سائنسدانوں کوایک صدی سے کشمکش میں مبتلا رکھنے والے کائنات کے سب سے بڑے راز بلیک ہول کی پہلی تصویر جاری ہونے کے بعد اسے سائنسدانوں کی بڑی کامیابی قرار دیاجارہا ہے۔اس سے قبل بلیک ہول کی حقیقی شکل سے متعلق اندازے قائم کئے جاتے تھے، یہ پہلی بار ہے کہ سائنسدان کسی بلیک ہول کی تصویر لینے میں کامیاب ہوسکے ہیں جس سے کائنات کے اس راز کو سمجھنے میں مدد مل سکے گی۔

اس کامیابی کا سہرا محققین کی اس ٹیم کے سر ہے جس میں کیتھرین بومن نامی ایک خاتون محقق پیش پیش تھیں۔
کیتھرین یا کیٹی بومن نے تین محققین کی ٹیم کے ساتھ مل کر ریاضی اورکمپیوٹر کا ایک فارمولابنایا جس کی مدد سے بلیک ہول کی تصویر حاصل ہو سکی۔ اس ٹیم نے ہزاروں ہارڈ ڈرائیوز میں جمع ڈیٹا کا استعمال کیا اور آٹھ دوربینوں سے تصاویر اکھٹی کر کے بلیک ہول کی پہلی تصویر پیش کی۔
بلیک ہول کی پہلی تصویر انٹرنیٹ پر تو ایک روز قبل جاری کی گئی مگر کیٹی بومن اور ان کی ٹیم نے گذشتہ برس جون میں اس کے لیے سسٹم کو سگنل بھیج رکھے تھے۔
بدھ کو کیٹی بومن کی سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی تصویر نے انہیں لڑکیوں کے لیے ایک مثالی شخصیت بنا دیا ہے کیونکہ تحقیق کے مطابق دنیا بھر کے محققین میں خواتین کی شرح صرف 30% ہے۔
’صرف لیبارٹری میں بیٹھ کر تاریں جوڑناانجینئرنگ نہیں‘
بلیک ہول کے لیے استعمال ہونے والے فارمولے پر کیٹی بومن نے تین سال قبل کام شروع کیا۔ اس وقت وہ میساچوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں طالبِ علم تھیں۔اس کے علاوہ انہوں نے الیکٹریکل انجنئیرنگ اور کمپیوٹر کی تعلیم میں بھی ڈگریاں حاصل کی ہیں۔
29سالہ بومن جب وہ چھ سال قبل اس ٹیم کا حصہ بنیں فلکیات میں مہارت رکھتی ہیں نہ ہی انہیں بلیک ہول کے بارے میں خاص علم تھا۔ وہ کمپیوٹر سائنس اور انجینئرنگ کے شعبے سے وابستہ رہی ہیں، وہ اس وقت اس پراجیکٹ کاحصہ بنیں جب وہ ایم فل کرنے جارہی تھیں۔
انہوں نے میساچوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے کمپیوٹر سائنس اور آرٹیفیشل انٹیلیجنس لیبارٹری ، ہیسٹیک آبزرویٹری اور ہارورڈ سمتھسونین سینٹر فار ایسٹروفزکس میں گذشتہ کئی سالوں تک کام کیا ہے، جس کے وجہ سے وہ فارمولے کو شکل دے سکیں۔









