے علاوہ دنیا بھر سے ایک ہزار سے زیادہ صحافی یہاں موجود تھے۔ 15 ٹیلی ویژن چینلز کی ٹیمیں مذاکرات سے جڑی خبریں ،جنم لیتے واقعات اور دونوں اطراف کے وفود میں شامل اہم شخصیات کے انٹرویوز نشر کر رہے تھے۔
16 جولائی کا دن مذاکرات کے لیے ہنگامہ خیر ثابت ہوا ۔اس کی ایک وجہ پاکستانی صدر کی بھارتی میڈیا کی نمایاں شخصیات کے ساتھ غیر روایتی، جاندار اور پر اعتماد گفتگو بنی۔
بھارتی میڈیا کے اداروں کے مدیروں اور ٹیلی ویژن چینلز کے اعلی حکام کے ساتھ مشرف نے ناشتے کی میز پر ملاقات کی ۔ان سے کانفرنس کہ ایجنڈے اور دونوں ملکوں کے درمیان کشمیر اورسرحد پار دہشت گردی جیسے موضوعات پر سوالات کیے گئے۔
پرویز مشرف نے مسئلہ کشمیر کی مرکزیت کا زوردار دلائل سے دفاع کیا ۔اس کے ساتھ ہی انہوں نے کھلے پن کے ساتھ بھارت کو تعلقات کی خرابی کی بنیاد کشمیر کا مسئلہ حل کرنے کے لیے اگے بڑھنے کی تجویز بھی پیش کی ۔انہوں نے صحافیوں کو بتایا کہ ان پر بھی دباؤ ہے کہ ہر حال میں مسئلہ کشمیر پر بات کریں ۔وہ کشمیر پر بتدریج اقدامات پر راضی ہو سکتے ہیں بشرط کہ بھارت بھی ایسا کرے۔
پرویز مشرف کی جانب سے کشمیر کا ذکر خصوصیت سے کرنے کی وجہ اس دور میں بھارت کی وزیر اطلاعات سشما سوراج بنیں۔
انہوں نے آگرہ سمٹ کے پہلے روز ہندوستان کے قومی ٹیلی ویژن کو انٹرویو میں دونوں ملکوں کے درمیان ملاقات کے موضوعات کے بارے میں بات کی تھی۔سشما سوراج نے سرحد پار دہشت گردی، ایٹمی ہتھیاروں کا معاملہ ، منشیات کی سمگلنگ کے خاتمے اور دونوں ملکوں میں موجود جنگی قیدیوں کی رہائی جیسے معاملات کو ہی کانفرنس کا ایجنڈا قرار دیا۔
جب ان سے کشمیر کے معاملے کو گفتگو کا حصہ بنانے کے حوالے سے سوال ہوا تو انہوں نے لاپرواہی سے جواب دیا کہ مجھے اس کی خبر نہیں ہے ۔ ان کی یہ گفتگو پرویز مشرف کی نظر سے بھی گزری۔
مشرف نے ہندوستانی میڈیا کے نمائندوں سے ہلکے پھلکے انداز میں کہا کہ آپ کی وزیر اطلاعات کو میں ٹیلی ویژن پر دیکھتا ہوں ۔وہ ہر چیز کے بارے میں بات کرتی ہیں مگر مسئلہ کشمیر ان کی گفتگو کا موضوع نہیں بنتا۔
ناشتے کی میز پر سٹار نیوز ٹیلی ویژن کے سربراہ ہبھی موجود تھے ۔انہوں نے پاکستانی حکام سے درخواست کی کہ صدر مشرف کی گفتگو کی ریکارڈنگ انہیں مہیا کی جائے تاکہ وہ ان کی کاپیاں بنا کر اصل ٹیپس واپس کر سکیں۔
تھوڑی دیر بعد انڈین چینلز پر پرویز مشرف کی گفتگو دکھائی جا رہی تھی ۔ان کے انداز گفتگو کی روانی اور کھلے پن نے انہیں انڈین میڈیا میں مقبول بنا دیا۔ ساتھ ہی مذاکرات کے ماحول میں انہیں نفسیاتی برتری اور اعتماد بھی مل گیا۔
دونوں ملکوں کے سربراؤں کے درمیان ڈیڑھ بجے ملاقات کا ایک اور دور ہوا ۔جس کے اختتام تک ماحول میں کسی غیر معمولی تبدیلی کے آثار نہیں تھے ۔دونوں طرف کے وزرائے خارجہ کو کانفرنس کے مشترکہ اعلامیہ کو فائنل کرنے کا کہا گیا جس کے ڈرافٹ پر پہلے ہی سیکرٹری خارجہ کہ درمیان مشاورت سے کام ہو رہا تھا۔
مشترکہ اعلامیہ پر اتفاق کی راہ میں رکاوٹیں
آگرہ میں بحثیت وزیر خارجہ پاکستان کی نمائندگی عبدالستار نے کی تھی ۔انہوں نے اپنی کتاب "پاکستانز فارن پالیسی "میں آگرہ مذاکرات کی بنتی بگڑتی کہانی بیان کی ہے۔
وہ لکھتے ہیں کہ دونوں وزرائے خارجہ کے درمیان مشترکہ اعلامیہ کے ڈرافٹ کا تبادلہ ہوا تو وہ اس کے متن پر متفق ہو گئے تھے ۔یہی ڈرافٹ بعد میں سربراہ حکومت کو پیش کیا جانا تھا۔پاکستانی صدر نے اس کی فوری منظوری دے دی جبکہ بھارت کی طرف سے اس کا مسودہ ان کی کابینہ کی سکیورٹی کمیٹی کے اجلاس میں پیش ہوا۔
انڈین حکومت کی کمیٹی دفاع، تجارت ، خارجہ امور، خزانہ اور داخلہ کی وزارتوں پر مشتمل تھی ۔دو گھنٹے بعد جسونت سنگھ کی عبدالستار سے ملاقات ہوئی جس میں انہیں مطلع کیا گیا کہ کابینہ کی کمیٹی کشمیر کے بارے میں ایک سطری پیراگراف میں تبدیلی کی خواہاں ہے۔
پاکستان کی جانب سے مطلوب تبدیلی کے بعد جسونت سنگھ ان سے مخاطب ہو کر کہنے لگے ’میں پانچ منٹ میں اس کی منظوری حاصل کر کے آتا ہوں۔‘
عبدالستار کے مطابق ان کی واپسی نہیں ہوئی بلکہ اس کے بعد بھارتی کابینہ کی ایک اور طویل میٹنگ شروع ہو گئی جو تین گھنٹے جاری رہی۔ اسی دوران ہوٹل انتظامیہ کی جانب سے مشترکہ اعلامیہ کی تقریب کے لیے کرسیوں اور میزوں کو ترتیب دیا جانے لگا۔
پاکستانی صدر اور دیگر عہدے دار بےچینی سے بھارتی جواب کے منتظر تھے۔ انہی کے ساتھ دنیا بھر کا میڈیا ہوٹل کی راہداریوں میں آنے والے تاریخ ساز لمحات کی امید میں کسی بڑی خبر کا منتظر تھا۔
رات نو بجے پاکستانی وفد کو مطلع کیا گیا کہ معاہدہ نہیں ہو سکتا۔ صدر پاکستان میڈیا کے نمائندوں کے سامنے نئی صورتحال پر بات کرنا چاہ رہے تھے ۔مگر سکیورٹی وجوہات کا کہہ کر ان کی پریس کانفرنس بھی نہیں ہونے دی گئی ۔یوں غیر متوقع طور پر آگرہ سمٹ ختم ہو گئی۔
عبدالستار لکھتے ہیں کہ صدر مشرف کو مطلع کیا گیا کہ انڈین کابینہ کی کمیٹی میں اس پر اتفاق رائے نہیں ہو سکا ۔تاہم بھارتی حکام کی جانب سے یہ نہیں بتایا گیا کہ انہیں کن نکات پر کس نوعیت کا اختلاف ہے۔
صدر پاکستان نے اپنے حکام کو فوری ملک واپسی کا حکم دیا۔ روانگی سے قبل انہوں نے وزیراعظم واجپائی سے 45 منٹ تک تنہائی میں بات چیت کی۔ انڈین وزیراعظم نے انہیں مطلع کیا کہ یہ معاہدے کے لیے مناسب وقت نہیں ہے ۔وہ اپنے دورہ پاکستان میں اس اعلامیہ کو حتمی شکل دیں گے۔
معاہدہ نہ ہونے کے پیچھے نادیدہ طاقتیں
اس سوال سے جڑے حقائق اس سارے عمل سے وابستہ شخصیات کے خیالات اور وقوع پزیر واقعات کے بارے میں ان کے تبصروں سے امن عمل کو خراب کرنے والوں کا سراغ لگانے میں آسانی ہو جاتی ہے۔
غیر ملکی مبصرین نے بھی اس بارے میں طرح طرح کی قیاس آرائیاں کی ہیں ۔کچھ کے نزدیک مشرف کی جانب سے 16 جولائی کو بھارتی صحافیوں سے ہونے والی گفتگو صورتحال کے بگاڑ کا باعث بنی ۔پاکستانی صدر کے پر اعتماد انداز اتخاطب اور متاثر کن دلائل نے پاکستان کے ساتھ امن کی مخالفت کرنے والے عناصر کو برافروختہ کر دیا ۔رد عمل میں انہوں نے ان تاریخی مذاکرات میں تعطل پیدا کر دیا۔
انڈین وزارت خارجہ کے سابق عہدے دار اور پاکستان میں بھارت کے سابق سفیر ستندر کمار لامبا اپنی کتاب ’ان پرسیوٹ آف پیس‘ میں لکھتے ہیں کہ اس ملاقات میں بھارت کا اصرار تعلقات کو معمول پر لانے کے اقدامات جن میں سرحد پار دہشت گردی بھی شامل تھی پر رہا۔ جبکہ پاکستان کا موقف تھا کہ مسئلہ کشمیر کے حل سے دیگر معاملات میں بہتری کی راہ ہموار ہوگی۔
لامبا صدر پرویز مشرف کی میڈیا سے ملاقات اور گفتگو کو آگرہ سمٹ کی ناکامی کی وجہ قرار دیتے ہیں مگر ساتھ ہی وہ بھارتی وزیر داخلہ کے ایل ایڈوانی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’انڈین کابینہ کے سخت گیر عناصر جن کی قیادت ایڈوانی کر رہے تھے اس ناکامی کے ذمہ دار ہیں۔‘
ایڈوانی کے بارے میں لامبا کی تحریر کی تصدیق پاکستان کے سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری کی کتاب ’نائدر ہاک نیدر ڈوو‘ سے بھی ہوتی ہے۔
ان کے مطابق اس دور میں ایڈوانی وزیراعظم واجپائی کی گرتی ہوئی صحت کے پیش نظر ان کی جگہ لینے کی تگ و دو کر رہے تھے ۔اسی غرض سے وہ آر ایس ایس اور بی جے پی میں موجود سخت گیر عناصر اور انتاپسندانہ پالیسیوں کے حامیوں میں اپنی جگہ بنانا چاہتے تھے ۔آگرہ سمٹ کو ناکام کر کے وہ ایک سخت گیر رہنما کا تاثر بھی دینا چاہتے تھے۔
2005 میں سابق صدر پرویز مشرف نے بھی ایڈوانی کو امن عمل تلپٹ کرنے کا ذمہ دار قرار دیا تھا۔ اسی طرح مارچ 2008 میں ٹائمز اف انڈیا کے ساتھ ایک انٹرویو میں ایڈوانی نے خود بھی اس بات کو تسلیم کیا تھا کہ وہ پاک بھارت مشترکہ اعلامیہ پر اتفاق رائے کے حق میں نہیں تھے۔
جولائی 2001 میں ہی واشنگٹن میں مقیم ایک پاکستانی صحافی نیر زیدی نے آگرہ مذاکرات کے بارے میں لکھا کہ دو بھارتی وزرا نے وزیراعظم کو استعفے کی دھمکی دے کر انہیں مشترکہ اعلامیہ پر دستخط کرنے سے باز رکھا تھا ۔ان میں بی جے پی سے تعلق رکھنے والے مرلی منوہر جوشی اور انند کمار شامل تھے۔
پاکستان کے سابق وزیر خارجہ عبدالستار کے مطابق واجپائی نے یکم جنوری 2004 کو ایک پاکستانی صحافی کو انٹرویو میں کہا تھا کہ یہ ڈرافٹ دو وزرائے خارجہ نے مل کر تیار کیا تھا مگر اس میں ’حکومتی‘ منظوری شامل نہ تھی۔
انڈین میڈیا میں اس دور کی وزیر اطلاعات سشما سوراج کانفرنس کی ناکامی کے بعد شدید تنقید کی زد میں آگئی تھیں۔ ان پر مذاکرات میں خلل ڈالنے اور میڈیا میں پرویز مشرف کے بارے میں منفی بیان دینے کہ الزامات لگے۔
پاکستان کے سینیئر صحافی اور تجزیہ نگار نصرت جاوید ان صحافیوں میں شامل تھے جو آگر سمٹ کی رپورٹنگ کے لیے وہاں گئے تھے۔انہوں نے سشما سوراج کا خصوصی انٹرویو بھی کیا تھا جو جنگ گروپ کے اخبارات میں شائع ہوا تھا۔
انڈین وزیر اطلاعات نے اپنی گفتگو میں ان الزامات کی تردید کی تھی کہ انہوں نے پرویز مشرف کے بارے میں کہا تھا کہ وہ کانفرنس کو خراب کر رہے ہیں ۔ان کا کہنا تھا کہ میں نے میڈیا کے لوگوں کو قریب لانے کی کوشش کی تھی ۔نصرت جاوید کے مطابق وہ پرویز مشرف کی میڈیا سے ملاقات کا تذکرہ کرتے ہوئے بہت اپ سٹ لگ رہی تھی۔
’آگرہ سے خالی ہاتھ آیا ہوں مگر مایوس نہیں ہوں‘
صدر پاکستان پرویز مشرف نے واپسی پر 20 جولائی کو پریس کانفرنس میں کہا کہ وہ آگرہ سے خالی ہاتھ واپس ائے ہیں مگر وہ امن عمل سے مایوس نہیں ہیں۔مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے انتہا پسندوں کو نظر انداز کرنا ہوگا ۔مفاہمت کا عمل اب روکا نہیں جا سکتا۔
دوسری طرف بھارت میں بھی آگرہ سمٹ کے حوالے سے بحث و مباحثے کا بازار گرم ہو گیا ۔وزیراعظم واجپائی نے اپنا دفاع کرتے ہوئے بھارتی لوگ سبھا میں کہا کہ اگر وہ بھی سخت رویہ اپناتے تو عالمی برادری کو پیغام جاتا کہ پاکستان اور بھارت آپنے مسائل خود حل کرنے کے قابل نہیں ۔اس طرح ثالثی کا دروازہ کھل جاتا۔
نصرت جاوید کے مطابق اس وقت واچپائی کو اپنی قوم کے سامنے صفائی دینا پڑ رہی تھی ۔بھارتی وزیر خارجہ کی پریس کانفرنس میں اس بات کا اشارہ ملا کہ ان کا ملک امریکی ثالثی سے بچنا چاہتا تھا۔
اس دور کے نو منتخب امریکی صدر جارج بش کے خصوصی نمائندے رچرڈ آرمٹیج نے بی بھارت کا دورہ کیا تھا ۔جنوبی ایشیا کے بارے میں امریکی ماہر اسٹیفن کوہن نے کہا تھا کہ امریکہ کو اب اس معاملے میں پڑنا چاہیے اگرچہ بھارتی یہ نہیں چاہتے۔
آج 24 برسوں بعد پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے امریکی ثالثی کا غلغلہ پھر سنائی دے رہا ہے ۔پاکستان اور بھارت میں جنگ بندی میں امریکی کردار اور صدر ٹرمپ کی جانب سے مسئلہ کشمیر کے حل کے کردار ادا کرنے کی خواہش اور بیانات کو تجزیہ نگار معنی خیز قرار دیتے ہیں۔
اگرچہ گزرے برسوں میں بہت ساری حقیقتیں بدل چکی ہیں ۔مکر پاکستان اور بھارت کے تعلقات اور تنازعات کے تناظر میں ماضی کے بہت سارے واقعات کو حال کی حقیقتوں سے الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا۔