کیا ڈالر کی قدر میں اضافے کے پیچھے بینکوں اور ایکسچینج کمپنیوں کا کوئی تنازع ہے؟
کیا ڈالر کی قدر میں اضافے کے پیچھے بینکوں اور ایکسچینج کمپنیوں کا کوئی تنازع ہے؟
جمعہ 25 جولائی 2025 16:34
زین علی -اردو نیوز، کراچی
ظفر پراچہ نے کہا کہ کچھ منافع بخش عناصر ڈالر کی قدر میں اضافہ کر کے منافع کمانا چاہتے ہیں۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان میں حالیہ دنوں ڈالر کی قدر میں ہونے والے اضافے کے پس منظر میں یہ سوال ابھر رہا ہے کہ کیاسٹیٹ بینک کی جانب سے ہوم ریمیٹینس لانے کے لیے یکساں مالی فوائد کی سکیم کے اعلان کے بعدبینکوں اور ایکسچینج کمپنیوں کے درمیان کوئی نئی ’جنگ‘ چھڑ چکی ہے؟ بظاہر تو ایسا کوئی باضابطہ تنازع سامنے نہیں آیا، تاہم ماہرین کے مطابق بینکوں کی جانب سے اپنی ایکسچینج کمپنیاں کھولنے کے اقدام نے روایتی ایکسچینج کمپنیوں میں بے چینی ضرور پیدا کر دی ہے۔
سٹیٹ بینک کی ہدایت کے بعد کئی بینکوں نے اپنی ایکسچینج کمپنیاں قائم کر لی ہیں، جس پر موجودہ ایکسچینج کمپنیوں نے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
ایکسچینج کمپنیز آف پاکستان کے سیکریٹری ظفر پراچہ نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں ایکسچینج کمپنیوں کے مقابلے میں بینکوں کو زیادہ سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں۔
ان کا کہنا کہ ’ڈالر کی قدر میں کچھ دنوں سے مسلسل اضافے کی وجہ سے صورتحال تبدیل ہوئی ہے۔ کچھ ایکسچینج کمپنیوں اور بینکوں کی ملی بھگت سے ڈالر کے ریٹ میں اضافہ ہوا ہے۔‘
ظفر پراچہ کا کہنا تھا کہ سٹیٹ بینک اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سخت اقدامات کی وجہ سے کچھ عرصے سے ڈالر کا ریٹ مستحکم رہا ہے، البتہ کچھ منافع خور ڈالر کی قدر میں اضافہ کر کے منافع کمانا چاہتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’اس معاملے میں متعلقہ حکام نے دلچسپی لیتے ہوئے اسے سنجیدگی سے لیا ہے اور ایسے عناصر کے خلاف گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے۔ جس سے ایک بار پھر ڈالر کی قیمت میں کمی اور روپے میں استحکام دیکھا جا رہا ہے۔‘
ظفر پراچہ کے مطابق سٹیٹ بینککو چاہیے کہ ایکسچینج کمپنیز کو بھی بینکوں کے مساوی مراعات دے۔ مشکل سے مشکل وقت میں ایکسچینج کمپنیوں نے پاکستانی معیشت کو مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
دوسری جانب کراچی میں ایک نجی بینک کے ایکسچینج سیکشن کے انچارج نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ یہ کہنا درست نہیں ہو گا کہ مرکزی بینک کی جانب سے ایکسچینج کمپنیوں اور بینکوں کو الگ الگ سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ایکسچینج کے کاروبار کے حوالے سے صاف اور سادہ قوانین موجود ہیں۔ بینکوں سمیت کسی بھی ایکسچینج کمپنی کو اس قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ہی کام کرنا ہوتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہاں یہ کاروبار کا حصہ ہے کہ کوئی اپنے منافع سے اگر کسی کو سہولت دیتے ہوئے زیادہ بزنس حاصل کرنے کی کوشش کرے تو یہ اس کی پالیسی ہو سکتی ہے، لیکن اس معاملے میں بھی حد بندی موجود ہے جس کے بینک اور ایکسچینج کمپنیاں دونوں ہی پابند ہیں۔
ملک بوستان نے ایف بی آر کی جانب سے دو لاکھ روپے سے زائد کیش خریداری پر ٹیکس عائد کرنے کے فیصلے کو بھی ڈالر کی ذخیرہ اندوزی کی وجہ قرار دیا۔ (فائل فوٹو: سکرین گریب)
یاد رہے کہ سٹیٹ بینک آف پاکستان نے یکم جولائی 2025 سے ہوم ریمیٹنسز سے متعلق تین اہم ترغیبی سکیموں میں تبدیلیوں اور خاتمے کا اعلان کیا ہے۔
ہوم ریمیٹنسز کی مارکیٹنگ کے لیے ترغیبی سکیم جس کا اطلاق بینکوں، مائیکروفنانس اداروں اور ایکسچینج کمپنیوں پر ہوتا تھا، یکم جولائی سے ختم کر دی گئی ہے۔ دوسری ایکسچینج کمپنیز انسنٹیو سکیم جو خاص طور پر ایکسچینج کمپنیوں کے لیے متعارف کرائی گئی تھی، اسے بھی اسی تاریخ سے بند کر دیا گیا ہے۔ تیسری سکیم جو ہوم ریمیٹنسز کے خلاف ٹیلی گرافک ٹرانسفر (ٹی ٹی) چارجز کی ادائیگی سے متعلق ہے، اس میں چند اہم ترامیم کی گئی ہیں، جن کے مطابق اب اہل ترسیل کی کم از کم رقم 200 امریکی ڈالر مقرر کی گئی ہے، جبکہ ری بیٹ کی شرح فی ٹرانزیکشن 20 سعودی ریال کر دی گئی ہے۔ اور یہ سکیم بینکوں اور ایکسچینج کمپنیوں کے لیے یکساں ہو گی۔
24 جولائی 2025 کو جاری کردہ سٹیٹ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق 18 جولائی 2025 تک پاکستان کے زرمبادلہ کے مجموعی ذخائر 19.92 ارب ڈالر ریکارڈ کیے گئے۔ ان میں سے 14.45 ارب ڈالر سٹیٹ بینک آف پاکستان کے پاس ہیں، جبکہ کمرشل بینکوں کے پاس موجود ذخائر 5.46 ارب ڈالر ہیں۔
رپورٹ کے مطابق گذشتہ ہفتے کے دوران سٹیٹ بینک کے ذخائر میں 69 ملین ڈالر کی کمی واقع ہوئی، جو بیرونی قرضوں کی ادائیگی کی مد میں ہوئی۔
دوسری جانب چیئرمین ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان ملک محمد بوستان نے دیگر اراکین کے ہمراہ ایک اعلٰی عسکری شخصیت سے ملاقات کی ہے۔ ملاقات میں ڈالر کی قیمت میں حالیہ اضافے پر تبادلہ خیال ہوا ہے۔
سٹیٹ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق 18 جولائی 2025 تک پاکستان کے زرمبادلہ کے مجموعی ذخائر 19.92 ارب ڈالر ریکارڈ کیے گئے۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)
ملک بوستان نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’افغانستان اور ایران میں ڈالر سمگل کیے جا رہے ہیں، جبکہ بڑے شہروں میں بلیک مارکیٹ مافیا قانونی ایکسچینج کمپنیوں سے گاہکوں کو ہٹا کر خفیہ دفاتر میں زیادہ ریٹ پر کرنسی خرید رہا ہے، جس کی وجہ سے ڈالر کی قانونی سپلائی متاثر ہو رہی ہے۔‘
انہوں نے ایف بی آر کی جانب سے دو لاکھ روپے سے زائد کیش خریداری پر ٹیکس عائد کرنے کے فیصلے کو بھی ڈالر کی ذخیرہ اندوزی کی وجہ قرار دیا اور مطالبہ کیا کہ دو ہزار ڈالر تک کیش خریداری پر ٹیکس سے استثنیٰ دیا جائے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈالر کی قیمت میں اضافے کی وجوہات بین الاقوامی سیاسی حالات، ملک کے زرمبادلہ ذخائر پر دباؤ، اور غیرقانونی ہولڈنگ و سمگلنگ ہیں۔ اس پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔