Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بی جے پی پر خطرے کے بادل

***سید اجمل حسین ۔ دہلی***
وزیر اعظم نریندر مودی کا حزب اختلاف کے عظیم اتحاد کے حوالے سے یہ کہنا کہ جو سیاستداں 4سال پہلے تک دست و گریباں رہا کرتے تھے اور ایک دوسرے کو داخل زنداں کرنے کی دھمکیاں دیتے رہتے تھے آج محض ان سے (مودی) کسی نہ کسی طرح چھٹکارہ پانے کے لیے نہ صرف ایک دوسرے سے ہاتھ ملا رہے ہیں بلکہ  گلے مل رہے ہیں اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ کہیں نہ کہیں خود بھارتیہ جنتا پارٹی( بی جے پی) بھی اس عظیم اتحاد سے خوفزدہ ہے ۔ اگر بقول نریندر مودی حزب اختلاف کے رہنما یہ سمجھتے ہیں کہ اگر یہ ’’چوکیدار‘‘ پھر ڈیوٹی پرواپس آگیا تو ان کی مزید چوریاں پکڑ کر اور ان کے آقاؤں کا’’ دفینہ‘‘ اور مالی تعاون کا راز طشت از بام کر کے نہ صرف  ان کو رسوا کر دے گا بلکہ اس بار انہیں جیل بھیجنے سے بھی بازنہیں آئے گا۔ اقتدار سے محرومی بی جے پی سے زیادہ خود نریندر مودی اور بی جے پی صدر امیت شاہ    دامے درمے سخنے یا درپردہ معاونت کرنیوالے کئی بی جے پی دوستوں اور رشتہ داروں کیلئے پریشانیوں کی سوغات لے کر آسکتا ہے۔واضح ہو کہ حال ہی میں مغربی بنگال میں عملاً پارٹی کی انتخابی مہم کا باقاعدہ آغاز کرتے ہوئے کولکاتامیں حزب اختلاف کے رہنماؤں کا ایک اسٹیج پر اجتماع کا ذکر کرتے ہوئے وزیر اعظم مودی نے یہ غلط نہیں کہا کہ اس اسٹیج پرانہی لوگوں کا جمگھٹ تھا جن کا کوئی بیٹا،کوئی بھتیجہ، کوئی بھانجہ یا وہ خود کسی غلط دھندے اور بدعنوانی میں ملوث ہیں ۔ گروپ فوٹو میں ان سب لیڈروں کے چہرے سے خوف جھلک رہا ہے۔ اس عظیم ریلی میں بجز راہول گاندھی کے حزب اختلاف کے تمام سربراہوں کی شرکت سے بی جے پی کے سر پر خطرے کے بادل تو منڈلانے لگے لیکن یہ وہ بادل ہیں جو صرف گرج سکتے ہیں ۔ وزیر اعظم ہی نہیں سیاست کی معمولی شدھ بدھ رکھنے والا بھی اس سے واقف ہے۔ بی جے پی کو اصل خطرہ اترپردیش کی 2 بڑی علاقائی پارٹیوں سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی کے اتحاد سے ہے ۔چونکہ عام خیال کیا بلکہ حقیقت بھی یہی ہے کہ’’ اترپردیش ہندوستان ہے اورہندوستان اتر پردیش ہے‘‘۔کیونکہ ملک کا یہ وہ صوبہ ہے جو عام طور پر ہمیشہ سے ہی عام انتخابات میں بادشاہ گر کا کردار ادا کرتا رہا ہے۔ یہاں سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی اتحاد اگر مودی کیلئے پریشانی کا باعث ہے تو  راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ کے اسمبلی انتخابات میں کانگریس کی جیت سے ان ریاستوں میں بھی عام انتخابات میں بی جے پی امکانات پر کاری ضرب لگی ہے۔ ادھر این ڈی اے میں شامل کئی پارٹیوں نے آنکھیں دکھانا شروع کر دی ہیں۔رام مندر اور تحفظ گائے جیسے حساس معاملات پر جنوبی ہند کی  این ڈی اے پارٹیوںمیں بی جے پی سے بدظنی پھیل رہی ہے۔تیلگو دیشم ،آسام گن پریشد اور کافی حد تک شیو سینا بھی اسے چھوڑ چکی ہیں اور شرومنی اکالی دل نے بھی گوردواروں اور سکھوں کے مذہبی امور میں آر ایس ایس کی  مداخلت  پر بی جے پی کو سخت سست کہنا کیا بلکہ للکارنا شروع کر دیا ہے۔یہی نہیں بلکہ یہ تک کہہ دیا کہ اگر مداخلت جاری رہی تو وہ این ڈی اے سے باہرہو جائیں گی۔ اس جانب پہلا قدم اٹھاتے ہوئے حال ہی میں اکالی دل نے وزیر اعظم نریندر مودی کی ایماء پر طلب کیے گئے   این ڈی اے کے ایک اجلاس میں شرکت نہ کر کے اپنا منشاء ظاہر کر دیاہے۔ادھر پارٹی کے سابق صدر و مرکزی وزیر نتن گڈکری آئے روز ایسے بیانات دے رہے ہیں جن سے نریندر مودی اور امیت شاہ سے ان کے بغض و عناد کی عکاسی ہوتی ہے۔ سیاسی حلقوں میں یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ چونکہ فردنویس کو مہاراشٹر کا وزیر اعلیٰ بنا کر مودی نے گڈکری کا مہاراشٹر کا وزیر اعلیٰ بننے کا خواب چکنا چور کر دیااس لیے وہ بھی مودی کو وزارت عظمیٰ کے عہدے سے محروم کرنے کیلئے ببانگ دہل نہ سہی اشارے کنائے میں ان کے خلاف بول کر پارٹی کے اندر ہی بغاوت کے جراثیم پھیلا رہے ہیں جو شاید بی جے پی میں اس قدر سرایت کر جائیں کہ عام انتخابات کے جدول کا اعلان ہوتے ہی پارٹی ایسی بھیانک بیماری میں مبتلا ہو جائے کہ لوک سبھا انتخابات سے پہلے ہی مودی وزارت عظمیٰ کی مسند سے میلوں دور کھڑے نظر آنے لگیں۔ اس وقت کی جو صورت حال ہے اس میں امیت شاہ بھی کچھ نرم گفتار بنے ہوئے ہیں اور حزب اختلاف پر جیسے حملے اب تک ہوتے رہے وہ امیت شاہ نہیں کر رہے ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ امیت شاہ سوائن فلو میں مبتلا تھے اور کافی نقاہت محسوس کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ فی الحال وہ گرج نہیں رہے لیکن اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پارٹی کے اندر سرد جنگ یا مودی کے خلاف ماحول کہیں نہ کہیں سینیئر لیڈروں کو اس لیے خاموش رہنے اور گروہ بندی سے دور رہنے پر مجبور کر رہا ہے کیونکہ اس بات سے سب واقف ہیں کہ مودی انتخابات سے چند روز پہلے تک بی جے پی مخالف لہر چلنے کے باوجود اپنی حکمت عملی سے سب کو حیران کر سکتے ہیں۔ بھلے ہی پارٹی قطعی اکثریت حاصل نہ کر سکے لیکن واحد سب سے بڑی پارٹی بن کر مودی کے لیے وزارت عظمیٰ کی مسند پر پھر براجمان ہونے کی راہ ہموار کر سکتی ہے۔ ایسے میں وہ لیڈر جو کھل کر بغاوتی تیور دکھا چکے ہوں گے کہیں کے نہ رہیں گے۔ اور سمندر میں رہ کر مگر مچھ سے بیر رکھنے کا ایسا خمیازہ بھگتنا پڑ سکتا ہے کہ شاید انہیں آئندہ وزیر بننا تو دور کی بات لوک سبھا ایم پی بننا بھی نصیب نہ ہو۔
 

شیئر: