Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

افغان خواتین کی ’ریڈ لائن‘ کیا ہے؟

افغانستان کی خواتین ان دنوں سوشل میڈیا پر ’مائی ریڈ لائن‘ یعنی ’میری آخری حد‘ کے ہیش ٹیگ کے ساتھ ایک مہم چلا رہی ہیں جس کا مقصد حکومت، طالبان اور امریکہ پر دباو ڈالنا ہے کہ حالیہ امن مذاکرات کے دوران خواتین کے بڑی مشکل سے حاصل کئے گئے سماجی مقام کو پس پشت نہ ڈالا جائے۔

اس مہم کا حصہ بنتے ہوئے افغان سائیکلنگ ٹیم کی رکن کبریٰ شمیم نے فیس بک پر لکھا ہے کہ امریکہ طالبان کے ساتھ امن معاہدہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ طالبان کے دوبارہ حکومت میں آنے کی صورت میں خواتین کا کھیلوں میں حصہ لینا ’ریڈ لائن‘ ہوگا۔ 

کابل کی گلیوں میں سائیکل چلانے کی تیاری کرتے ہوئے کبریٰ نے اے ایف پی کو بتایا کہ ”امن معاہدے کے نتیجے میں اگر طالبان حکومت میں واپس آتے ہیں تو ہمیں تعلیم حاصل کرنے اور کھیلوں میں حصہ لینے کا حق نہیں دیا جائے گا۔ حتیٰ کہ ہمارے گھروں سے نکلنے پر بھی پابندی عائد کر دی جائے گی۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’ہم امن چاہتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہم کھیلوں اور سائیکلنگ میں بھی حصہ لینا چاہتے ہیں۔‘ 
سابق سیاستدان فرخندہ زہرہ نادری نے اپنے ٹویٹ میں لکھا ہے کہ ’ملک میں خواتین رہنماوں کی حفاظت پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے۔‘
دوسری طرف سماجی کارکن سمیرا حامدی نے مطالبہ کیا کہ خواتین کو امن مذاکرات میں شامل کیا جائے۔
خواتین کی فلاح کے لیے کام کرنے والے اقوام متحدہ کے ادارے ’یو این وومن‘ کے تعاون سے 'مائی ریڈ لائن' مہم شروع کرنے والے صحافی اور سرگرم سماجی کارکن فرح ناز نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میری ریڈ لائن میری پنسل اور اظہار رائے کی آزادی ہے۔‘
ان کے بقول ”اگر امن ملک کے کونے کونے میں موجود جنگ کے تمام متاثرین کو سماجی انصاف نہیں دلاتا تو پھر یہ مستحکم امن نہیں ہوگا۔ 
فرح کے بقول گزشتہ ماہ شروع کی گئی مہم ”مائی ریڈ لائن‘ کے ہیش ٹیگ کو اب تک ہزاروں صارفین شیئر کرچکے ہیں حتی کہ افغان صدر نے بھی اپنے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ امن کی کوششوں میں خواتین کے حقوق ان کی 'ریڈ لائن' ہے۔
فیس بک پر یہ مہم انگریزی کے علاوہ پشتو اور دری زبانوں میں بھی چل رہی ہے۔ 
خیال رہے کہ 2001ء میں افغانستان میں طالبان حکومت کے خاتمے سے قبل ملک میں تقریباً پانچ سال تک اسلامی شرعی قوانین نافذ تھے۔ اس عرصے میں خواتین کے لئے برقعہ پہننا لازمی تھا اور وہ گھروں تک محدود ہو کر رہ گئی تھیں۔
فرح کے مطابق طالبان کے دور میں خواتین معاشرتی طور پر سب سے زیادہ غیر محفوظ تھیں۔
واضح رہے کہ رواں برس فروری میں طالبان اور افغان حکومتی نمائندوں کے درمیان روس کے شہر ماسکو میں ہونے والے غیر رسمی امن مذاکرات میں دو افغان خواتین کو بھی مدعو کیا گیا تھا تاہم خواتین کی نمائندگی انتہائی کم تھی۔ 
اسی طرح رواں ماہ قطر کے شہر دوحہ میں طے شدہ بین الافغان کانفرنس میں بھی خواتین کو مدعو کیا جانا تھا تاہم یہ کانفرنس شرکا ءکی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے ملتوی ہو گئی اور اب تک طے نہیں ہوا کہ کانفرنس دوبارہ کب ہوگی۔

شیئر: