Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دوسرا نکاح ، بیوہ کا اصولی حق

    بیوہ کیلئے جس طرح کی قانون سازی اسلام نے کی ہے وہ صرف وحی کو ہی سزاوارہے،اسکی ایک ایک شق پکار کر بتاتی ہے کہ یہ انسانی عقل سے کہیں باہر ہیں
ڈاکٹر ساجد خاکوانی۔اسلام آباد
 عالم انسانیت میں ’’نکاح‘‘ ایک ایسابابرکت ادارہ ہے جس کی تاسیس انبیاء علیہم السلام کے دست ہائے مبارک سے ہوئی۔’’نکاح‘‘کاعمل انسانیت اور حیوانیت میں ایک حدِفاصل کھینچنے کا فریضہ بھی سرانجام دیتاہے۔قبیلہ بنی نوع انسان میں ’’نکاح‘‘سے ہی حلال اور غیرحلال کی حدود و مفاصلات ومتعارفات بھی مضبوطی سے منسلک ہیں۔نکاح کا تعلق ٹوٹنے کی متعدد وجوہ ہو سکتی ہیں لیکن جب زوج یعنی شوہر کو دست قدرت موت کی نیند سلادے تو زوجہ کو اصطلاح میں ’’بیوگی‘‘کامقام میسر آجاتاہے۔قرآن مجید نے کہا کہ ’’خلق الانسان ضعیفا‘‘  یعنی انسان کو کمزورپیداکیاگیاہے۔بلاتخصیص مردوزن اس فطری کمزوری میں سب انسان مشترک ہیں اوربحیثیت انسان زن و شودونوں اس میں شامل ہیں۔
    گویااﷲتعالیٰ کی نظر میں دونوں کمزور ہیںلیکن’’ ایک ایک ہوتاہے اور دو گیارہ ہوتے ہیں‘‘ کے مصداق جب ایک جیون ساتھی داغِ مفارقت دے جائے تو دوسرا معاشرے کے رحم و کرم پررہ جاتاہے۔جانے والے کی کمی تو سارازمانہ مل کر بھی پوری نہیں کرسکتالیکن کم از کم حقوق و فرائض کی ادائیگی میں تو تعاون کرنا انسانیت کے اعلیٰ ترین تقاضوں میں سے ایک ہے۔
    بیوہ اکیلی ہوتوبھی،یااس کی معیت میں چند ذی روح مزید بھی ہوں تب بھی یمین و یساربسنے والوں پراور دیگر نفوس معاشرے پر جوان متاثرین سے کسی درجہ پر بھی قربت ومودت کا دعویٰ یاتعلق رکھتے ہوںان کی ذمہ داریاں دوچندہوجاتی ہیں۔یہ ذمہ داریاں اس حقیقت کا ادراک دلاتی ہیں کہ عورت لذتِ نفسانی کے لیے پیدانہیں کی گئی کہ اس کے استحصال کے بعد اسے استعمال شدہ ورقۂ فاضل کی مانند ردی کو ٹوکری نذر کردیاجائے۔
    ایک عورت کو عقد میں لانے کے بعد اس کے شوہر سمیت پورے خاندان پر اس کے حقوق و فرائض کا تعین کردیاجاتاہے اور اگر اس کا شوہر اس دارفانی سے کوچ کر جائے تو بھی وہ عورت اس خاندان کی اہم ترین ذمہ داریوں میں شمار کی جاتی ہے اوراگر اس عورت کے بچے بھی ہوں توبچے صراحتاًاسی خاندان کی ہی ذمہ داری ہیں۔
    بیوہ کا سب سے اولین حق اس کا حقِ وراثت ہے۔قرآن مجید میں اﷲتعالیٰ نے حکم دیاہے :
    ’’اورتمہاری بیویوں نے جوکچھ چھوڑاہواُس کا آدھاحصہ تمہیں ملے گا اگروہ بے اولاد ہوں،ورنہ اولاد ہونے کی صورت میں ترکے کاایک چوتھائی حصہ تمہارا ہے جبکہ وصیت جوانہوں نے کی ہو وہ پوری کردیجائے اور قرض جوانہوں نے چھوڑاہو وہ اداکردیاجائے ، اور وہ تمہارے ترکے میں سے چوتھائی کی حق دارہوں گی اگرتم بے اولاد ہو ورنہ صاحب اولاد ہونے کی صورت میں ان کاحصہ آٹھواں ہوگا،بعد اس کے کہ جووصیت تم نے کی ہووہ پوری کردی جائے اورجوقرض تم نے چھوڑاہو اداکردیاجائے‘‘(النساء12)۔
    قبل ازوبعداز بعثت نبوی جاہلانہ معاشروں میں مرنے والا اپنی بیوہ کے لیے سیکولرنگاہوں میں حوسِ نفس کے سوا کچھ چھوڑ کر نہیں جاتا۔آج کی نام نہاد مہذب دنیائیں بھی بیوہ کوبیمہ کے ترازومیں ہی تولتی ہیں۔اگرزوجہ کوحقِ مہر ادانہیں کیاگیااور شوہر کاانتقال ہو گیاتو شریعت اسلامیہ میں اس بات کو لازم قراردیاگیاہے کہ ترکہ میں سے پہلے حق مہرکی ادائیگی کی جائیگی جو قرض کی صورت اختیارکر چکے گا اور بقیہ ترکہ کوورثامیں تقسیم کیاجائیگا۔
    شوہرکی وفات کے بعد بیوہ پابندہے کہ شوہر کے گھرمیں ہی عدت گزاریگی اور باہر نکلنے سے اور بناؤ سنگھار،خوشبواور سرمہ وغیرہ سے پرہیز کرے گی۔اگر بیوہ عورت کوملازمت یاکسی اور معاشی سلسلے میں نکلناپڑے تو جائزہے اس لیے کہ دوران عدت بیوہ کانان نفقہ پسماندگان کی ذمہ داری نہیں تاہم اس صورت میں بھی سادگی کادامن ہاتھ سے نکلنا نہیں چاہیے۔دوران عدت سفرکرنے کی بھی ممانعت ہے،سوائے مجبوری کے۔
    شریعت اسلامیہ نے بیوہ کے لیے دوسرا ذاتی حق ’’عدت‘‘کے نام سے عائد کیاہے۔شوہراوربیوی کے درمیان کسی بھی صورت کی جدائی کے نتیجے میں عورت کے لیے عدت لازمی قراردی گئی ہے۔عدت وہ مدت ہوتی ہے جس میں عورت کو اگلے نکاح کی اجازت نہیں ہوتی،عدت ختم ہونے پر شریعت نے اجازت دی ہے کہ عورت اپنا عقدِ نوکرسکتی ہے۔بیوہ کی عدت 4ماہ 10 دن ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
    ’’تم میں سے جو لوگ فوت ہوجائیں،ان کے پیچھے انکی بیویاں زندہ ہوں ،تووہ اپنے آپ کو4ماہ اور10 دن کیلئے روکے رکھیں ، پھرجب انکی عدت پوری ہوجائے توانہیں اختیار ہے اپنی ذات کے معاملے میں معروف طریقے سے جوچاہیں کریں۔‘‘(البقرہ234 )۔
    اﷲتعالیٰ نے بیوہ کی عدت دیگر خواتین سے نسبتاًزیادہ رکھی ہے جس میں سوگ کاعنصرغالب نظرآتاہے کیونکہ اس دوران ان کے زیب و زینت کی بھی ممانعت کردی گئی ہے۔عدت کا شمار شوہر کی وفات والے دن سے ہوگااگرچہ اطلاع تاخیر سے ملی ہو۔شرم و حیاجیسی اقدارکے تحفظ کرنے والے باکردارمعاشرے میں یہ پابندیاں باعث برکت ثابت ہوتی ہیں جن سے انسانیت کی تکریم کا پہلو واضح طورپراجاگر ہوتاہے۔خالق نسوانیت نے عورت کے جذبات کااس حدتک خیال رکھاہے کہ دوران عدت اسے نکاح کا صریح پیغام دینے کی بھی ممانعت کر دی ہے تاکہ بیوہ کی دل شکنی نہ ہو:
     ’’(زمانہ عدت میں)خواہ تم ان بیوہ عورتوں کے ساتھ منگنی کاارادہ اشارے کنائے میں ظاہر کردو،خواہ دل میں چھپائے رکھو دونوں صورتوں میں کوئی مضائقہ نہیں،اﷲتعالیٰ جانتاہے کہ ان کاخیال تو تمہارے دلوں میں آئیگاہی ،مگردیکھو خفیہ عہدوپیمان نہ کرنا،اگرکوئی بات ہے تو معروف طریقے سے کرواورعقدنکاح باندھنے کا فیصلہ اس وقت تک نہ کروجب تک کہ عدت پوری نہ ہوجائے ،خوب سمجھ لوکہ اﷲتعالیٰ دلوں کاحال تک جانتاہیــ لہذااس سے ڈرواوریہ بھی جان لو کہ اﷲتعالیٰ بردبارہے اوردرگزرفرماتاہے۔‘‘(البقرہ 235)۔
    البتہ جن خواتین کے پیٹ میں انسانیت کی امانت ہو، ان کی فراغت کے ساتھ ہی عدت ختم ہوجائیگی اگر چہ یہ فراغت مختصر ترین مدت میں ہوجائے یا طویل ترین مدت تک جاکر اختتام پزیر ہو:
    ’’اورحاملہ عورتوں کی عدت یہ ہے کہ ان کاوضع حمل ہوجائے ،جوشخص اﷲتعالیٰ سے ڈرے، اسکے معاملے میں وہ سہولت پیداکردیتا ہے‘‘(الطلاق4)۔
    بیوہ کا حق ہے کہ اسے اگلا نکاح کرنے دیاجائے۔اﷲتعالیٰ نے سورہ نورمیں حکم دیاہے کہ اپنے بے نکاح مردوں اور عورتوں کا نکاح کردو۔بیوہ کے لیے اپنے ولی کی رضامندی ضروری توہے لیکن شرط نہیں ۔قرآن کریم میں اﷲتعالی نے حکم دیاہے کہ:
    ’’اورجب تم اپنی عورتوں کو طلاق دے چکواور وہ اپنی عدت پوری کرچکیں توپھراس میں مانع نہ ہو کہ اپنے زیرتجویز شوہروں سے نکاح کرلیں جبکہ وہ معروف طریقے سے باہم منالحت پرراضی ہوں،تمہیں نصیحت کی جاتی ہے کہ ایسی حرکت ہرگزنہ کرنا،اگرتم اﷲتعالیٰ اور روزآخرت پر ایمان والے ہو،تمہارے لیے شائستہ اور پاکیزہ طریقہ یہی ہے کہ اس سے بازرہو،اﷲتعالیٰ جانتاہے تم نہیں جانتے۔‘‘ (البقر ہ232 )۔
    اس آیت میں اگرچہ مطلقات کے لیے کہاگیالیکن بیوگان کے لیے بھی یہی حکم ہے۔
    ایک حدیث میں رسول اللہ نے فرمایا:
    ’’ 3 کاموں میں جلدی کرو،جب نمازکاوقت ہوجائے تو اداکرنے میں جلدی کرو،جنازہ تیارہوجائے تودفن کرنے میں جلدی کرواورجب مناسب رشتہ مل جائے تو عورت کانکاح کرنے میں جلدی کرو۔‘‘(سنن ترمذی)۔
    بخاری شریف اور مسلم شریف کی ایک روایت کے مطابق آپ نے فرمایا :
    ’’ کنواری کانکاح نہ کروجب تک کہ اس کی رضامندی نہ لے لواوربیوہ کانکاح نہ کروجب تک کہ اس سے اجازت (حکم)نہ لے لو۔‘‘
    اگرکوئی بیوہ کسی امرِشرعی کے باعث اپنے عقد نکاح سے احتراز کرتی ہے توایسا کرناجائز اور پسندیدہ ہے۔ایک حدیث مبارکہ میں بتایاگیا:
    ’’میں()اور سوکھے گالوں والی وہ عورت جوحسن و جمال اورجاہ وعزت کے بعد بیوہ ہوجائے اور اپنے یتیم بچوں کی خدمت میں لگی رہے اِن دوانگلیوں کی طرح اکٹھے ہوں گے۔‘‘
    اﷲتعالیٰ کے ہاں اس کی مخلوق کی خدمت کسی بھی اور عمل سے کہیں بڑھ کر ہے۔مخلوق میں جوجتناقریب اور جس قدر کمزورہو،اس کا اتنازیادہ حق ہے اوراس کے حق اداکرنے پر اجروثواب بھی اتنازیادہ ہوتاہے۔آپ نے فرمایا:
     ’’بیوہ اور مسکین کی خبرگیری کرنے والا اﷲتعالیٰ کے راستے میں جہاد کرنیوالے کی طرح ہے۔‘‘
    ایک اورروایت کے الفاظ ہیں :
     ’’بیوہ اور مسکین کی خبرگیری کرنیوالاایسے تہجد گزارکی طرح ہے جو سست نہیں ہوتا اور ایسے روزے دارکی طرح ہے جو ناغہ نہیں کرتا۔‘‘
    اس سے بڑی اور کیابات ہو گی کی محسن نسوانیت کے عقد میں آنے والی ایک کے علاوہ سب بیوہ خواتین تھیں۔ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اﷲتعالیٰ عنہاتو2شوہروں سے بیوہ تھیں۔آپ کی تعلیمات میں عورتوں کا عام طورپر اور مظلوم عورتوں کاخاص طورپر بہت اعلیٰ مقام ہے۔بیوہ عورت کی خبرگیری کرنے والے کیلئے کتنے کتنے فضائل بیان کیے گئے ہیں۔
    حضرت ابوبکر صدیق ؓ کادورحکومت ہے اور ایک نابینابیوہ خاتون کے گھرحضرت عمر بن خطاب جاتے تھے تاکہ اس کے خانگی ضروری امورنمٹادیئے جائیں لیکن وہ حیران ہوتے تھے کہ ان کے آنے سے پہلے ہی اس بزرگ نابینابیوہ خاتون کے گھر کے کام کاج کوئی کر کے چلاجاتاتھا۔
    ایک دن علی الصباح منہ اندھیرے حضرت عمر اس کھوج میں لگے کہ کون یہ اعلیٰ درجے والی فضیلت کاثواب حاصل کرنے کی سعادت حاصل کر تاہے تو وہ حیران رہ گئے کہ خلیفۃ الرسول حضرت ابوبکر صدیق تشریف لائے اور گھر کاکام کاج،صفائی، جانورو ں کی دیکھ بھال اور دوسرے ضروری امور سرانجام دے کر نماز کے لیے مسجد کو سدھارگئے۔
    دنیاکاقدیم ترین مذہب ہونے کادعویٰ ہندومت کاہے۔اس مذہب نے بیوہ کی زندگی کا جواز ہی ختم کردیاہے اور ہندومت کی کتب میں لکھاہے کہ شوہر کے مرنے پر اسکی بیوہ سہاگ رات کی طرح تیارہوکر اورسونے چاندی کے زیورات سے آراستہ ہوکر گویا باردیگر دلہن بن کر آئے اور اس جیتی جاگتی عورت کو شوہر کی مردہ لاش کے ساتھ باندھ کر زندہ نذرآتش کر دیاجائے۔کتناظالمانہ اور غیرانسانی سلوک ہے جو ایک عورت کیساتھ روارکھے جانے کاحکم دیارہاہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ بیوہ کو منحوس خیال کیاجاتاہے،اسے سبزقدم قراردیاجاتا ہے ، اسکے سسرال والے اسکے شوہر کے مرنے کا سبب اسی کوقراردیتے ہیں اور اگروہ کسی وجہ سے شوہر کی چتاکے ساتھ ستی ہونے سے بچ بھی جائے توساری عمر لعن ،طعن،علیحدگی،محرومی اوراستحصال اس کا مقدر بنے رہتے ہیںاورعقد ثانی کاتوسوال ہی پیدانہیں ہوتا۔
    یہودیت کی تعلیمات کے مطابق بیوہ پابندہے کہ اپنے دیورسے شادی کرے اور اگردیور شادی سے انکارکردے تو عورت کو حکم دیاگیاہے کہ وہ خاندانی جرگو ں میں جاکر اپنے دیورپر دباؤ ڈلوائے تاکہ وہ اس بیوہ سے شادی کرے۔مذہب یہودیت میں بیوہ کو حق وراثت سے بھی محروم رکھاگیاہے۔ مذہب عیسائیت میں تو جنت سے نکالے جانے کی ذمہ عورت،اماں حوا،کوقراردیاگیاہے۔
    اس سے بڑھ کر یہ کہ بیوگی تو پھر بھی نکاح کے بعد وقوع پزیر ہوتی ہے جبکہ مذہب عیسائیت میں تجرد کی زندگی کو پسند کیاجاتاہے اور خاص طورپر جو خواتین اپنے آپ کو یسوع مسیح کے سپرد کر دیں ان کے لیے نکاح کرنامطلقاًناجائز ہوتااور وہ ’’کنواری ماں‘‘کی حیثیت سے فوت ہوجاتی ہیں۔
    بیوہ عورتوں کیلئے جس طرح کی قانون سازی اسلام نے کی ہے وہ صرف وحی کو ہی سزاوارہے۔اس قانون کی ایک ایک شق پکار پکارکر بتاتی ہے کہ یہ قوانین کسی طرح کی انسانی عقل سے کہیں باہر ہیں۔اس قانون پر عمل کرنیوالے معاشرے ہر طرح کے نسوانی استحصا ل سے محفوظ رہتے ہیںکیونکہ یہ خالق کائنات کے بھیجے ہوئے اصول و ضوابط ہیں۔اسکے مقابلے میں ماضیٔ بعید سے تاحال نسوانی مسائل کے جتنے حل بھی پیش کیے گئے تاریخی تجربے نے انہیں منہ پر دے ماراہے۔
    آج کے سیکولرازم نے تو عورت پر ظلم و ستم اور زوروزبردستی کی ساری حدیں پھلانگ ماری ہیں۔مورخ جب کبھی بھی قلم اٹھائے گاتونسوانیت پر ننگِ انسانیت رویوں کی فرد جرم سیکولرازم پر ثبت کردے گا۔نکاح جیسے ادارے کو ثبوتاژکر کے نسل انسانی کو مشکوک کرنا اور جنگل کے جانوروں سے بڑھ کر نسائیت کے دامنِ عصمت کوتارتارکرکے انسانیت کی کمر میں چھراگھونپنے کامکروہ دھندے کاسہرا اسی سیکولرازم کے سر پر ہی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ بیوہ کے لیے سیکولرازم کے ہاں کوئی نرم گوشہ نہیں سوائے تسکینِ ہوس نفس کے۔بہترتھاکہ   یومنون باالغیب کی بنیادپر انسان اپنے رب کی طرف پلٹ آئے لیکن چاہتے ہوئے یانہ چاہتے ہوئے بھی بالآخرانسان کو اپنے حقیقی الٰہ کی طرف پلٹنا ہی ہے۔اب وہ وقت آن پہنچاہے کہ انسان اپنے مالک حقیقی کو پہچان لے اور باقی تمام شریکوں کو خیرآباد کہہ دے۔
مزید پڑھیں:-  - - - -اللہ تعالی کی کمالِ خلاقی ، فنگر پرنٹ

شیئر: