Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

برسوں سے جاری ٹرٹر

شہزاد اعظم

سچ یہ ہے کہ ہم بحیثیت پاکستانی ، الحمدللہ،ہر حال میں جینے کا ہنر جانتے ہیں۔ہمارے ہاں ایسے لوگ بھی ہیںجن میں شامل ایک جوڑے کو نجی طیارہ خراب ہوجانے کے باعث ایک رات صحرا میں گزارنی پڑی ۔ اس جوڑے میں نصف بہتر سے جب گفتگو ہوئی تو انہوں نے فرمایا کہ میں نے پہلی مرتبہ ریت پرپائوںرکھاہے، مجھے بہت اچھا لگا۔اس کے علاوہ مجھے صحرا میں انتہائی پرسکون نیندآئی۔یہ بھی پاکستانی جوڑا تھا اور ایک جوڑا یہ بھی ہے کہ ایک دولہا معصوم بنجارن کو بیاہ کر لے آیا اور اسے صوفے پر بٹھایا تو وہ گھونگٹ کو بھول کر تمام دلہنی اطوار فراموش کر کے صوفے پر اچھلنے لگی کہ یہ تو اتنا نرم ہے ، کتنا مزاآتا ہے اس پر بیٹھ کر۔جب اس کے دولہا نے کہا کہ اب یہ گھر تمہاراہے ، تم یہیں رہو گی۔ وہ اپنے دولہا کی اس بات پر حیراںہو کر پوچھنے لگی کہ ہم یہ گھر چھوڑ کر کہیں اور خیمہ زن نہیں ہوں گے؟اس کے جواب میں دولہا نے کہا کہ نہیں، کیونکہ اب تم بنجارن نہیں رہیں بلکہ گرہستن بن چکی ہو۔دولہا کی یہ باتیں سن کر دلہن کو ایسا لگا جیسے اسے دنیا بھر کی خوشیاں بن مانگے مل گئی ہیں۔یہ دونوں میاں بیوی بھی پاکستانی تھے۔
گزشتہ دنوں ہم شہر لاہور کی ایک بہت بڑی اور معروف رہائشی سوسائٹی میں ایک تقریب نکاح میں شرکت کے لئے پہنچے۔ متعدد دولہے اپنی باری کے منتظر تھے۔ نکاح پڑھانے کے بعد نکاح خواں فرماتے کہ اب آپ لوگ تشریف لے جائیں اور فلاں بن فلاں نکاح کیلئے آجائیں۔یوں یکے بعد دیگرے جوڑوں کا نکاح پڑھایاجا رہا تھا۔ نکاح خوانی کی فیس صرف 2لاکھ روپے تھی۔ہم نے اس نکاح کے بعد شادی کی تقریب میں ایک لفافے میں 10000روپے رکھ کر پتے کی جگہ اپنا نام لکھااور اسے اچھی طرح بند کیا تاکہ فوری نہ کھل سکے۔ بعد ازاں یہ لفافہ ہم نے دولہا تک پہنچا دیااور جلد تقریب سے واپس چلے آئے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ لفافہ کھول کر دیکھ لیاجائے اور پھر طعنہ مقدر بنے کہ اتنا قریبی رشتہ اور صرف 5،5،ہزار کے دو نوٹ؟ بہر حال یہ بھی پاکستانی تھے۔
 چند روز کے بعد ہمیں بھوئے آصل کے نزدیک ایک چک میں ہونے والی تقریب نکاح میں شرکت کی دعوت دی گئی۔ ہم پہنچ گئے۔دولہا والے ہمیں لے کر لڑکی کے گھر گئے۔ وہاں مسجد کے امام صاحب نے نکاح پڑھایا، سب نے مبارکباد دی،چھوہارے تقسیم کئے گئے اور کچھ ہی دیر گزرنے کے بعد دلہن کو تانگے میں بٹھا کر دولہا کے گھر لے جایا گیا۔اس ’’عروسی جلوس‘‘ میں ہم بھی پائوں پائوں چلے جا رہے تھے۔گھر پہنچ کر ہم نے دولہا کو گلے لگایا، مبارکباد دی اور 500کا نوٹ تھما دیا جس پر اس نے کافی لیت و لعل کی کہ اس کی کیا ضرورت ہے۔ آپ کی دعائیں ہی اصل تحفہ ہیں مگر ہم نے کہا کہ پُتر جی روایت بھی کوئی شے ہوتی ہے۔ہم جب واپس گھر کی جانب رواں دواں تھے تو ہمیں خیال آ رہا تھا کہ یہ بھی پاکستانی ہیں جو 500روپے لیتے ہوئے بھی شرمندگی محسوس کر رہے ہیں اور وہ بھی ہمارے پاکستانی ہیں جو 10ہزار لے کر بھی طعنہ دینے کیلئے تیار ہیں۔ واقعی پاکستانی ہر حال میں جینے کا ہنر جانتے ہیں۔
ہم نے 1965ء کی جنگ دیکھی،71ء کی مار دھاڑ دیکھی اور آج2019ء میں ’’مودیت‘‘کی شرانگیزیاں بھی دیکھ رہے ہیں۔ اس قسم کے ماحول میں بھی پاکستانی قوم اپنی مثال آپ بنی رہی ۔65ء میں تو عوام نے ایک دوسرے کیلئے حقیقی معنوں میں ’’دیدہ و دل فرشِ راہ‘‘کا عملی نمونہ بن کر دکھایا۔ پرچون فروش گھروں پر سودا دینے آتے اور ’’اُدھار‘‘ سودا دے کر چلے جاتے تاکہ گھروںمیں کم از کم کھانے پینے کی اشیاء کی قلت نہ ہو۔لوگ ساری ساری رات جاگ کر پہرہ دیتے کہ کہیں دشمن کا کوئی پیرا ٹروپر فضا سے پاک سرزمین پر قدم نہ رکھ دے۔ ملی جذبے،قومی حمیت اورحب الوطنی کے اس بے مثال اظہار کو ’’جذبہ 65ء‘‘ کا نام دیا گیا کیونکہ بہر حال یہ منفرد تھا۔آج بھی پاکستانی قوم وہ کچھ کر کے دکھا رہی ہے جس کی مثال یہ قوم خود ہی ہے ۔پاکستان نے ہندوستانی پائلٹ کو گرفتار کیا جو پاکستان کی سرزمین پر حملہ کرنے اور معصوموں کے خون سے ہاتھ رنگنے کے ناپاک عزائم لے کر آیا تھا۔ عمران خان کی حکومت نے اس جنونی  پائلٹ کو رہا کرنے کا اعلان کر دیا۔ اگر خاکم بدہن، پاکستان کا کوئی فوجی تو دور کی بات، اگر شہری بھی اس اندازمیں ہند کے ہتھے چڑھ جاتا تو وہ دنیا بھر میں واویلا کرتا اور پاکستان کو دہشتگرد قرار دلوانے میں کوئی کمی نہ چھوڑتااور ایک پاکستانی قوم ہے جو عملاً، شکلاً،قولاً اور فعلاًدہشتگرد کو اس کے ملک کے حوالے کر رہی ہے اور اس ملک کو دیکھئے کہ پاکستان کا شکریہ ادا کرنے کی بجائے وہ دنیا کو یہ باور کرانا چاہتا ہے کہ ہند نے اس قدر حیرت انگیز سفارتکاری کی ہے کہ پاکستان ہمارا پائلٹ رہا کرنے پر مجبور ہو گیا۔ اس شرمناک ڈھٹائی کے باوجود ہم اپنے ’’قاتل‘‘ کو اس کے وطن بھیج رہے ہیں۔
    آج ہم نے جنگ، دوستی یا کشا کشی سے متعلق پاکستانیوں کے جذبات جاننے کی کوشش کی تو ہر سمت سے ایک ہی جواب آیا کہ موت کا وقت مقرر ہے ، ہمیں اس کا ڈر نہیں ۔ اپنا ایک ہی عزم ہے کہ پٹاخہ پھوڑنا نہیں اور اگر دشمن نے پھوڑ دیا تو پھر اسے چھوڑنا نہیں۔باقی رہا کاروبار، شادی بیاہ، ڈھولکی، مہندی، عقیقہ، خلع، طلاق اور دوبارہ شادیوں کا سلسلہ تمام طمطراق کے ساتھ جاری وساری ہے۔ جس سے کہہ کہ بھائی اگر جنگ ہوگئی، جواب ملتا ہے کہ ہوجائے، یہ برسوں سے جاری ٹرٹر تو ختم ہو جائے گی ناں۔ہمیں پھر خیال  آیا کہ پاکستانی قوم کبھی بھی اور کچھ بھی کر سکتی ہے۔اس لئے ہمارا مشورہ ہے کہ اس سے ’’پنگا‘‘ نہ لیاجائے تو بہتر ہے۔

مزید پڑھیں:- -  - - -پلوامہ حملہ پاکستان نے ہند کو آئینہ دکھادیا

شیئر: