Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

محمود اچکزئی کی بطور اپوزیشن لیڈر نامزدگی، عمران خان کی مجبوری یا سیاسی چال؟

’محمود اچکزئی اپنی پارٹی کے واحد رکن قومی اسمبلی ہیں لیکن اب وہ لگ بھگ 90 ارکان کی قیادت کریں گے‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان نے 9 مئی کے مقدمات میں سزا اور نااہلی کے بعد قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف عمر ایوب خان کی جگہ اپنی پارٹی کے کسی رکن کے بجائے قوم پرست جماعت پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی کو نامزد کیا ہے۔
محمود اچکزئی اگرچہ پی ٹی آئی کے اتحادی ہیں مگر ان کی جماعت کے پاس قومی اسمبلی میں صرف ایک نشست ہے۔اس کے مقابلے میں پی ٹی آئی کی قومی اسمبلی میں ارکان کی تعداد 80 سے زائد ہیں۔
یہ فیصلہ بظاہر غیر روایتی دکھائی دیتا ہے لیکن سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق اس کے پیچھے کئی وجوہات اور سیاسی حکمتِ عملی کارفرما ہے جس سے عمران خان اور پی ٹی آئی کے ساتھ ساتھ محمود خان اچکزئی اور اُن کی جماعت کو بھی فائدہ پہنچے گا۔
پشاور کے سینیئر صحافی اور تجزیہ کار لحاظ علی کے مطابق ’پی ٹی آئی میں قیادت کا فقدان ہے اور بحرانی کیفیت میں پارٹی کا ڈھانچہ کارگر ثابت نہیں ہو رہا۔‘ 
ان کا کہنا ہے کہ ’موجودہ رہنما کسی بڑے فیصلے کی صلاحیت نہیں رکھتے اور وہ ہمیشہ عمران خان پر انحصار کرتے رہے ہیں۔‘
’ایسے میں عمران خان، محمود خان اچکزئی کو نامزد کر کے ایک تجربہ کار سیاسی چہرہ سامنے لائے ہیں جنہیں دیگر جماعتیں بھی اہمیت دیتی ہیں۔‘
 انہوں ںے مزید کہا کہ ’یہ فیصلہ حکومت یا اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مستقبل کے مذاکرات اور سیاسی معاملات میں بھی پی ٹی آئی کے لیے کارآمد ثابت ہوگا۔‘
لحاظ علی کا کہتے ہیں کہ اس فیصلے سے پی ٹی آئی یہ تاثر بھی دینا چاہتی ہے کہ وہ جمہوری جماعت ہے جو اپنی اکثریت کے باوجود ایک نشست رکھنے والے اتحادی کو اپوزیشن لیڈر بنا رہی ہے۔ اس طرح وہ سیاسی وسعت کا مظاہرہ کر رہی ہے۔
بلوچستان کے سینیئر تجزیہ کار شہزادہ ذوالفقار سمجھتے ہیں کہ عمران خان کا یہ فیصلہ موجودہ سیاسی کھیل میں اچھی چال ہے، یہ فیصلہ پی ٹی آئی اور محمود خان اچکزئی دونوں کے لیے فائدہ ہوگا۔ 
’محمود خان اچکزئی اپنی جماعت کے قومی اسمبلی میں واحد رکن ہیں لیکن اب وہ لگ بھگ 90 ارکان پر مشتمل اپوزیشن اتحاد کی قیادت کریں گے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’محمود اچکزئی جمہوریت پسند، قربانیاں دینے والے اور قومی سطح پر پہچان رکھنے والے سیاسی رہنما ہیں، بہتر ہوتا کہ پی ٹی آئی انہیں ابتدا میں ہی اپوزیشن لیڈر نامزد کر دیتی۔‘
’وہ تحریکِ تحفظِ آئین پاکستان کے سربراہ بھی ہیں اور اس بیانیے کو موثر انداز میں آگے بڑھا سکتے تھے۔ محمود خان اچکزئی سیاسی طور پر ثابت قدم رہے ہیں اور اس لیے پی ٹی آئی کو یقین ہے کہ وہ اپوزیشن کو مضبوط کریں گے۔‘
شہزادہ ذوالفقار کے مطابق پی ٹی آئی کا یہ فیصلہ کسی حد تک مجبوری بھی تھا کیونکہ انہیں ایک مضبوط اور ثابت قدم رہنے والے شخص کی ضرورت تھی۔
’اگرچہ ماضی میں عمران خان، محمود خان اچکزئی پر تنقید اور طنز کرتے رہے مگر سیاست میں دُشمنی اور دوستی مستقل نہیں ہوتی۔ اسی طرح محمود اچکزئی بھی کبھی مسلم لیگ ن کے قریب تھے مگر آج فاصلے بڑھ گئے ہیں۔‘
کوئٹہ کے سینیئر صحافی اور تجزیہ کار سید علی شاہ کا کہنا ہے کہ ’تحریک انصاف اس وقت اندرونی تقسیم کا شکار ہے، عمران خان جیل میں ہیں جبکہ باقی قیادت کمزور ہے۔‘
’عمران خان کو جارحانہ بیانیے کی ضرورت ہے اور موجودہ قیادت اس میں ناکام رہی ہے۔ ایسے میں عمران خان کو اگر کسی پر اعتماد ہے تو وہ اپنی بہنوں اور محمود خان اچکزئی پر ہے کیونکہ وہ مسلسل اُن کی رہائی کے لیے مہم چلا رہے ہیں۔‘
ان کے مطابق ’عمران خان نے یہ فیصلہ سوچ سمجھ کر ہی کیا ہو گا تاکہ قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کی آواز مزید موثر ہو۔ اپوزیشن لیڈر کے طور پر محمود خان اچکزئی اگر عمران خان کی رہائی کو ایجنڈا بنائیں گے تو یہ پی ٹی آئی کے لیے بڑا سیاسی فائدہ ہو گا۔‘
اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے نامزدگی اور کامیابی سے محمود خان اچکزئی کو کیا فائدہ ہو گا؟ اس سلسلے میں لحاظ علی کی رائے ہے کہ ’سیاست میں خود کو توجہ کا مرکز بنانا بہت اہم ہوتا ہے، محمود خان اچکزئی اس حکمت عملی میں کامیاب رہے ہیں اور وہ بڑی جماعت سے جُڑ کر قومی سطح پر اپنی سیاسی اہمیت بڑھا رہے ہیں۔‘
’اس وقت محمود خان اچکزئی کی جماعت کی سیاسی قوت بلوچستان کے پشتون علاقوں تک محدود ہے، تاہم پی ٹی آئی کے پلیٹ فارم سے وہ نہ صرف پنجاب، خیبر پشتونخوا اور ملک کے دیگر علاقوں میں بھی اپنی مقبولیت بڑھا سکتے ہیں بلکہ آئندہ انتخابات میں پی ٹی آئی کی حمایت حاصل کرکے اپنے سیاسی مستقبل کو مستحکم کر سکتے ہیں۔ 
 سید علی شاہ بھی سمجھتے ہیں کہ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی ایک قوم پرست جماعت ہے اور اس کے سربراہ محمود خان اچکزئی مخصوص لسانی حلقے کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اپوزیشن لیڈر نامزد ہونے سے قومی سطح پر اُن کا سیاسی قد مزید بڑھے گا۔
’صرف ایک نشست رکھنے کے باوجود وہ پہلے اپوزیشن اتحاد کے صدارتی امیدوار بنے اور اب اپوزیشن لیڈر کی نامزدگی ان کے لیے وِن وِن سیچوایشن ہے۔‘
یہ پہلی بار نہیں کہ حزب اختلاف نے محمود خان اچکزئی کو اہم کردار دیا ہے۔ مارچ 2024 میں انہیں حزب اختلاف کے اتحاد کی جانب سے حکمران اتحاد کے آصف علی زرداری کے مقابلے میں صدارتی امیدوار بھی بنایا گیا تھا۔
اگرچہ اس وقت یہ علامتی فیصلہ تھا اور انہیں شکست ہوئی لیکن اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے اُن کی نامزدگی کو زیادہ اہم اور عملی سمجھا جا رہا ہے۔
اسی طرح اپریل 2024 میں اپوزیشن اتحاد ’تحریکِ تحفظ آئین پاکستان‘ تشکیل پایا جس کی قیادت بھی محمود خان اچکزئی کو سونپی گئی اور وہ اب بھی اس کے سربراہ ہیں۔
اس اتحاد میں تحریک انصاف اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے ساتھ ساتھ سنی اتحاد کونسل، مجلس وحدت المسلمین اور بلوچستان کی قوم پرست جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی بھی شامل ہیں۔
محمود خان اچکزئی گذشتہ پانچ دہائیوں سے سیاست میں سرگرم ہیں۔ وہ 12 دسمبر 1948 کو ضلع قلعہ عبداللہ کی تحصیل گلستان میں معروف قوم پرست رہنما عبدالصمد خان اچکزئی کے گھر پیدا ہوئے۔ انہوں نے پشاور سے میکنیکل انجینیئرنگ کی تعلیم حاصل کر رکھی ہے۔
ان کے والد نے انگریز دور اور قیام پاکستان کے بعد سیاسی جدوجہد کے دوران طویل عرصہ جیل کاٹی۔ وہ ایوب خان کے تقریباً پورے دور میں جیل میں قید رہے۔ 
عبدالصمد خان اچکزئی نے نیشنل عوامی پارٹی سے اختلافات کے بعد پشتونخوا نیشنل عوامی پارٹی کے نام سے نئی جماعت کی بنیاد رکھی۔ والد کے قتل کے بعد 1973 میں نوجوانی میں ہی محمود خان اچکزئی نے پارٹی کی قیادت سنبھال لی۔
وہ ایک بار صوبائی اور پانچ بار قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہو چکے ہیں۔اُن کے بھائی محمد خان اچکزئی بلوچستان کے گورنر رہ چکے ہیں جبکہ چھوٹے بھائی حامد خان اچکزئی قومی اور صوبائی اسمبلی کے رکن رہے۔
پشتونخوا ملی عوامی پارٹی بلوچستان کے پشتون اکثریتی علاقوں اور خیبر پشتونخوا کے کچھ علاقوں میں اثر رکھتی ہے۔ محمود خان اچکزئی ضیا الحق کے دور میں افغانستان میں کئی برسوں تک جلاوطن بھی رہے۔ وہ جمہوریت اور پارلیمنٹ کی بالادستی کے مضبوط حامی سمجھے جاتے ہیں۔
سنہ 1990 کی دہائی میں وہ نواز شریف کے سخت مخالف تھے لیکن بعد میں اُن کے اتحادی بن گئے اور فوجی آمر پرویز مشرف کے خلاف مشترکہ جدوجہد کی۔ 2013 کے انتخابات کے بعد وہ مسلم لیگ ن کے ساتھ مرکز اور بلوچستان کی حکومتوں میں اتحادی بھی رہے۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ محمود خان اچکزئی ماضی میں بھی عمران خان کے اتحادی رہے۔ دونوں نے اے پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے 2008 کے انتخابات کا ایک ساتھ بائیکاٹ کیا۔ 
پھر مسلم لیگ ن کی حکومت کا ساتھ دینے پر عمران خان، محمود اچکزئی کے ناقد بن گئے۔ اُن پر کرپشن اور اقرباپروری کے الزامات لگاتے رہے اور عوامی جلسوں میں اُن کی نقلیں تک اُتارتے رہے۔
محمود خان اچکزئی 2022 تک موجودہ حکمران جماعتوں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے ساتھ اپوزیشن اتحاد میں عمران خان کی حکومت کے خلاف سیاسی جدوجہد کرتے رہے، تاہم 2022 میں عمران خان کی حکومت کی برطرفی اور گرفتاری کے بعد سیاسی حریف ایک بار پھر اتحادی بن گئے۔
محمود خان اچکزئی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کے اس وقت بھی مسلم لیگ ن کے سربراہ اور سابق وزیراعظم نوازشریف سے تعلقات خراب نہیں ہوئے۔
 وہ مسلم لیگ ن یا وزیراعظم شہباز شریف پر تو تنقید کرتے ہیں لیکن تحریک انصاف سے قُربت کے باوجود نواز شریف کا نام لے کر اُن پر تنقید نہیں کرتے۔
سیاست میں مختلف جماعتوں سے قُربت اور فاصلے اختیار کرنے سے متعلق پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سیکریٹری جنرل عبدالرحیم زیارتوال کا کہنا ہے کہ ہماری جماعت کا ہمیشہ یہ موقف رہا ہے کہ پارلیمنٹ کی خودمختاری، آئین کی بالادستی اور عوامی حق حکمرانی کو یقینی بنایا جائے۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ ہم نے ہمیشہ ان قوتوں کا ساتھ دیا ہے جو آئین اور جمہوریت کی بات کرتی ہیں۔ ماضی میں ہم اسی بنیاد پر مسلم لیگ ن کے اتحادی رہے۔ 
’آج تحریک انصاف بھی اسی راستے پر ہے اور اسی لیے ہم اُس کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ہمارا موقف نہیں بدلا، باقی جماعتیں وقت کے ساتھ اپنا موقف بدلتی رہتی ہیں۔‘

 

شیئر: