پاکستان میں حالیہ دنوں میں بچوں کی خودکشیوں اور اموات کے دلخراش واقعات نے معاشرے کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ میٹرک کے نتائج کے بعد سے کم از کم تین بچوں نے ناکامی کے دباؤ کو برداشت نہ کرتے ہوئے اپنی جان لے لی۔
کشمیر کے علاقے درنگ چٹاری سے تعلق رکھنے والے کاشف نے میٹرک میں فیل ہونے کے بعد دریا میں چھلانگ لگا دی اور بچانے کی کوشش میں بھائی کی جان بھی چلی گئی۔ اسی طرح ضلع کوٹلی میں ایک لڑکی نے دریائے پونچھ میں چھلانگ لگائی، اور خوش قسمتی سے اسے بچا لیا گیا۔
وسطی پنجاب کے علاقے پنڈی بھٹیاں کے گاؤں اطلے مروان میں ایک طالب علم نے نہر میں چھلانگ لگا کر خودکشی کر لی۔ جبکہ سوات میں ایک بچہ مدرسے میں استاد کے تشدد کا شکار ہو کر موت کے منہ میں چلا گیا۔
مزید پڑھیں
-
نیند پوری نہ ہونے سے بچوں کی ذہنی صحت کیسے متاثر ہوتی ہے؟Node ID: 885275
خاندان کے مطابق بچے نے بارہا شکایت کی تھی کہ مدرسے میں اس کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا جا رہا، لیکن اس کی بات کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔ ان واقعات سے ایک بات واضح ہوتی ہے کہ پاکستانی معاشرے میں بچوں کی جذباتی ضروریات کو اکثر نظر انداز کیا جاتا ہے جو انہیں شدید نفسیاتی مسائل کا شکار کر دیتی ہے۔
بچوں کی خودکشیوں کا بڑھتا ہوا رجحان: ایک سماجی اور نفسیاتی بحران
پاکستان میں خودکشیوں کی شرح اگرچہ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق نسبتاً کم ہے (ہر ایک لاکھ افراد میں سے 2.9 افراد)، لیکن اس کے باوجود حالیہ واقعات تشویشناک ہیں۔ ڈبلیو ایچ او کی 2016 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں خودکشی کے 6,155 واقعات رپورٹ ہوئے، جن میں خواتین کی شرح مردوں سے کچھ زیادہ تھی۔ خاص طور پر بچوں اور نوجوانوں میں خودکشی کے رجحانات معاشی دباؤ، سماجی توقعات، اور تعلیمی ناکامی کے خوف سے جڑے ہیں۔
چترال اور تھرپارکر جیسے علاقوں میں خودکشی کے واقعات زیادہ رپورٹ ہوئے ہیں، جہاں معاشی بدحالی اور سماجی دباؤ لوگوں سے جینے کی امنگ چھین رہے ہیں۔
میٹرک کے امتحانات پاکستانی معاشرے میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں، اور ناکامی کو اکثر سماجی شرمندگی اور خاندانی دباؤ سے جوڑا جاتا ہے۔ کاشف اور دیگر بچوں کے واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ناکامی کے بعد وہ اپنی خودی کی قدر کھو بیٹھتے ہیں اور خودکشی کو واحد راستہ سمجھنے لگتے ہیں۔ اس کے علاوہ، سوات کے واقعے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ والدین اور خاندان بچوں کی جذباتی ضروریات کو سمجھنے میں ناکام رہتے ہیں، جو ان کے لیے تباہ کن نتائج کا باعث بنتا ہے۔
جدید نفسیاتی تجزیہ
برطانیہ کی معروف تھیراپسٹ مریسہ پئیر کی ریپڈ ٹرانسفارمیشنل تھراپی (آر ٹی ٹی) ایک جدید نفسیاتی نقطہ نظر ہے جو ذہنی صحت کے مسائل کی جڑوں کو سمجھنے اور انہیں تیزی سے حل کرنے پر زور دیتی ہے۔ آر ٹی ٹی کے مطابق ہر انسان کی کچھ بنیادی جذباتی ضروریات ہوتی ہیں جن میں محبت، تحفظ، قبولیت، اور خودی کی قدر شامل ہیں۔ جب یہ ضروریات پوری نہیں ہوتیں تو بچوں میں نفسیاتی مسائل جیسے ڈپریشن، اضطراب، اور خودکشی کے رجحانات پیدا ہوتے ہیں۔

مریسہ پئیر کے مطابق بچوں کی خودکشیوں کے پیچھے اکثر یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ ’اچھے نہیں‘ ہیں یا ان کی قدر نہیں کی جا رہی۔
آزاد کشمیر اور پنجاب کے حالیہ واقعات میں بچوں نے تعلیمی ناکامی کو اپنی ذات سے جوڑ لیا۔
مریسہ پئیر بتاتی ہیں کہ بچوں کو یہ باور کرانا ضروری ہے کہ ان کی قدر ان کے امتحانات کے نتائج یا سماجی معیارات سے نہیں، بلکہ ان کی انفرادی حیثیت سے ہے۔
آر ٹی ٹی تھراپی کے ذریعے بچوں کو ان کے منفی سوچ جیسے ’میں ناکام ہوں‘ یا ’میں کسی قابل نہیں‘ کو تبدیل کرنے میں مدد کی جاتی ہے۔ یہ تھراپی ہپنوتھراپی، علمی سلوک تھراپی اور نیورولنگوسٹک پروگرامنگ کے امتزاج سے کام کرتی ہے تاکہ بچوں کے لاشعوری ذہن میں موجود منفی خیالات کو مثبت سوچ سے بدلا جا سکے۔
مثال کے طور پر اگر کاشف کو یہ سمجھایا جاتا کہ ناکامی ایک عارضی مرحلہ ہے اور اس کی زندگی کی امتحانی نتائج سے کہیں زیادہ ہے تو شاید وہ اس المناک فیصلے سے باز رہتا۔ آر ٹی ٹی کا زور اس بات پر ہے کہ والدین اور معاشرے کو بچوں کی جذباتی ضروریات کو ترجیح دینی چاہیے، خاص طور پر مشکل حالات میں۔
والدین کی پرورش کا انداز
لاہور سے تعلق رکھنے والے ماہر نفسیات ڈاکٹر شاہزیب کے مطابق پاکستان میں والدین اکثر پرورش کے عمل کو ایک ’ٹرانزیکشن‘ سمجھتے ہیں۔ وہ بچوں سے غیر منطقی توقعات وابستہ کر لیتے ہیں، جیسے کہ ہر حال میں امتحانات میں کامیابی یا سماجی دباؤ کو پورا کرنا۔
ڈاکٹر شاہزیب کہتے ہیں کہ والدین اپنے بچوں کو ایک پروجیکٹ کی طرح دیکھتے ہیں، جسے جلد سے جلد مکمل کرنا ہوتا ہے۔ یہ رویہ بچوں پر نفسیاتی دباؤ ڈالتا ہے اور ان کی ذہنی صحت کو متاثر کرتا ہے۔
سوات کے واقعے میں بچے نے اپنے خاندان سے مدرسے میں ہونے والے تشدد کی شکایت کی، لیکن اس کی بات کو نظر انداز کیا گیا۔ ڈاکٹر شاہزیب کے مطابق یہ والدین کی طرف سے جذباتی غفلت کی ایک واضح مثال ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ والدین کو بچوں کی بات کو سنجیدگی سے لینا چاہیے اور ان کے جذبات کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
ان کے مطابق پاکستانی معاشرے میں بچوں کو اپنے جذبات کے اظہار کی اجازت نہیں دی جاتی، جس سے وہ تنہائی اور ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں۔ نتیجتاً وہ اپنے مسائل کو حل کرنے کے لیے انتہائی قدم اٹھاتے ہیں جیسے کہ خودکشی۔
ڈاکٹر شاہزیب مزید کہتے ہیں کہ والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کے ساتھ کھل کر بات چیت کریں اور انہیں یہ احساس دلائیں کہ وہ ہر حال میں پیار اور حمایت کے مستحق ہیں۔ تعلیمی ناکامی یا دیگر مسائل کو بچوں کی شخصیت سے جوڑنے کے بجائے، والدین کو انہیں ایک مثبت نقطہ نظر سے دیکھنا چاہیے۔
بچے توجہ مانگتے ہیں
ماہر نفسیات ڈاکٹر خالد سہیل جو کینیڈا میں اپنے کلینک ’کری ایٹیوو سائیکو تھراپی‘ چلاتے ہیں، اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ہر بچے میں ایک منفرد تخلیقی صلاحیت ہوتی ہے۔ ان کے مطابق جب بچوں کی اس صلاحیت کو نظر انداز کیا جاتا ہے یا ان پر غیرضروری دباؤ ڈالا جاتا ہے، تو وہ نفسیاتی مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں۔ کنوینشنل نفسیات کے مطابق، بچوں کی ذہنی صحت کے لیے ضروری ہے کہ انہیں ایک محفوظ ماحول فراہم کیا جائے جہاں وہ اپنے جذبات کا کھل کر اظہار کر سکیں۔
پاکستان میں بچوں کی ذہنی صحت کے مسائل کو حل کرنے کے لیے ماہرین نفسیات نے مختلف اقدامات کی تجویز دی ہے، جیسے کہ "سکھ" نامی موبائل ایپ، جو خودکشی کے رجحانات والے افراد کو فوری مشاورت فراہم کرتی ہے۔ اس کے علاوہ، بچوں کے لیے اسکولوں میں کاؤنسلنگ سیشنز کا اہتمام، والدین کے لیے تربیتی پروگرامز، اور معاشرتی سطح پر ذہنی صحت کے بارے میں شعور اجاگر کرنا ضروری ہے۔ کنوینشنل نقطہ نظر کے مطابق، بچوں کی ذہنی صحت کو بہتر بنانے کے لیے ایک جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے، جس میں والدین، اساتذہ، اور معاشرے کے دیگر افراد شامل ہوں۔
والدین کے لیے مشورے
بچوں کی خودکشیوں اور اموات کو روکنے کے لیے والدین دنیا بھر کے نفسیات دان کچھ اس طرح کے مشورے دیتے ہیں۔

جذباتی ضروریات کو ترجیح دیں: مریسہ پئیر کے مطابق والدین کو بچوں کو یہ احساس دلانا چاہیے کہ وہ ہر حال میں محبت اور قبولیت کے مستحق ہیں۔ ناکامی کو ان کی شخصیت سے نہ جوڑیں اور انہیں خودی کی قدر سکھائیں۔
کھل کر بات چیت
ڈاکٹر شاہزیب کے مشورے کے مطابق والدین کو بچوں کے ساتھ باقاعدگی سے بات چیت کرنی چاہیے۔ ان کی شکایات کو سنجیدگی سے لیں اور انہیں اپنے جذبات کے اظہار کی آزادی دیں۔
تعلیمی دباؤ کم کریں
والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں پر غیر منطقی توقعات نہ رکھیں۔ ناکامی کو ایک سیکھنے کے عمل کے طور پر پیش کریں، نہ کہ شرمندگی کا باعث۔
ماہر نفسیات کی مدد لیں
اگر بچہ ڈپریشن یا اضطراب کی علامات ظاہر کرے، تو فوری طور پر ماہر نفسیات سے رجوع کریں۔ ایپس جیسے کہ ’سکھ‘ یا دیگر کاؤنسلنگ خدمات اس سلسلے میں مددگار ہو سکتی ہیں۔
محفوظ ماحول فراہم کریں
ڈاکٹر خالد سہیل کے مطابق بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو فروغ دیں اور انہیں ایک محفوظ ماحول فراہم کریں جہاں وہ اپنی صلاحیتوں کو اجاگر کر سکیں۔
پاکستان میں بچوں کی خودکشیوں اور اموات کے حالیہ واقعات ایک سنگین سماجی اور نفسیاتی بحران کی نشاندہی کرتے ہیں۔ تعلیمی دباؤ، والدین کی غفلت، اور معاشرتی توقعات بچوں کو نفسیاتی مسائل کی طرف دھکیل رہی ہیں۔ مریسہ پئیر کی آر ٹی ٹی، ڈاکٹر شاہزیب کے مشاہدات، اور کنوینشنل نفسیات کے نقطہ نظر سے واضح ہوتا ہے کہ بچوں کی جذباتی ضروریات کو ترجیح دینا اور ان کے ساتھ کھلی بات چیت کرنا اس بحران سے نمٹنے کے لیے ناگزیر ہے۔ والدین کو اپنے بچوں کی ذہنی صحت کو سنجیدگی سے لینا ہوگا اور معاشرے کو مجموعی طور پر ذہنی صحت کے بارے میں شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم آج یہ اقدامات اٹھائیں گے، تو کل ہمارے بچوں کو ایک بہتر اور محفوظ مستقبل دے سکیں۔