Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایران: جوہری معاہدے پر عملدرآمد روکنے کی دھمکی

ایران نے کہا ہے کہ وہ عالمی طاقتوں کے ساتھ ہونے والے جوہری  معاہدے کے تحت  کیمیائی سرگرمیوں پر عائد کچھ پابندیوں پر عملدرآمد روک دے گا۔
چین نے امریکہ کی جانب سے ایران کے ساتھ نیوکلیئر معاہدے کو ختم کرنے کی مخالفت کی ہے، جب کہ اسرائیل نے کہا ہے وہ ایران کو ایٹمی ہتھیار حاصل نہیں کرنے دے گا۔
روس کے دورے پر موجود ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے کہا کہ ایران کے جوابی اقدامات نیوکلئیر ڈیل کی خلاف ورزی نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کے انسپکٹرز تواتر سے ایران کی جانب سے ڈیل پر عملدرآمد کے سرٹیفکیٹ جاری کرتے رہے ہیں۔
 ظریف نے ایران کے سرکاری ٹی وی کو بتایا کہ ڈیل کے تحت ایران کی جانب سے رضاکارانہ طور پر کیے جانے والے اقدامات پر عملدرآمد روک دیا ہے۔
ایران کا کہنا ہے کہ جب تک 2015 کی تاریخی نیوکلیئر ڈیل کے دیگر فریق امریکی پابندیوں کوبائی پاس کرنے میں ایران کی مدد نہیں کرتے تو وہ ڈیل کی کچھ شرائط پرعملدرآمد روک دے گا۔
ایران کا تازہ ترین اقدام امریکہ کی جانب سے نیوکلئیر معاہدے سے نکلنے اور گذشتہ ایک سال کے دوران لگائی جانے والی یک طرفہ امریکی پابندیوں کے خلاف ردعمل کا حصہ ہے۔ امریکی پابندیوں سے ایران کی معیشت پرشدید برے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
اپران نے دھمکی دی ہے کہ اگر نیوکلئیر ڈیل کے دوسرے فریقین، برطانیہ، چین، جرمنی، فرانس اورروس کی جانب سے طے شدہ وعدوں پرعملدرآمد نہیں ہوتا تو ایران ڈیل کی کچھ شرائط پرعملدرآمد روک دے گا۔
چین نے بدھ کو ایرانی بیان کےردعمل میں کہا ہے وہ امریکہ کی ایران پرعائد کی جانے والی یک طرفہ پابندیوں کی سختی سے مخالفت کرتا ہے اورچین نے تمام فریقین پر زور دیا ہے کہ وہ ایران کے ساتھ ہونے والے نیوکلیئر معاہدے پر قائم رہیں۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق چینی وزارت خارجہ کے ترجمان گنگ شوانگ نے کہا ہے کہ’جامع معاہدے کو قائم رکھنا اور اس پر عمل درآمد کرنا تمام فریقین کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔‘
دوسری طرف اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نتن یاہو نے کہا ہے کہ وہ ایران کو نیوکلیئر ہتھیار بنانے کی اجازت نہیں دیں گے۔
 اے ایف پی کے مطابق اسرائیلی وزیراعظم نے بدھ کو ایک تقریب سے عبرانی زبان میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ’آج صبح راستے میں مجھے خبر ملی کہ ایران اپنے ایٹمی پروگرام کو جاری رکھنا چاہتا ہے۔‘ انہوں نے کہا کہ’ہم ایران کو جوہری ہتھیارحاصل نہیں کرنے دیں گے۔‘
ایران کی سپریم نیشنل کونسل کا کہنا ہے کہ ایران کے اعلان کردہ اقدامات اس  کو اپنے حق کے حصول اور امریکہ کی جانب سے معاہدے سے نکلنے کے بعد لگائی جانے والی یک طرفہ پابندیوں کے بعد اس میں توازن لانے کے لیے ضروری ہیں۔

ایران کی جانب سے یہ ردعمل ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکہ کی ایران کے ساتھ لفظی جنگ میں تیزی آئی ہے اور امریکی سیکٹری خارجہ مائیک پومپیو نے ہنگامی دورے پر عراق پہنچنے کے بعد الزام لگایا کہ ایران حملوں کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔
حال ہی میں امریکہ کی جانب سے جنگی بیڑے کی مشرق وسطیٰ میں تعیناتی سے بھی حالیہ کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے پیش رو باراک اوبامہ کی جانب سے کیے گئے 2015 کے تاریخی معاہدے  کے تحت معاہدے کے چھ فریقین کی جانب سے ایران پر ایٹمی ہتھیاروں کی مبینہ تیاری کی کوشش کے سلسلے میں لگنے والی پابندیوں کو اٹھایا جانا تھا۔
تاہم معاہدے کے تحت پابندیوں کو اٹھانے کے وعدے فوری طور پر پورے نہیں ہو سکے کیونکہ یورپی اور ایشیائی بینکوں اور تیل کی کمپنیوں نے فوری طور پر امریکہ کی تازہ ترین پابندیوں پر عملدرآمد شروع کر دیا۔ عدم پابندی کی صورت میں بینکوں اور کمپنیوں کو امریکی کارروائی کا خدشہ تھا۔
ایران کی سپریم نیشنل کونسل کا کہنا ہے کہ ' اس سٹیچ پر ایران اپنے آپ کو افزودہ یورینیم اور 'بھاری پانی' جمع کرنے پر پابندی کے حوالے سے شرائط کا پابند نہیں سمجھتا۔'
بیان میں کہا گیا ہے کہ 'ڈیل کے باقی فریقین کو اپنے حصے کے وعدوں خصوصاً بینکنگ اور تیل کی فیلڈ سے متعلق وعدوں کو پورا کرنے کے لیے60 دن کا وقت دیا جاتا ہے۔ اگلے مرحلے میں ایران یورینیم کی افزودگی کے لیول اور ارک ہیوی واٹر ری ایکٹر کو جدید بنانے کے حوالے سے پابندیوں پر عملدرآمد بھی چھوڑ دے گا۔'

ڈیل کے تحت ایران 3.67 فیصد سے زیادہ یورینیم پیدا نہیں کر سکتا تھا۔ خیال رہے3.67 فیصد تک افزودہ یورینیم عموماً توانائی پیدا کرنے کیے لیے استعمال ہوتی ہے۔
کونسل کا کہنا ہے کہ ایران ڈیل کے تحت اپنے وعدوں پر عمل اس لیول تک کرے گا جس لیول تک ڈیل کے دوسرے فریق اپنے وعدوں کو نبھائیں گے۔
کونسل نے پانچ طاقنوں کو متنبہ کیا ہے کہ وہ ڈیل کو بچانے کے لیے فوری اقدامات کریں۔ 'سفارت کاری کے لیے جو کھڑکی ابھی تک کھلی ہے وہ دیر تک کھلی نہیں رہے گی اور ڈیل کی ممکنہ ناکامی اور اس کے نتائج کی تمام ذمہ داری امریکہ اور باقی فریقین پر ہوگی۔'
 
   

شیئر: