Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فوجی ترجمان کی جذباتی پریس کانفرنس۔۔کیا وردی والے انسان نہیں؟

٭٭٭ وسیم عباسی ٭٭٭
 
پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور کی سوموار کی پریس کانفرنس جذباتی اور جامع ہونے کی وجہ سے یاد رکھی جائے گی جس میں ایک مرحلے پر ایسا محسوس ہورہا تھا کہ فوج کے خلاف پروپیگنڈے پر ان کی آواز بھرا گئی ہے۔
تاہم یہ محض ایک جذباتی پریس کانفرنس نہ تھی بلکہ اس میں چارموضوعات پرانتہائی جامع اور مفصل گفتگو کی گئی تھی جس کی وجہ سے اس کا دورانیہ2گھنٹے تک پہنچ گیا تھا۔ان موضوعات میں انڈیا کے حالات، ملکی سلامتی کی صورتحال، مدرسہ اصلاحات اور پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) شامل تھے۔
انڈیا کے ساتھ حال ہی میں کشمیر میں ہونے والے پلوامہ حملے کے بعد ہ تناﺅ میں پاکستان کی افواج کی واضحی برتری کا زکر کرتے ہوئے میجر جنرل آصف غفورنے امن کی واضح پیش کش کی اور چین کے ساتھ ترقیاتی منصوبے سی پیک کو انڈیا کے ساتھ مل کر آگے بڑھانے کی خواہش کا اظہار کیا جو بیشتر صحافیوں کے لیے حیرت انگیز تھا۔۔شاید یہ پہلا موقع تھا کہ افواج پاکستان کی طرف سے کھل کر انڈیا کے ساتھ تجارتی راہداری کی کھل کر بات کی گئی تھی۔تاہم یہ سب کشمیر کے مسئلے کے حل کے ساتھ مشروط کیا گیا تھا۔
ملکی سلامتی کے معاملے پر بات کرتے ہوئے ترجمان نے تاریخی حوالوں سے واضح کیا کہ پاکستان کی موجودہ بدتر اقتصادی اور سماجی حالت کی زمہ داری جمہوری حکومتوں اور آمروں پر یکساں طور پر عائد ہوتی ہے۔
  • میڈیا آزاد ہوتا تو ملک نہ ٹوٹتا
شاید یہ پہلا موقع تھا کہ افواج پاکستان کے ایک حاضر سروس نے یہ تسلیم کیا کہ1971ءمیں میڈیا پر ایسی قدغنیں تھیں کہ وہ آزادانہ طور پر کام کرنے سے قاصر تھا۔انہوں نے اس حد تک کہا کہ اگرمیڈیا آزاد ہوتا تو شاید ملک نہ ٹوٹتا۔ 
ترجمان پاک فوج کا کہنا تھا کہ آج کے حالات مختلف ہیں نہ فوج سن اکہتر جیسی ہے نہ میڈیا۔۔ان کا کہنا تھا کہ میڈیا کو فوج کی رہنمائی کرنا چاہیے اور اسکی آنکھیں اور کان بن جانا چاہیئے۔ میڈیا کے حوالے سے ان کی گفتگو کے چند حصے عام لوگوں کے لیے انکشاف کی حثیئت رکھتے تھے۔۔جیسا کہ ان کا یہ کہنا کہ وہ مالکان اور اینکرز سے بات کرتے رہیتے ہیں اور انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ اگرہفتے میں ایک دن انہیں میڈیا کا کنٹرول دیا جائے تو وہ اہم معاشرتی مسائل جیسے عدالتی اصلاحات، تعلیمی اصلاحات اور دیگر امور پر ماہرین سے بحث کروائیں تاکہ قوم کی رہنمائی ہو۔۔انہوں نے معنی خیز انداز میں اشارہ کیا کہ ”میڈیا صاحب اور صاحبہ“ کی بحث سے نکلے تو اور معاملات پر بات کرتے۔یاد رہے کہ وزیراعظم عمران خان کی طرف سے گزشتہ دنوں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کو صاحبہ کہنے پر پاکستانی میڈیا پر کئی دن بحث چلتی رہی تھی۔
  • مدرسہ اصلاحات کا جامع پلان
ملک میں شدت پسندی کے خاتمے پر بات کرتے ہوئے انہوں نے مدرسہ اصلاحات کے حوالے سے اعدادوشمار پیش کرکےایک انتہائی جامع حل پیش کیا۔اگرچہ فی الحال یہ واضح نہیں کہ علمائے کرام اور مدارس کے زمہ داروں کی جانب سے کتنا تعاون کیا جائے گا مگر اصلاحات کا یہ پروگرام اگر اسی طرح سے نافذ ہو گیا تو شاید ملک کا ایک بڑا مسئلہ ہو جائے اور نہ صرف25 لاکھ مدرسہ طلبا کے لیے روزگار کے زیادہ مواقع پیدا ہو ں گے بلکہ ملک کو علما کی ایسی کھیپ بھی ملے گی جو عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق اسلام سے دنیا کو روشناس کروا سکیں گے۔ 
پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کو انڈیا اور افغانستان کے خفیہ اداروں کی مبینہ فنڈنگ کے حوالے سے سوالات اٹھاتے ہوئے افواج پاکستان کے ترجمان نے واضح وارننگ دی کہ اگر الزامات درست ثابت ہوئے تو پی ٹی ایم کی قیادت کو سزا دی جائے گی۔اس موقع پر پی ٹی ایم کی طرف سے سوشل میڈیا پر اپنے اور آرمی چیف کے خلاف پروپیگنڈے کا زکر کرتے ہوئے میجر جنرل آصف غفور جذباتی ہوگئے۔“ کیا آپ نے دیکھا ہے کہ میری اور آرمی چیف (جنرل قمر جاوید باجوہ) کی کیسی تصاویر سوشل میڈیا پر پھیلائی جاتی ہیں؟ کیا ہم انسان نہیں؟ کیا ہماری رگوں میں سرخ خون نہیں دوڑتا؟ مگر ہم برداشت کرتے ہیں ہمارے سامنے اور بڑے مسئلے ہیں۔ملک کا دفاع ہے۔“
  • کیا آئین اور قانون صرف فوج کے لیے ہیں ؟ 
انہوں نے ایک سوال کرنے والے صحافی سے پوچھا کہ آپ کا چھوٹا بھائی فوج میں ہو اور وہ شہید ہو جائے اور اس کے بعد آپ کو اس طرح کے نعرے سننے کو ملیں تو آپ کے کیا جذبات ہوں گے۔
پریس کانفرنس کے بعد ایک صحافی نے تبصرہ کیا کہ ترجمان کے لہجے سے لگ رہا تھا کہ ہم باہر نکلیں گے تو ہمیں پی ٹی ایم کے خلاف آپریشن شروع ہونے کی خبر ملے گی تاہم ایسا کچھ نہ تھا۔ جیسا کہ ترجمان نے کہا تھاکہ پی ٹی ایم کے خلاف تمام کاروائی قانون کے مطابق ہو گی لگتا ہے قانون جلد حرکت میں لایا جائے گا۔۔ ترجمان نے کہا تھا کہ پی ٹی ایم قیادت آئین اور قانون کے برعکس فوج اور اداروں کے خلاف کام کر رہی ہے۔۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا آئین اور قانون صرف فوج کے لیے ہے؟

شیئر: