Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا پاکستانی واقعی ٹیکس نہیں دیتے؟

 یہ گلہ کہ ہمارے عوام ٹیکس ادا نہیں کرتے کچھ زیب نہیں دیتا، یہ قوم اپنا پیٹ کم بھرتی ہے حکمرانوں کا زیادہ
ڈاکٹر منصور نورانی

پاکستانی قوم کے بارے میں ہمارے حکمرانوں کی جانب سے اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ ٹیکس ادا نہیںکرتے۔ٹیکس دہندگان سے متعلق یہ بے بنیاد اور غلط پروپیگنڈہ بھی کیا جاتا ہے کہ ملک کی آبادی کا صرف ایک فیصد لوگ ٹیکس ادا کرتے ہیں۔خود ہمارے موجودہ وزیراعظم عمران خان بھی اپنے غیر ملکی دوروں میں ایک سے زائد مرتبہ یہ بات دہراچکے ہیں کہ پاکستانی زکوٰۃ اور خیرات دینے میں تو کوئی کسرنہیں چھوڑتے لیکن حکومت کو ٹیکس دینے سے کتراتے ہیں۔یہ بات گرچہ اُنہوں نے اپنی اُسی سوچ کے تناظر میں کی تھی جو وہ اپنی عرصہ دراز سے اپنائے ہوئے ہیں یعنی اُ ن سے پہلے برسراقتدار آنے والے سارے حکمراں چونکہ کرپٹ، چور اورڈاکو تھے لہذا عوام اُن پر اعتبار نہیں کیاکرتے تھے۔ہمارے لوگوں کو یہ خدشہ لاحق رہتا تھا کہ اُن کا دیا ہوا پیسہ درست اور صحیح جگہ پر خرچ ہوگا بھی یا نہیں۔خان صاحب ساتھ ہی ساتھ ٹیکس دہندگان کے اعدادوشمار بتاتے ہوئے بھی کچھ غلط بیانی سے کام لیتے ہیں اور اکثر یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ ہمارے ملک کی بہت کم آبادی ٹیکس ادا کرتی ہیں ۔ وہ یہ بات کہتے ہوئے ہند اوردیگر پڑوسی ملکوں کا حوالہ بھی دیتے رہتے ہیں کہ وہاں 4 فیصد یااُس سے بھی زیادہ لوگ برابر ٹیکس ادا کرتے ہیں جبکہ ہمارے یہاں ایسے لوگوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ اگر دیکھا جائے تو یہ بات بالکل غلط اور بے بنیاد ہے۔پاکستانی تو ضرریات زندگی کی ہر چیز پر ٹیکس اداکرتے ہیں۔اِس ملک میں ایسی کونسی چیز ابھی باقی رہ گئی ہے جس پر ٹیکس عائد نہیں کیا گیا۔ کھانے پینے کی چیزوں سے لیکر سامان تعیش تک ہر چیز پر تو ٹیکس لاگو ہے۔ہمارے لوگوں کی یہی تو خرابی ہے کہ ہم دنیا کے سامنے اپنے عوام کا خراب اور مسخ چہرہ پیش کرتے رہتے ہیں۔
ہمارے ملک کی آبادی اِس وقت تقریباً 22کروڑ ہے اوراِس میں سے نصف حصہ بچوں اور نابالغوں پر مشتمل ہے ۔ اِس کے علاوہ بیس پچیس فیصد لوگوں میں وہ گھریلو عورتیں اور بوڑھے افراد ہیں جنکا کوئی ذریعہ معاش، روزگار یا کام کاج نہیں ہوتا۔لہٰذا صرف 25 فیصد لوگ ہی باقی رہ جاتے ہیں جو باقاعدہ کسی کاروبار یا جاب سے منسلک ہیں۔ایسے میں انکم ٹیکس ادا کرنے والوں سے یہ گلہ درست معلوم نہیں ہوتا کہ وہ بہت کم ٹیکس دیتے ہیں۔ انکم ٹیکس دینے والوں کے علاوہ ہماری آبادی کا ہرفرد کسی نہ کسی شکل میں حکومت کو برابرٹیکس دیتا ہے۔بچوں کے دودھ سے لیکر کھانے پینے کی ہر شہ پر یہاں ٹیکس لاگو ہے ۔ گیس ، بجلی اور ٹیلی فون کے ہربل پر نجانے کتنے قسم کے ٹیکس وصول کئے جاتے ہیں۔پٹرول اور اُسکی مصنوعات پر بھی اصل قیمت سے دگنا ٹیکس نافذ ہے جو ہر پاکستانی کو دیناپڑتاہے۔اِس کے علاوہ کوکنگ آئل ، گھی، دوائیاں ،ٹوتھ پیسٹ ، کتابیں اور اسٹیشنری سمیت ہر چیز پر ہماری یہ قوم ٹیکس دیتی ہے۔موبائل فونز اوراُن کے بیلنس کارڈ بے شمار چیزیں ایسی گنوائی جاسکتی ہیں جن پر حکومت ٹیکس بھی لیتی ہے اوراُس کی کوئی رسید بھی نہیں دیتی۔حکومتی اخراجات کا سارا دارومدار ہی عوام سے وصول کئے جانے والے ٹیکس پر منحصر ہے۔وہ اگر ٹیکس نہیںدیتے تو بھلابتایاجائے کہ حکومت اپنے اخراجات کیسے پورے کرتی ہے۔ ریونیوکی شکل میں حاصل ہونے والی آمدنی کا سارا حصہ ہی عوام کے ادا کیے ہوئے ٹیکسوں پر مشتمل  ہوتاہے۔ہاں اگر یہ کہا جائے کہ ہمارے یہاں فائلرز کی تعداد بہت کم ہے تو شاید درست ہو لیکن فائلرز بنے بنا ء ہمارے عوام حکومت کو روزانہ کی مد میں بے حساب ٹیکس دیتے رہتے ہیں ۔وہ فائلر اِس لئے بن نہیں پاتے کیونکہ اُس کا طریقہ کار بہت مشکل اور پیچیدہ ہے۔ایک جاہل اور ان پڑھ شخص خود سے یہ کام ہرگزنہیں کرپاتا۔ بلکہ پڑھے لکھے افراد بھی کسی قانونی ماہر یاکسی وکیل کی مدد کے بغیر فائلر نہیں بن سکتے۔ اِس کام کیلئے اُنہیں اپنی جیب سے اضافی رقم بھی اداکرنی پڑتی ہے۔حکومت کو چاہئے کہ فائلر بننے کے طریقہ کار کو سہل اور آسان بنائے کہ ہر شخص خود اپنے تئیں فائلر بن جائے۔اُسے کسی وکیل کی فیس ادا نہ کرنی پڑے۔وہ ہر سال باقاعدہ ریٹرن داخل کرے اور اُسے کوئی پریشانی بھی اُٹھانی نہیں پڑے۔ ہمارے یہاں اِس وقت فائلر بننے کا طریقہ کار اتنا کٹھن اور مشکل ہے کہ کوئی بھی شخص یہ کام آسانی سے نہیں کرپاتا۔اُسے آسان بنانے کی باتیں تو ہر حکومت کرتی ہے لیکن عملاً کچھ نہیں کرتی۔ پھر یہ گلہ کہ ہمارے عوام ٹیکس ادا نہیں کرتے کچھ زیب نہیں کھاتا۔اور حکومت اپنی سوچ اور فکر کو بھی بدلے کہ ٹیکس دینے والی دیگر قوموں کے مقابلے میں ہمارے عوام کاتناسب سب سے کم ہے اور اپنے لوگوں کا ہندوستانی عوام سے موازنہ کرکے اُن کی تضحیک نہ کیا کرے۔یہ قوم اپنا پیٹ کم بھرتی ہے اور اپنے حکمرانوں کا زیادہ۔ خدارا کھلی آنکھوں اور کھلے دماغ سے اپنی سالانہ آمدنی کا بغورجائزہ لیں تواحساس ہوجائے گا یہ پیسہ اِس قوم کے لوگوں نے ہی دیا ہے۔وہ اگر ٹیکس ادا نہ کریںتو حکومت ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھاپائے۔ سالانہ بجٹ بناتے وقت ریونیو سے حاصل ہونے والی آمدنی ہی کوبنیاد بنایاجاتا ہے ۔ اور یہ ریونیو کیا ہے ۔ عوام سے حاصل ہونے والی آمدنی ہی ہے۔ جسے بڑھانے کیلئے حکومت ہر سال ایک نیا ٹارگٹ مقرر کرتی ہے۔یہ اگر پورا نہ ہو تو حکومت کے خسارے بڑھتے چلے جاتے ہیںاور وہ ایک نئے مالی بحران میں مبتلا ہوجاتی ہے۔ عوام کی اِس بڑی قربانی کے عوض اُسے دیا کیا جاتا ہے۔ اُس کیلئے کون سے راحتیں پیدا کی جاتی ہیں۔ دنیا میں اگرحکومتیں ٹیکس وصول کرتی ہے تو جواب میں اُنہیں سہولتیں بھی دیتی ہیں۔ اُنہیں ٹرانسپورٹ سمیت صحت و صفائی اور علاج کی مفت سہولتیں فراہم کرتی ہیں۔ جبکہ ہمارے یہاں عوام کو کیادیا جاتا ہے۔کچرا ، گندگی ، بیماریاں اور غیر ممالک سے لیے جانے والے بڑے بڑے قرضے۔ گرانی اور مہنگائی اِس کے علاوہ ہے جس کا کوئی حساب نہیں۔ ہر حکومت اپنے سے پہلے آنے والی حکومت کے بارے میں شکوہ شکایتیں تو بہت کرتی ہے کہ اُس نے عوام پر غیر ملکی قرضوں کے انبار لگا دیئے ہیں جبکہ خود اُس کا حال بھی اُن سے مختلف نہیں ہوتا۔ پرانے قرضے اُتارنے کیلئے نئے اور پہلے سے بڑے قرضے ۔یہی حال ہماری اِس نئی حکومت کا بھی ہے۔ گذشتہ چھ مہینوں سے وہ تمام مسائل اورمشکلات کا سبب صرف اور صرف پچھلی حکومت ہی کو گردانتی رہی ہیاور اِس کے حل کیلئے وہ بے شمار نئے قرضے بھی لے رہی ہے۔خطرات اور خدشا ت بتا رہے ہیں کہ جب یہ موجودہ حکومت اپنی مدت پوری کرکے جائے گی تو نئی آنے والی حکومت بھی شایداِس کے بارے میں وہی کچھ کہہ رہی ہوگی جویہ آج پچھلی حکومتوں کے بارے میں کہہ رہے ہیں۔ حکومت کو اب نئے قرضوں سے اجتناب کرتے ہوئے ترقی وخوشحالی کے دیگر ذرائع تلاش کرنا ہونگے۔ قرضوں سے معیشت کبھی درست نہیں ہوسکتی۔ اِن سے وقتی راحت تو مل سکتی ہے لیکن دائمی خوشحالی ہرگز نہیں۔   
 

مزید پڑھیں:- - - -بی جے پی کے حوصلے پست

شیئر:

متعلقہ خبریں