Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ریاض کے قریب ایٹمی پلانٹ تکمیل کے مراحل میں، گوگل ارتھ نے تصاویر جاری کردیں

ریاض :امریکی خبررساں ادارے بلومبرگ نے رپورٹ دی ہے کہ سعودی عرب اپنے دارالحکومت ریاض کے قریب پہلا ایٹمی پلانٹ مکمل کرنے والا ہے۔ مصنوعی سیاروں کی تصاویر نے ایٹمی پلانٹ کی موجودگی ثابت کردی۔ سعودی عرب نے ابھی تک ایٹمی تنصیبات کو کنٹرول کرنے والے بین الاقوامی ضوابط پر دستخط نہیں کئے ہیں، اس تناظر میں مذکورہ اقدام نےتشویش کی لہر دوڑا دی ہے۔  
امارات سے نشر ہونے والی نیوز چینل العربیہ اور سعودی اخبار عکاظ میں جاری ہونے والی رپورٹ کے مطابق پہلا سعودی ایٹمی پلانٹ کنگ عبدالعزیز سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سٹی ریاض کے جنوب مغرب میں واقع ہے۔گوگل ارتھ کی جانب سے جاری کردہ تصاویر سے ظاہر ہورہا ہے کہ پلانٹ مکمل ہونے کے قریب ہے۔ یہ ایٹمی ایندھن والے عمودی ٹینک کے قریب بنایا جارہا ہے۔

ایٹمی اسلحہ پر پابندی کے ماہرین نے سعودی ایٹمی پلانٹ پر تشویش کا اظہار کردیا۔ انکا کہنا ہے کہ سعودی عرب نے ابھی تک ایٹمی تنصیبات کے ان ضابطوں پر دستخط نہیں کئے ہیں جن کی پابندی دیگر ایٹمی طاقتیں کررہی ہیں۔بین الاقوامی رجحان کے مطابق اس امر کو یقینی بنایا جانا ضروری ہے کہ ایٹمی توانائی کا پروگرام محض پر امن مقاصد کیلئے ہو اور اسے ایٹم بم بنانے کیلئے استعمال نہ کیا جائے۔ اس حوالے سے یہ بات بھی بیحد اہم ہے کہ ایٹمی ایندھن فراہم کرنے والے سعودی ایٹمی پلانٹ کو اس وقت تک ایٹمی ایندھن فراہم  نہیں کرسکتے تاوقتیکہ ویانا میں ایٹمی توانائی کی عالمی ایجنسی کے ساتھ پلانٹ کی نگرانی کے انتظامات مکمل نہ ہوجائیں۔

ایٹمی توانائی کی عالمی ایجنسی کے سابق ڈائریکٹر را برٹ کلی نے کہا ہے کہ اس کا بڑا امکان ہے کہ سعودی عرب اپنے یہاں پہلا ایٹمی پلانٹ تیار کررہا ہو۔اس کا مطلب یہ ہوگا کہ سعودی عرب کو ایٹمی توانائی کے پرامن استعمال کے لئے مطلوب ضمانتیں حاصل کرنا ہونگی۔
ایٹمی توانائی کی عالمی ایجنسی اور اس کے یہاں تعینات سعودی مشن نے  گوگل ارتھ کی جاری کردہ تصاویر کی بابت کسی بھی سوال کا  نہ تو جواب دیا اور نہ ہی ای میل پر بھیجے جانے والے پیغامات پر کوئی تبصرہ کیا اور نہ ہی ٹیلیفونک رابطے ریسیو کئے  جبکہ کنگ عبداللہ ایٹمی توانائی سٹی کے عہدیدار نے اس پر تبصرے سے صاف انکا رکردیا۔ کنگ عبداللہ ایٹمی توانائی سٹی سعودی ایٹمی پروگرام کو چلانے والا سرکاری ادارہ ہے۔
سعودی عرب ایٹمی پلانٹ حاصل کرنے کی خواہش کا برملا اظہار کئی بار کرچکا ہے تاہم ابھی تک یہ نہیں معلوم ہوسکا کہ سعودی عرب ایٹمی پلانٹ کی نگرانی کا کیا انتظام کررہا ہے۔

ایٹمی اسلحہ میں تخفیف کے ماہرین ایٹمی پلانٹ کی تعمیرکا پتہ دینے والی تصاویر کو سعودی عرب کے اعلی عہدیداروں کے ان بیانات کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں جن میں کہا گیا تھا  کہ سعودی عرب ایٹمی طاقت بننے کی کوشش کرسکتا ہے۔ ایک برس قبل ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے  کہا تھا کہ  اگر ایران  ایٹمی طاقت بنا تو سعودی عرب جلد ہی ایٹم بم بنالے گا۔
جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں ایٹمی اسلحہ کے عدم پھیلائو کے امور کی اسکالر اور سفارتکار  شارون سیکسونی نے کہا ہے کہ ان دنوں واشنگٹن میں یہ سوال زیر بحث ہے کہ کیا سعودی عرب کے پاس ایٹم بم ہے؟
 ایٹمی پروگرام پر توجہ  اس لئے بھی بڑھ گئی ہے کیونکہ امریکی کانگریس نے مملکت کو حساس ٹیکنالوجی کی غیر قانونی فراہمی کے امکان پر تحقیقات شروع کردی ہے۔گزشتہ ہفتے ہی امریکی سرکاری احتساب کا  ادارہ بھی اس میں شامل ہوگیا ہے۔اس سے تحقیقات کے عمل میں سنجیدگی بڑھ گئی ہے۔امریکہ کا ایک نگراں وفاقی ادارہ اس امر کا پتہ لگا رہا ہے کہ آیا ۔ سعودی عرب ، ارجنٹائن کے توسط سے  (آئی این وی اے پی ایس ای )کی فروخت حاصل کرچکا ہے۔ اطلاع یہ ہے کہ کمپنی یہ کام کرچکی ہے اور امسال اسے چلانے کی تیاری کررہی ہے۔یہ تقریباً 10میٹر اونچی ہے اور 2.7میٹر اسکا قطر ہے۔ رابرٹ کلی کے مطابق یہ ریسرچ پلانٹ کی خصوصیات کے عین مطابق ہے۔ 

ایٹمی توانائی کی عالمی ایجنسی میں تعینات ارجنٹائن کے ایلچی رفائل ماریانو گروسی نے کہا ہے کہ سعودی عرب کو ایٹمی ایندھن حاصل کرنے سے قبل اضافی تدابیر کرنا ہونگی اور مکمل ضمانتوں کے معاہدے پر دستخط کرنا ہونگے۔ ایک ماہ کے دوران ایٹمی توانائی کی عالمی ایجنسی کے عہدیداروں نے سعود ی عرب سے اس قسم کا مطالبہ دوسری بار کیا ہے۔ مملکت سے کہا جارہا ہے کہ وہ ایٹمی پروگرام میں آگے بڑھنے سے قبل اسے  زیادہ  سخت بین الاقوامی ضوابط کی پابندی کرنا ہوگی۔

شیئر: