Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حسنِ اخلاق

مسلمان کی پہچان ہی اخلاق سے ہے، اخلاق یہ ہیں کہ کوئی تمھیں برا کہے تو تم برداشت کرو اور تم اسے اچھا ہی کہو !!
ناہید طاہر ۔ ریاض
دوسری قسط
اچھا۔ میں حیران رہی
کچھ بتاﺅتو سہی۔۔۔کچھ مثالیں اور دلیلوں کے ساتھ اپنی بات مکمل کرو میں جاننا چاہتی ہوں۔ میں نے مکمل تجسس کے ساتھ پہلو بدلتے ہوئے پوچھا
جواب میں اس کی ہلکی سی ہنسی سنائی دی۔ وہ کہنے لگی۔اپنی آفس کی بات بتاتی ہوں جہاں ہم سارے ملازم کسی خوشگوار کنبہ کی طرح رہتے ہیں۔مینجر ، ڈائریکٹر کےلئے بھی کوئی الگ کیبن نہیں بلکہ ہم سب ساتھ میں ایک ہال میں بیٹھے کام کرتے ہیں۔۔۔آفس میں کچن بھی ہوتے ہیں تو وہاں کسی کا کپ پڑا ہو تومنیجر اپنی پیالی کے ساتھ دوسروں کی پیالی دھو کربھی رکھ دیتے ہیں۔۔۔۔کچھ گر گیا۔۔۔ اگر کچن پلیٹ فارم پرچائے کے دھبے پڑگئے۔۔۔وہ خود صاف کردیتے ہیں۔۔۔۔۔چائے یا کافی اگر خود کے لئے بنارہے ہوں تو دوسروں کے لئے بھی بنا کر رکھ دیتے ہیں۔ بڑے عہدے پر فائز اشخاص بھی سادگی سے صفائی کا دھیان رکھتے ہیں کوئی چیز راستے سے ہٹا دینے میں شرم محسوس نہیں کرتے۔ چھوٹے درجے کی پوسٹ والوں کا کسی کے سامنے تعارف کروانا ہوتواس کی پوسٹ کا یا حیثیت کا اظہار نہیں کیا جاتا بلکہ ان سے کہیں گے ان سے ملئے یہ میرے ساتھ کام کرتے ہیں۔
یہاں پر لوگ بہت محنتی ہیں۔۔ محنت کرنا معیوب نہیں سمجھا جاتا اونچے عہدے پر فائز انسان بھی فارغ اوقات میں کہیں نہ کہیں اپنی مصروفیات تلاش کر تے ہیں۔کہیں دکان پر پارٹ ٹائم جاب کرلیا توکہیں ا سپورٹس چل رہے ہوں تو اسٹیڈیم کے باہرکوئی اسٹال لگا کر کھڑے ہو گئے۔انھیں قطعی شرمندگی محسوس نہیں ہوتی کہ لوگ کیا کہیں گے کیاسوچیں گے؟ اتنا بڑا پروفیسر یا اتنے بڑے عہدے پر فائز ہونے کے باوجود ایک چھوٹی دکان لگائے کھڑا ہے۔کچھ لوگ توویک اینڈ پرمزدوری جیسے چھوٹے موٹے کام بھی کر لیتے کچھ شوقیہ کرتے ہیں تو کچھ لوگ خود کو چست اور مصروف رکھنے کے لئے کرتے ہیں کوئی پیسہ حاصل کرنے کی نیت سے !!
اچھا۔۔۔۔ یہ بات تو ہمارے مشرق میں بہت معیوب سمجھی جاتی کہ اپنے پیشے سے ہٹ کر کچھ چھوٹا موٹا کام کرلیں تو لوگ الگ سے مذاق اڑاتے ہیں۔۔۔کم مائیگی پر چوٹ کرتے ہیں۔
بہت دلچسپ باتیں ہیں۔۔۔۔ہر انداز سے حسن اخلاق جھلک رہا ہے۔۔۔کچھ اور بتاو۔۔۔میں نے اشتیاق ظاہر کیا۔
انڈیا میں اساتذہ عزت احترام کامطالبہ کرتے ہیں۔یہاں پر استاد ایک دوست کی طرح پیش آتے ہیں۔۔۔استاد کو میم، پروفیسر،سر وغیرہ القابات سے نہیں پکارا جاتا اور ناہی وہ اس کو پسند کرتے بلکہ نام سے مخاطب کیا جاتاہے۔ 
 لیکن ایک بات جو مجھے بے حد متاثر کرگئی۔یہاں پر بچوں کے معصوم احساسات کا اتنا خیال رکھا جاتا ہے کہ کلاس میں ٹیسٹ کے نمبروں کا اعلان نہیں ہوتا ، کس بچے نے کس بچے پر فوقیت حاصل کی ہے بلکہ بطورعام بتا دیتے ہیں کہ کلاس میں کتنے پاس ہوئے ہیں۔کسی کا نام لے کر اس کے سو فیصد آنے پر توقیر نہیں اور کسی کے پچاس فی صد آنے پر تحقیر نہیں۔امتحان کے پرچے ٹیچر بچوں کے ڈیسک پر الٹ کر رکھتے ہیں۔کسی بچے کا من چھوٹا نہیں ہوتا۔۔۔ بس قربان جاو¿ں اس پرکہ بچوں کی نازک انا کا کتنا خیال۔۔۔لیکن جب مشرق کی بات کریں 
جہاں تک میں نے نوٹس کیا ہے
ہندمیں ٹیچر تیار بیٹھے ہوتے ہیں کسی طرح آپ کے نمبر کاٹیں،ان کے گھر کے تمام حالات کا بدلہ اپنے اسٹوڈنٹ پر نکالتے ہیں !!
جبکہ یہاں پر لینگویج کے علاوہ ہرمضمون میں املا کی غلطیوں کو نظرانداز کیا جاتاہے۔ ہند میں پرائیویٹ ا سکول صرف پیسہ کمانے کے ادارے بن گئے ہیں !!
یہاں کی مہمان نوازی کی بابت سناو¿ں گی۔آپ خوش ہوجائیں گی۔
ہاں ضرور !! میں ہمہ تن گوش ہوئی۔
 ماشاءاللہ یہاں پر لوگوں میں خلوص اور محبت کاجذبہ ہے جب ہم کھانے کے لئے کسی ریستوران میں جاتے ہیں اگر ہم نے بتایا کہ ہمارے والدین ساتھ ہیں جو پہلی مرتبہ اس ملک میں تشریف لائے ہیں یہ جان کروہ لوگ بہت خوش ہوتے ہیں ۔فورا ًکوئی ڈیزرٹ پیش کرتے ہیں۔ ان کے یہاں جو بھی خاص ڈش ہوتی ہے وہ ٹیبل پر پیش ہوتی ہے ، کہیں گے یہ آپ کےلئے ہماری طرف سے خاص پیشکش ہے ،اسے قبول کریں کیونکہ آپ ہمارے مہمان ہیں اور ہمارے ملک میں پہلی مرتبہ تشریف لائے ہیں۔ہمارے ملک کے تئیں آپ کے خیالات بھی اس ڈیزرٹ کی طرح شیریں ہوجائیں۔
سبحان اللہ ! مہمان تو اللہ کی جانب سے رحمت ہوتے ہیں۔ مجھے اس کی باتیں سن کرواقعی بہت خوشی ہوئی۔
یہاں پر لوگ ہمارے مذہب کا بہت خیال رکھتے ہیں۔۔۔ہم ہر جگہ جاتے ہیں ،گھومنے پھرنے ، لوگوں سے ملاقات ہوتی ہے اٹھنا بیٹھنا ہوتا ہے۔کھانا پینا ہوتا ہے۔دفتر کی تقریبات یا دوستوں میں دعوتیں ہوتی ہیں لیکن کہیں بھی کسی نے آج تک مذاق میں ہماری مشروبات میں الکحل نہیں ملایا !!
ہممم۔۔۔۔۔میں سوچنے لگی۔ 
 خواتین کا بہت احترام کیا جاتا ہے ہاں کچھ لوگ فضول حرکت کرتے ہیں جو خاص کلبوں وغیرہ میں ہوتا ہے لیکن عام طور پر عورتوں کی بہت عزت ہوتی ہے جیسے آفس میں۔۔۔۔پوسٹ آفس کی قطار میں کھڑے ہوں ، کسی شاپنگ مال میں ہو ہر جگہ بہت زیادہ عزت بخشی جاتی ہے۔
مشرق میں تقریبات میں کھڑے کھڑے کھا لیتے ہیں لیکن یہاں یہ چیز بہت بدتمیزی کہلائی جاتی ہے کھانا لگا ہوتا ہے لیکن آپ کو اپنی پلیٹ میں لے کر ٹیبل پر جا کر بیٹھنا ہوتا ہے کھانے سے پہلے دعا کا بڑا اہتمام کرتے ہیں چاہے کسی بھی مذہب کے ہوں وہ شکر ہمیشہ ادا کرتے بری بات یہ کہ کھانا بہت پھینکتے ہیں یعنی ضائع کیا جاتا ہے۔رزق کی فراوانی ہے لیکن اس کی قدر کرنی چاہئے۔۔۔۔خیر میں یہاں یہ کہوں گی کہ ہم ان سے اچھی چیزیں حاصل کریں۔۔برائی کو نظرانداز اور ترک کرنا ہی بہتر ہے۔ 
اچھا ایک بات بتاو۔۔۔۔؟ تم وہاں کے اخلاق وتہذیب سے اتنی متاثر ہو۔۔۔میں نے سناہے کہ وہاں کثرت سے اولڈ ایچ ہوم بھی قائم ہیں۔؟
یہ سن کر وہ دکھ سے ہنس کر گویا ہوئی ،ہاں یہاں پر اولڈایج ہوم بہت ہیں۔اس کی وجہ بتاتی ہوں۔۔۔ چونکہ یہاں پر مرد و زن دونوں ملازمت کرتے ہیں اور اس لحاظ سے والدین کو وقت نہیں دے پاتے چنانچہ اولڈ ایج ہوم کے حوالے کردیتے ہیں۔جہاں گورنمنٹ سے کئی قسم کی سہولیت فراہم ہیں۔ شام میں یہ وہاں ملنے جاتے ہیں کچھ خاص بنایا ہو تو وہ انھیں کھلاتے اور شام گزار کر واپس چلے جاتے۔ کچھ خواتین ایسی ہیں جو ملازمت چھوڑ کر والدین کے ساتھ گھر پر وقت گزارتی ہیں۔ جب والدین انتقال کر جائیں تب وہ دوبارہ اپنی ملازمت جوائن کر لیتی ہیں۔ہاں سارے نیک انسان نہیں ہوتے چند نالائق قسم کی اولاد بھی ہیں جنھیں والدین بوجھ لگتے ہیں۔
ہممم۔۔۔ بزرگوں کے تعلق سے اس نے مجھے مطمئن کرنا چاہا۔۔۔لیکن میں قطعی مطمئن نہیں تھی بلکہ مجھ پر ایک اداسی سی چھاگئی۔میں معذرت کے ساتھ صفیہ کی اس تاویل سے عدم اتفاق کرتے ہوے عرض کرنا چاہتی کہ ہمارے یہاں یعنی مشرق میں بھی ایسے ہزاروں گھرانے ہیں جہاں مرد و زن دونوں ملازمت کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود اپنے والدین کو اولڈ ایج ہوم کے حوالے نہیں کرتے اور خود ان کی خدمت کا مقدس فریضہ انجام دینے میں قلبی سکون محسوس کرتے ہیں۔۔۔۔لیکن میں نے کچھ نہیں کہا۔ویسے ہر زمانے، ہر طبقے ، ہر خطے میں اچھے اور برے لوگ ہوتے ہیں۔اچھائیاں اور برائیاں مل کر ہی ایک معاشرہ تشکیل دیتی ہیں۔کبھی متوازن تو کبھی توازن بگڑ جاتا ہے۔
ابھی رات بہت ہوگئی۔۔۔باقی کل بات کرتے ہیں۔۔۔وہ شاید تھک چکی تھی۔۔۔اس نے اجازت طلب کی میں نے اس کو شب بخیر کہا۔وہ چلی گئی۔میرا دماغ سوچتا رہا۔میری دوست وہاں کے حسن اخلاق سے بہت متاثر تھی۔کبھی وہ یہاں سعودی عرب آتی اور قریب سے اس ملک کے اخلاقیات کا مشاہدہ کرتی تو ایمان سے وہ یہاں کی تہذیب و تمدن اور حسن اخلاق پر قربان ہوجاتی۔۔جس طرح کہ میں ہوئی ہوں !!!
میری آنکھوں سے نیند غائب تھی۔میرے ذہن کے پردے پر پڑھا گیا قول ابھر آیا
امام حسن بصری رضی اللہ عنہ فرماتے اگر کوئی شخص گھر سے صرف ادب اخلاق سیکھنے کے لئے نکلے۔ اس میں اس کے سالہا سال بھی بیت جائیں تو پھر بھی کم ہے۔ کہتے ہیں خدا تک جانے کے لئے ادب اخلاق کا درست ہونا ضروری ہے اچھے اخلاق یہ ہے کہ کسی کو تکلیف نہ دی جائے مگر دوسروں سے تکلیف ملے تو اسے برداشت کیا جائے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مومنین میں سے اس کا ایمان اعلی ہے جس کا اخلاق سب سے اعلیٰ ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بندے کے لئے اللہ کی سب سے بڑی عطا خلقِ حسن ہے .حسنِ اخلاق کا حامل اللہ کے قربت میں رہائش پائے گا عرش کا سایہ پائے گا اور جنت کے چشموں سے سیراب کیا جائے گا۔معاشرے کو سنوارنے میں اخلاق کا نمایاں مقام ہوتا ہے یعنی اخلاق کو نمایاں حیثیت حاصل ہے انسانیت کا عمدہ اور بہترین زیور حسنِ اخلاق ہے۔ اسلام نے گھریلو سطح پر والدین کے ساتھ حسنِ سلوک وہ خدمت گزاری کی تعلیم دی ہے۔ رشتہ داروں کے ساتھ احسان و صلہ رحمی بیوی بچوں کے ساتھ محبت و شفقت کی تعلیم دی گئی اسی طرح معاشرتی سطح پر بھی چند اصول و ضوابط کے تحت حسنِ اخلاق کے استعمال سے معاشرے و سماج کو خوبصورت بنایا جانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اخلاق دنیا کے ہر مذہب کا مشترکہ باب ہے۔اگر معاشرہ اصلاح پذیر ہو تو اس سے باصلاحیت قوم وجود میں آتی ہے۔جس معاشرے میں اخلاق ناپید ہو وہ کبھی مہذب نہیں بن سکتا۔مسلمان کی پہچان ہی اخلاق سے ہے۔ اخلاق یہ ہیں کہ کوئی تمھیں برا کہے تو تم برداشت کرو اور تم اسے اچھا ہی کہو !!
اگر کوئی تمھاری بدخوئی کریں تم اس کی تعریف اور اچھائی بیان کرو!!
 کوئی تم پر زیادتی کرے تو اسے فراخدلی سے معاف کردو !!
ہم اگر ان باتوں پر عمل کریں اور انھیں اپنالیں تو نہ صرف خاندان سلجھ جائیں گے بلکہ خوبصورت سماج و معاشرے کی تشکیل بھی عمدہ طور سے ہوگی۔ 
 غصہ حسد ،نفرت ، خون وغارت یہ ساری چیزیں دنیا سے اٹھ جائیں گی اور دنیا جنت کا نمونہ ،امن کا گہوارہ بن جائےگی کیا یہ ممکن ہے؟ہاں میرے خیال میں یہ ممکن ہوگا اگر ہم اس خوبصورت زیور حسنِ اخلاق کو اپنی زندگی کا نصب العین بنا لیں !!!!
ختم شد
٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: