Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’کالعدم تنظیموں کے تحویل شدہ خیراتی ادارے چلانے کا واضح پلان نہیں‘

 
حکومت پنجاب کے پا س کالعدم تنظیموں کے تحویل شدہ خیراتی ادارے چلانے کا کوئی واضح منصوبہ نہیں ہے  
عرب نیوز کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق حکوت پنجاب کے پاس خیراتی اداروں کے وسیع نیٹ ورک کو چلانے کے لیے افرادی قوت اور فنڈز موجود نہیں ہیں۔
رواں برس پاکستان نے شدت پسند گروہوں کے خلاف کارروائی کا آغاز کرتے ہوئے صوبہ پنجاب میں نہ صرف سینکڑوں لوگ گرفتار کیے تھے بلکہ ان  گروہوں سے منسلک خیراتی اداروں کا وسیع نیٹ ورک بھی اپنی تحویل میں لیا تھا۔  
حکومت نے شدت پسند گروہوں سے ملحقہ مختلف دفاتر، مدارس، ڈسپنسریاں، ہسپتال اور ایمبولینسیں بھی تحویل میں لی تھیں۔ 
وزارت داخلہ کے مطابق کالعدم تنظیموں کے 200 کے قریب مدارس، 34 سکول اور کالج، 163 ڈسپنسریاں، 184 ایمبولینسیں،5 ہسپتال اور 8 دفاتر بند کیے گئے ہیں۔ 
صوبہ پنجاب کے ان اقدامات کے تین ماہ بعد عرب نیوز کی ٹیم کے صوبائی حکام کے ساتھ کیے جانے والے انٹرویوز میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ حکومت کے پاس اس وسیع نوعیت کے انفراسٹرکچر کو چلانے کا نہ تو کوئی واضح پلان ہے اور نہ ہی وسائل۔
صوبہ پنجاب کے اوقاف اور مذہبی امور کے وزیر پیر سعیدالحسن شاہ نے ضبط کیے گئے سکولوں اور کالجوں کو چلانے کے حوالے سے کہا کہ’ابھی تک کوئی واضح طریقہ کار مرتب نہیں کیا گیا، اس سلسلے میں پالیسی ابھی بن رہی ہے۔‘
عرب نیوز کو دیے گئے انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ تحویل شدہ اداروں کا انتظام سنبھالنے کے لیے وزارت کے پاس افسران اورعملے کی کمی ہے۔ 
اداروں کا انتظام سنبھالنے کے علاوہ، حکومت نے ان اداروں میں کام کرنے والے افراد کا حکومتی اداروں میں ایڈجسٹ کرنے کی بھی یقین دہانی کرائی تھی۔ تاہم ابھی تک یہ واضح نہیں کہ ان گروہوں سے منسلک رضا کاروں اور کارکنان کی بڑی تعداد کے لیے کس طرح سے سرکاری اداروں میں ملازمت کے مواقع پیدا کیے جا سکیں گے۔
کالعدم تنظیم جماعت الدعوہ کے ہیڈ کوارٹر میں 400 کے قریب لوگ کام کرتے تھے، جبکہ پورے ملک میں اس تنظیم کے 50000 سے زیادہ رضا کار اور کارکن ہیں۔ 
اسی طرح سے دوسرے گروہوں کے ساتھ بھی ایک بڑی تعداد میں کارکنان اوررضاکار منسلک تھے۔
صوبائی وزیرقانون راجہ بشارت نے بتایا کہ محکمہ خزانہ کی طرف سے ایک سال کے لیے بھاری رقم پر مبنی بجٹ مختص ہوا ہے تاہم انہوں نے درست اعداد وشماردینے سے گریز کیا۔
صوبائی وزیر نے مزید کہا کہ تحویل شدہ اداروں میں سے صحت سے منسلک اداروں کا انتظام وزارت صحت چلائے گی، سکولوں کا نتظام وزارت تعلیم کے پاس جائے گا، اور مدارس وزارت اوقاف اور مذہبی امور کی ذمہ داری ہوں گے، جبکہ ایمبولینسیں ریسکیو 1122 کو دے دی جائیں گی۔
رواں مہینے میں حکومت قومی بجٹ پیش کرنے جا رہی ہے لیکن ابھی تک واضح نہیں کہ اس بجٹ میں ضبط شدہ مدارس اور دوسرے انفراسٹرکچر لے لیے فنڈز مختص کیے جائیں گے یا نہیں۔
ضبط شدہ سکولوں کے بارے میں عرب نیوز کی جانب سے بار بار رابطے پر وزیر تعلیم نے کوئی جواب نہیں دیا تاہم  وزارت تعلیم کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ضبط شدہ سکولوں کے بارے میں ایک پالیسی بنائی جارہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’مدارس ہماری تحویل میں دیے جاچکے ہیں، ہم فی الحال ان مدارس کی نگرانی کر رہے ہیں، موجودہ عملہ وہاں کام کر رہا ہے اور جب تک  پالیسی نہیں بنتی اور بجٹ مختص نہیں ہوتا، یہ ایسے ہی چلتے رہیں گے۔‘
صوبہ پنجاب میں کالعدم تنظیم جماعت الدعوہ کے کئی مراکز بند کیے گئے ہیں یہ واضح نہیں کہ یہ کب کام شروع کریں گے، اسلام آباد میں بھی اس تنظیم کی ایک ڈسپنسری بند کی جاچکی ہے۔
اس ڈسپنسری کے ایک محافظ کا کہنا تھا کہ ’لوگ معمول کے مطابق آتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ یہ ڈسپنسری کب کھلے گی، لیکن میرے پاس ان کے لیے کچھ جواب نہیں ہوتا۔‘
اس سلسلے میں عرب نیوز نے وزیر صحت سے جماعت الدعوہ کے اس انفراسٹرکچر پرجاننے کی کوشش کی لیکن ان کی طرف سے بھی جواب نہیں آیا۔
انڈیا میں شدت پسند گروہوں کی طرف سے حملوں کے بعد پاکستان کو عالمی طاقتوں کی جانب سے دباؤ کا سامنا ہے۔ گذشتہ 14 فروری کو انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے پلوامہ علاقے میں اس حملے کی ذمہ داری کلعدم تنظیم جیش محمد نے قبول کی تھی جس میں انڈیا کے 40 فوجی ہلاک ہوئے تھے۔
اس حملے کے نتیجے میں اس ہفتے اقوام متحدہ کے سلامتی کونسل کی ایک کمیٹی نے  جیش محمد کے سربراہ مسعود اظہر کو بلیک لسٹ کیا ہے اور ان کے اثاثے منجمد کرنے کے ساتھ ان پر سفری پابندیاں بھی عائد کی ہیں۔
 

شیئر: