پاکستان اور افغانستان کے درمیان ایک نئے ترجیحی تجارتی معاہدے پر دستخط ہو گئے ہیں جس کے تحت دونوں ممالک نے پھلوں اور سبزیوں پر عائد درآمدی ٹیرف 20 سے 33 فیصد تک کم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
پھلوں اور سبزیوں کی تجارت کرنے والے تاجروں کا کہنا ہے کہ معاہدے سے قیمتوں میں استحکام آئے گا اور عام آدمی کو فائدہ پہنچے گا۔
تاہم بلوچستان کے زمینداروں اور بعض تاجروں نے اس معاہدے پر سخت تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کے نتیجے میں مقامی طور پر پیدا ہونے والی فصلوں کی قیمتیں گرنے سے زمینداروں کو نقصان پہنچے گا۔
اسلام آباد میں جمعرات کو ہونے والے اس معاہدے پر پاکستان کے سیکریٹری تجارت جواد پال اور افغانستان کے نائب وزیر تجارت احمد اللہ زاہد نے دستخط کیے۔
یہ معاہدہ یکم اگست 2025 سے نافذ العمل ہوگا اور ابتدائی طور پر ایک سال کے لیے مؤثر رہے گا اس میں مزید توسیع ہوسکتی ہے۔
جنگ اور ڈان اخبار کی رپورٹس کے مطابق معاہدے کے تحت افغانستان سے پاکستان سیب، انگور، انار اور ٹماٹر کی درآمد پر ٹیرف 60 فیصد سے کم کر کے 27 فیصد کر دیا گیا ہے۔
پاکستان سے افغانستان کو آم، کیلا، کینو اور آلو برآمد کیے جائیں گے جن پر افغانستان نے پہلے 47 سے 57 فیصد تک ٹیرف عائد کر رکھا تھا، اب یہ بھی کم کر کے 27 فیصد کر دیا گیا ہے۔
فریقین نے مستقبل میں دیگر اشیا کو بھی معاہدے میں شامل کرنے پر اتفاق کیا ہے۔
پھلوں اور سبزیوں کے کاروبار سے وابستہ افراد اس معاہدے کو ایک مثبت پیش رفت قرار دے رہے ہیں۔
آل بلوچستان نیشنل فروٹ اینڈ ویجیٹیبلز کمیشن ایجنٹ ایسوسی ایشن کے سیکریٹری جنرل شیر علی بنگلزئی نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’معاہدے سے دونوں ممالک کے درمیان تجارت بڑھے گی اور پھلوں اور سبزیوں کی قیمتوں میں بھی استحکام آئے گا۔‘
’گذشتہ سال ٹیکسز اتنے زیادہ تھے کہ انگور اور انار جیسے پھل عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہو گئے تھے۔ انار 500 روپے اور انگور 400 روپے فی کلو تک جا پہنچے تھے کیونکہ صرف ایک کلو انار پر تقریباً 200 روپے ٹیکس دینا پڑتا تھا۔ اب یہ ٹیکس کم ہو کر 50 سے 55 روپے فی کلو رہ جائے گا جس سے قیمتیں بھی مناسب ہوں گی۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’گذشتہ برسوں کے دوران ٹیکسوں کی زیادتی کے باعث پھلوں اور سبزیوں کی تجارت تقریباً ختم ہو چکی تھی لیکن اب دو طرفہ تجارت بڑھنے سے روزگار میں بھی اضافہ ہوگا۔
دوسری جانب بلوچستان کے زمینداروں کی اکثریت اور کاروباری طبقے کے ایک حصے نے اس معاہدے پر سخت تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
ایوان صنعت و تجارت کوئٹہ بلوچستان کے سینیئر نائب صدر حاجی اختر کاکڑ نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’افغانستان سے سیب اور ٹماٹر کی درآمد بلوچستان کے زمینداروں کے لیے ناقابل تلافی نقصان کا سبب بنے گی۔‘
ان کا مزید کہنا ہے کہ ’بلوچستان میں سالانہ 10 لاکھ ٹن تک سیب اور لاکھوں ٹن ٹماٹر پیدا ہوتا ہے جو ملکی ضروریات پورا کرنے کے لیے کافی ہیں ۔‘
حاجی اختر کاکڑ کہتے ہیں کہ ’ہم کسی ملک سے تجارتی معاہدے کے خلاف نہیں لیکن ایسی اشیا کی درآمد کی اجازت نہیں ہونی چاہیے جن میں ہم خود کفیل ہیں۔‘
اُن کے مطابق ’بلوچستان میں پراسیسنگ پلانٹس نہ ہونے کی وجہ سے زمینداروں کو پہلے ہی اپنی فصلیں کم قیمت پر فروخت کرنا پڑتی ہیں۔‘
’افغانستان میں سیب کی پیداوار محدود ہے لیکن خدشہ ہے کہ ایران جیسے ممالک سے درآمد شدہ سیب افغانستان کے راستے پاکستان لایا جائے گا جو مقامی کسانوں کے لیے معاشی تباہی کا باعث بنے گا۔‘
بلوچستان کے ضلع قلعہ سیف اللہ سے تعلق رکھنے والے زمیندار حاجی صادق جوگیزئی نے بھی معاہدے پر گہری تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’یہاں طلب و رسد کا کوئی سسٹم ہے نہ ہی چیک اینڈ بیلنس۔‘
’حکومتی سطح پر کوئی حساب کتاب نہیں رکھا جاتا کہ کس سیزن میں کس چیز کی کتنی طلب ہے، اس لیے جب افغانستان سے بےلگام درآمد شروع ہو جاتی ہے تو مقامی کسان اپنی فصل کی لاگت بھی پوری نہیں کر سکتے۔‘
صادق جوگیزئی کے مطابق ’جب ایک دن رسد کم ہو اور طلب زیادہ ہو تو 500 کی چیز بھی پانچ ہزار روپے میں فروخت ہوتی ہے اور اگلے دن جب رسد بڑھ جائے اور طلب نہ ہو تو وہی چیز 200 میں بھی فروخت نہیں ہوتی۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’بلوچستان اور افغانستان کے کئی علاقوں میں فصلیں ایک ہی وقت تیار ہوتی ہیں۔ جب افغانستان سے سستا مال آتا ہے تو یہاں کی فصلوں کی قیمتیں گر جاتی ہیں اور مقامی زمیندار تباہ ہو جاتے ہیں۔‘
حاجی صادق جوگیزئی کا مزید کہنا تھا کہ ’اس فیصلے سے پنجاب کے کسانوں کو تو فائدہ ہوگا کیونکہ افغانستان میں آم، کینو اور کیلے کی مقامی پیداوار نہ ہونے کے برابر ہے۔‘
’پنجاب کے زمینداروں کو برآمدات سے بہتر قیمت ملے گی لیکن بلوچستان کے زمینداروں کو ٹماٹر، پیاز، انگور اور سیب کی درآمد سے نقصان اٹھانا پڑے گا۔‘
تاہم شیر علی کا کہنا ہے کہ ’افغانستان اور بلوچستان کے کچھ پھلوں اور سبزیوں کے سیزن مختلف ہیں اس لیے ہر وقت مقامی فصل متاثر نہیں ہوگی۔ انار تو پاکستان میں ہوتا ہی نہیں جبکہ بلوچستان کا انگور بھی ملکی ضروریات کو پورا نہیں کرتا۔‘
وہ مزید کہتے ہیں کہ ’یہ یکطرفہ نہیں، افغانستان سے درآمدات ہوں گی تو یہاں سے بھی پھل اور سبزیاں جائیں گی جس کے نتیجے میں مقامی زمینداروں کو بھی اس معاہدے سے فائدہ ہوگا۔‘
شیر علی کا کہنا ہے کہ ’بلوچستان میں ٹماٹر بعض اوقات 20 سے 30 روپے کلو میں فروخت ہوتا ہے اگر یہی ٹماٹر افغانستان کو برآمد کیا جائے تو کسان بہتر قیمت حاصل کر سکتے ہیں۔‘
حاجی صادق جوگیزئی نے مطالبہ کیا کہ ’حکومت معاہدے کے ساتھ چیک اینڈ بیلنس کا نظام بھی قائم کرے اور زرعی سیزن کے دوران مقامی زمینداروں کے مفادات کا تحفظ یقینی بنائے۔‘
کوئٹہ چیمبر آف کامرس کے نائب صدر حاجی اختر کا کہنا ہے کہ ’حکومت کو چیمبر آف کامرس، زمینداروں اور دیگر سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بعد ہی تجارتی، پھلوں اور سبزیوں کی درآمد کے فیصلے کرنے چاہییں تاکہ مقامی معیشت متاثر نہ ہو۔