Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بے صدا معیشت

جاوید اقبال
سوال یہ نہیں ہے کہ ہندوستانی وزیر خارجہ سشما سوراج ابوظبی میں حال ہی میں انعقاد پذیر ہونے والی اسلامی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کے وزرائے خارجہ کی کانفرنس میں کیوں آئیں۔ اس سوال کا جواب تو انتہائی آسان ہے۔ اس تنظیم کی رکنیت حاصل کرنے کیلئے نصف صدی سے گھات لگائے ملک کی وزیر خارجہ اگر یہ موقع گنوا دیتیں تو شاید اگلے برسوں میں پلوں کے نیچے سے اتنا پانی بہہ چکا ہوتا کہ رکنیت کا سوال ہی اپنی موت آپ مرجاتا۔ سوال یہ بھی ہرگز نہیں ہے کہ اجلاس میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے دہشتگردی کا ذکر کرتے ہوئے پاکستان کا نام نہ لیتے ہوئے بھی اشارے کنایے میں اس کا ذکر کردیا۔سوال صرف یہ ہے کہ تنظیم کے بانی رکن پاکستان کے ہندوستانی وزیر خارجہ کے مدعو کیے جانے پر معترض ہونے کے باوجود میزبان ملک نے اپنی دعوت واپس کیوں نہ لی؟  اسلامی تعاون تنظیم کے اجلاس میں غیر مسلم اکثریت والے ملک کی غیر مسلم وزیر خارجہ کا خطاب بھی ہوگیا۔ ان کی تقریر کے دوران میرے ذہن میں تاریخ نے اپنے ورق الٹے۔ 1971ء میں خلیج عرب کے کنارے پر سکڑی سمٹی ننھی ریاستوں نے اتحاد کیا اور نسبتاً متحدہ عرب امارات کا ایک بڑا وجود قائم کیا۔ تیل دریافت تو ہوچکا تھا لیکن ابھی اس کے دام کوڑیوں میں تھے۔ 1973ء کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد جب شاہ فیصل مرحوم نے اس سیاہ سیال کی یورپ کو فروخت پر پابندی لگائی تو مغرب میں چلتی گاڑیوں اور مشینوں پر موت کا سکوت چھا گیا۔ امریکی وزیر خارجہ ہنری کسجز کی شٹل ڈپلومیسی اور منتوں نے اس پابندی کے خاتمے میں بنیادی کردار ادا کیا اور مغرب میں حرکت لوٹ آئی۔ تاہم اس دوران اوپیک کو احساس ہوچکا تھا کہ اس کے زیر زمین ایک دولت سورہی ہے۔ تیل کی قیمتیں بڑھیں اور خلیجی ممالک بھی زندگی کی راحتوں سے آشنا ہونے لگے۔ پٹرو ڈالروں کا سیل رواں آیا۔ پیشتر ازیں صدیوں صحرائوں میں بگولے رقص کرتے رہے تھے۔ باد یہ نشین رہگزاروں میں تلاش رزق اور جستجوئے آب میں سرگرداں رہتے تھے۔ خیموں میں شب بسری ان کی زندگیوں کو بے سکون رکھتی تھی۔ ساحلوں کے قریب رہائش پذیر دن بھر سمندر میں غوطے لگاتے، سیپیاں ڈھونڈھتے اور ان میں سے نکلے موتی اپنی متاع عزیز سمجھتے۔ صحیح معنوں میں زندگی ہتھیلی سے ہونٹوں تک کے مختصر فاصلے میں چکر لگاتی رہتی تھی۔ پھر تیل کی قیمتیں عروج آشنا ہوئیں۔ خلیج عرب کے اطراف کا علاقہ آنکھیں کھولے اردگرد کی دنیا کو حیرت سے تکنے لگا۔ زندگی اور پیشرفت کی تڑپ جاگی۔ تعمیرات کا آغاز ہوا لیکن ایک مسئلہ تھا۔ ان ریاستوں کی اپنی آبادی انتہائی کم تھی۔ مدد کیلئے پاکستان کی طرف ہاتھ بڑھے اور ہماری افرادی قوت ’’دبئی چلو‘‘ کا نعرہ لگاتی ان صحرائوں میں آخیمہ زن ہوئی۔ پاکستانیوں نے 50 درجہ کے حرارت میں دن رات ایک کردیے۔ پسینے سے شرابور بدن سنگ و خشت اپنے شانوں پر رکھے کثیر المنزلہ عمارات بلند کرتے رہے۔ اس وقت وہاں کسی اور ملک کی افرادی وقت کا وجود نہ تھا۔ ہر عمارت کے ہر پتھر پر پاکستانی انگلیوں کے نشان ثبت ہوتے رہے۔ صحرا میں عجوبہ روزگار منصوبے سر اٹھاتے رہے اور پاکستانی ان کی تشکیل میں اپنے بدن توڑتے رہے۔
 جتنا بڑا احسان پاکستانیوں نے خلیجی ممالک پر کیا ہے اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ متحدہ عرب امارات کی ہر شاہراہ، ہر عمارت، ہر گلستان پر پاکستان کا احسان ہے لیکن پھر اسلامی تعاون تنظیم کے اجلاس میں مہمان خصوصی کے طور پر سشما سوراج کی شرکت اور خطاب؟ اس کا سبب اسلامی تعاون تنظیم کے بنیادی منشور میں نہیں ملے گا اور ہندوستانی وزیر خارجہ کو خطاب کی اجازت دینے کی وجہ عالم اسلام سے اظہار بغاوت بھی نہیں ہے۔ بغیر تنظیم کے 57 رکن ممالک سے مشورہ کیے ہندوستانی وزیر خارجہ کو اجلاس میں مدعو کرنے کی وجہ بالکل واضح ہے۔ حالیہ برسوں میں ہونے والی تبدیلیوں پر نظر ڈالیں۔ متحدہ عرب امارات کے ولی عہد شہزادہ محمد بن زید النھیان نے اپنے دورہ پاکستان میں میزبان ملک کو 3 ارب ڈالر نقدی کی صورت میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو قرض دیا جبکہ 3.2 ارب ڈالر کا تیل متاخرہ ادائیگیوں پر دینے کا وعدہ کیا۔ یہ تیل ہماری 60 فیصد ضرورت پوری کرے گا۔ دوسری طرف متحدہ عرب امارات کی حکومت ہندوستان میں 75 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گی۔ بنگلور میں متحدہ عرب امارات کے تیل کا ذخیرہ کیا جائے گا۔ جسے مشرقی ایشیائی ریاستوں کو ارسال کیا جائے گا۔ وزیر خارجہ عبداللہ بن زایدالنھیان نے بنگالو رو میں خلائی تحقیقاتی مرکز کا دورہ کیا اور متحدہ عرب امارات اور ہندوستان کے مابین خلائی تحقیق کے باہمی منصوبے کا آغاز کیا۔ دونوں ملکوں کے درمیان نقل و حرکت کو آسان بنانے کیلئے ممبئی اور فجیرہ کے درمیان زیر بحر تیز رفتار ریل گاڑی کی تعمیر کی جائے گی۔ تقریباً 2000 کلومیٹر طویل اس آبی سرنگ سے ہندوستان تازہ پانی متحدہ عرب امارات کو برآمد کرے گا اور اسی راستے سے امارات سے تیل کی درآمد ہوگی۔ گزشتہ برس ان دونوں ملکوں کی 2 طرفہ تجارت کا تخمینہ 40 ارب ڈالر تھا اور منصوبہ یہ ہے کہ 2020ء تک اسے بڑھاکر 100 ارب ڈالر تک لے جایا جائے۔ پاکستان کی امارات سے باہمی تجارت صرف 8.5 ارب ڈالر ہے تو اب تو واضح ہوگیا ہوگا۔ متحدہ عرب امارات نے شریمتی سشما سوراج کو ارسال کی گئی دعوت کیوں منسوخ نہ کی۔ 3 ارب ڈالر کا قرض، 3.2 ارب ڈالر کا متاخرہ ادائیگی پر تیل اور گوادر میں شاید 10 ارب ڈالر کا سرمایہ کاری کا وعدہ! ضعیف معیشت بے صدا ہوتی ہے۔ شاہ محمود قریشی کی کون سنتا؟
 

شیئر: