Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

احتساب

***جاوید اقبال***
چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی زیر قیادت شبلی فراز، آصف کرمانی، مشاہد حسین سید، جاوید عباسی، نزہت صادق، انوار الحق کاکڑ، عطا الرحمان، شیری رحمان، اسد علی خان جونیجو، شہزاد وسیم پر مشتمل سینیٹ ارکان کا ایک وفد لندن جارہا ہے۔ وہاں یہ مقامی آبادی پر مسئلہ کشمیر اجاگر کرے گا اور پاکستانی اور کشمیری کمیونٹی سے ملاقاتیں کر کے کشمیر کے مسلمانوں کے حق میں رائے عامہ ہموار کرے گا۔ یہ تو حکومتی خبر ہے لیکن اس خبر کے باہر بھی ایک خبر ہے اور وہ یہ کہ یہ وفد مقامی پاکستانیوں کی دی گئی دعوتیں اڑائے گااور ان کے ساتھ تصاویر بنواکر انہیں ممنونِ احسان کرے گا۔ اس دوران میں دارالعلوام یاد الارامراء کے کسی رکن سے شرف ملاقات حاصل کر کے اس پر مسئلہ کشمیر اجاگر کرے گا اور پھر وطن واپس آکر اخبارات کی شہ سرخیوں میں دعویٰ کرے گا کہ اس کا دورہ انتہائی کامیاب رہا ہے اور برطانوی عوام اب قضیۂ کشمیر کو بخوبی سمجھ گئے ہیں۔ یہ طرفہ تماشا گزشتہ تقریباً چوتھائی صدی سے جاری ہے اور میں اس سے بخوبی آگاہ ہوں۔ چند برس پیشتر کے ایک دن کا چشم دید قصہ بیان کرتا ہوں۔ اس سہ پہر سفارت خانے کا آڈیٹوریم کھچا کھچ بھرا تھا۔ تقریباً ہر سیاسی جماعت کے نمائندے موجود تھے۔ ایک طویل انتظار کے بعد مہمان خصوصی مولانا فضل الرحمان سفیر پاکستان کے ہمراہ صدر دروازے میں نمودار ہوئے۔ اردگرد مداحوں کا ہجوم تھا۔ آڈیٹوریم زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھا۔ جوش و خروش دیدنی تھا۔ مولانا پاکستان میں کشمیر کمیٹی کے چیئرمین تھے اور دنیا پر قضیۂ کشمیر واضح کرنے کے لیے دورے پر نکلے تھے۔ ریاض میں ہمارے سفارتخانے ان کا استقبال مکمل پروٹوکول سے کیا تھا۔ گاڑیوں کا قافلہ انہیں سفارتخانے لایا تھا۔ مہمان خصوصی اسٹیج پر جلوہ افروز ہوگئے۔ جلد ہی انہیں دعوت خطاب دے دی گئی۔ ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ کے فلک شگاف نعرے بلند ہوئے۔ اگلا ایک گھنٹہ اردو اور پشتو میں فصاحت و بلاغت کی نذر ہوا۔ مولانا نے انتہائی مہارت سے قضیۂ کشمیر پر روشنی ڈالی اور رائے شماری نہ کرانے پر اقوام متحدہ کے لتے لیے۔ کشمیر میں مسلمان آبادی پر ہونے والے ہندوستانی مظالم کا تفصیلی ذکر ہوا۔ آڈیٹوریم زندہ باد، پائندہ باد کی گونج میں لرزتا رہا۔ خطاب کے اختتام پر حاضرین نے مولانا کو گھیر لیا۔ ان میں زیادہ تر ان کے حلقہ انتخاب کے لوگ تھے جو انہیں اپنے خاندان کو درپیش مسائل سے آگاہ کررہے تھے۔ کچھ کشمیری تھے جو مولانا سے مصافحہ کے خواہشمند تھے۔ عصر کی اذان ہوئی۔ مولانا نے سفارتخانے کی مسجد میں ہی امامت کرائی۔ پھر تقریباً 20 منٹ کی استراحت تھی۔ اس کے بعد مسجد کے قالین پر ہی دسترخوان بچھا دیا گیا۔ کھانے کی اشتہار انگیز مہک فضا میں تیرتی رہی ، دستر خوان سمٹ گیا تو مولانا کو اطلاع دی گئی کہ ہوائی اڈے پر جانے کے لیے سفارتخانے کی گاڑیاں تیار کھڑی ہیں۔ آپ اُٹھے اور حکومتی عملے اور مداحوں کے جلو میں مکمل پروٹوکول کے ساتھ عازم جدہ ہوگئے جہاں انہیں عمرے کی ادائیگی کرنا تھی۔ 2 دن بعد ایک اجتماع جدہ قونصلیٹ میں بھی منعقد ہوا جہاں ایک بار پھر مولانا نے بڑے جذباتی انداز میں پاکستانی اور کشمیری ہجوم پر مسئلہ کشمیر اجاگر کیا۔ 3 دن کے بعد وطنِ عزیز کے ذرائع ابلاغ چیخ چیخ کر ہلکان ہورہے تھے کہ کشمیر کمیٹی کے چیئرمین سعودی عرب میں حکام پر مسئلہ کشمیر اجاگر کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ قابل رشک پروٹوکول میں بھی سفری سہولیات اور سفارتخانے اور قونصلیٹ میں اپنے ہی ہموطنوں سے اردو اور پشتو میں خطاب اور پھر عمرے کی ادائیگی، یہ تھا ہمارے وطن میں قائم کشمیر کمیٹی کے چیئرمین کا کشمیریوں سے اظہار محبت کا انداز!
کشمیر کمیٹی سے بھی کیا کھلواڑ ہوتا رہا ہے۔ ہمارے سیاستدانوں کیلئے اس کا وجود ایک نفع بخش کاروبار بن گیا ہے۔ حکومت حزب اختلاف کی ہمدردیاں خریدنے یا سودے بازی کیلئے اس تنظیم کی ذمہ داری اسے سونپ دیتی ہے۔ چیئرمین کو بے انتہا آسائشیں مہیا کرتی ہے۔ اسے وزراء کے لیے مخصوص رہائش گاہ دیتی ہے۔ اسے ملک کے اندر اور باہر قابل رشک پروٹوکول سے سرفراز کیا جاتا ہے اور اس سے اخراجات کا کوئی حساب نہیں لیا جاتا۔ نوابزادہ نصر اللہ پیپلز پارٹی کے بہت بڑے نقاد تھے چنانچہ ان کی زبان بندی کیلئے محترمہ بینظیر بھٹو نے انہیں کشمیر کمیٹی کا چیئرمین بنادیا۔ مولانا فضل الرحمان اپنی محدود نشستوں کے ساتھ اقتدار کا پلڑا الٹ سکتے تھے چنانچہ آصف زرداری اور نواز شریف نے اس کمیٹی کا انتظام و انصرام ان کے سپرد کیے رکھا۔ مولانا اقتدار میں نہ ہوتے ہوئے بھی مقتدر حلقوں میں شامل رہے۔ عمرے کرتے رہے۔ اردو اور پشتو میں اپنے ہی ہموطنوں پر مسئلہ کشمیر اجاگر کرتے رہے۔ کبھی اقوام متحدہ یا اس کے کسی ذیلی ادارے میں شعلہ فشانی نہ کرسکے۔ صرف ایک مولانا ہی نہیں۔ اس گنگا میں ہاتھ دھونے والے اور بھی بہت سے تھے۔ میاں محمد نواز شریف نے کہ دریا دلی میں اپنی مثال آپ ہیں اپنے دور اقتدار میں 22 پارلیمانی ارکان کو مسئلہ کشمیر اجاگر کرنے کیلئے مغربی ممالک ارسال کیا۔ ابھی حالیہ برسوں میں قیصر شیخ اور لیفٹننٹ جنرل عبدالقیوم ملک کو انہوں نے لندن کی سیر کرائی تھی۔ تحریک آزادی نے شدت اختیار کرلی ہے۔ کشمیری شہداء کو پاکستانی پرچم میں لپیٹ کر ان کی تدفین کی جارہی ہے ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ کا نعرہ اب وہاں کے سنگ و خشت بھی لگارہے ہیں۔ اب موقع ہے کہ ان بیوائوں، یتیموں اور زندانیوں کی آواز دنیا کے گوشے میں پہنچائی جائے۔ کشمیر کمیٹی کو صحیح خطوط پر منظم کیا جائے اور اس کا انتظام قابل، بے غرض اور مخلص لوگوں کے سپرد کیا جائے۔ یہی یوم یکجہتی کشمیر کا تقاضہ ہے اور وہاں اس دن کا ایک اور مطالبہ بھی ہے وہ یہ کہ قومی احتساب بیورو اس کمیٹی کے یوم تاسیس سے لے کر آج تک اس پر صرف کی گئی رقوم کی پائی پائی کا حساب لے۔ ہے حوصلہ جسٹس (ر) جاوید اقبال میں؟؟
 

شیئر:

متعلقہ خبریں