Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان میں ڈالر کی بڑھتی قیمت، وجوہات کیا ہیں؟

"موجودہ صورتحال میں روپے کی قدر میں استحکام نظر نہیں آتا"
پاکستان میں ڈالر کی قیمت میں روز بروز اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے اور ماہرین کا کہنا ہے کہ آئندہ چند روز میں ڈالر کی قیمت مزید بڑھنے کے امکانات موجود ہیں۔
ڈالر کی قدر میں جمعرات کو بہت زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا اور انٹر بینک مارکیٹ میں ڈالر کے نرخ ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئے، جب کہ اوپن مارکیٹ میں ڈالر 150 روپے کے نرخ پر بھی دستیاب نہیں تھا۔
بدھ کوانٹر بینک مارکیٹ میں روپے کے مقابلے میں ڈالر 141.5 روپے کا تھا جو جمعرات کو 148 کی بلند ترین سطح کو چھونے کے بعد 147 روپے پر فروخت ہوا۔  
معاشی امور کے ماہر خرم حسین نے ’اردو نیوز‘ کو بتایا کہ سٹیٹ بینک آف پاکستان نے ڈالر کی قدر میں اضافے کو تسلیم کیا ہے اور موجودہ اقتصادی صورت حال میں روپے کی قدر میں استحکام کا امکان نظر نہیں آتا۔ ان کا کہنا تھا کہ روپے کی قدر میں کمی مارکیٹ کنڈیشن کے تناظر میں ہے اور آئندہ دنوں میں ڈالر کی قدر میں اضافہ ہی ہو سکتا ہے کمی نہیں ہو سکتی۔

انسائٹ سکیورٹیزکے ریسرچ ڈائریکٹر ذیشان افضل نے ’اردو نیوز‘ کو بتایا کہ ڈالر کی قدر میں اضافے کی ایک وجہ روپے کا اوور پرائس ہونا بھی تھا، جس کا ذکر سٹیٹ بینک نے بھی اپنی مارچ کی رپورٹ میں کیا تھا۔
 ذیشان افضل نے بتایا کہ اب روپے کی قدر اپنی موجودہ اصل قیمت پہ آ گئی ہے اور آئندہ دنوں میں امکان ہے کہ ڈالر 150-149 کے قریب فروخت ہو گا۔ تاہم انہوں نے واضح کیا کہ ڈالر کی قیمت اس سے مزید آگے بڑھنے کا امکان نہیں اورمارکیٹ کی افواہوں میں صداقت نہیں۔
روپے کی قدرمیں بہتری کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ایسا صرف اس صورت میں ممکن ہو گا جب ادائیگیوں کے شیڈول میں بہتری آئے گی اور بیلنس آف پے منٹ کو کم کیا جائے گا۔
اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت اور بھی زیادہ رہی، کراچی میں ڈالر 150 روپے تک فروخت ہوا۔
 

کراچی کے ایک مقامی منی چینجر نے اردو نیوز کو بتایا کہ اس وقت مارکیٹ میں ڈالر کی کمی بھی ہو گئی ہے جس کی بنیادی وجہ ڈالر کی قیمت میں مزید اضافے کے خدشات ہیں۔
ایک اور منی ایکسچینج کمپنی کے مطابق اس وقت ان کے پاس فروخت کرنے کے لیے ڈالرز موجود نہیں، تاہم وہ خود 146 روپے کے حساب سے ڈالرز کی خریداری کر رہے ہیں۔
فاریکس ایسوسی ایشن آف پاکستان کے صدر ملک بوستان نے اس حوالے سے کہا ہے کہ روپے کی قدر میں گراوٹ کی وجہ آئی ایم ایف کا حالیہ بیان ہے کہ ’وہ کرنسی کو مارکیٹ میں فری فلوٹ کردیں گے اور اس کی قیمت کا تعین طلب اور رسد کے تناظر میں کیا جائے گا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کے اس بیان کے بعد اقتصادی ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ اس سے پاکستانی روپے پر مزید منفی اثرات مرتب ہوں گے اور ان کا یہ خدشہ درست ثابت ہوا۔
ڈالر کی قیمت میں اضافے پر سوشل میڈیا صارفین نے بھی مختلف تبصرے کیے ہیں۔
ٹی وی اینکر پرسن غریدہ فاروقی نے ایک ٹویٹ میں لکھا ہے کہ ’ڈالر 147 پر پہنچ چکا ہے، انتہائی سنگین صورتحال ہے، حکومت کے ہاتھ آئی ایم ایف نے باندھے ہوئے ہیں، ڈالر مافیا کی موج ہو رہی ہے۔‘
فہد ملک اپنے ٹوئٹر ہینڈل پر لکھتے ہیں کہ ’ڈالر 148 روپے کی تاریخی سطح پر پہنچ چکا ہے اور روپے کی قدر میں مزید کمی کا خدشہ ہے‘
ٹوئٹر صارف صفوان یاسین نے ڈالر کی قیمت میں اضافے سے پریشان ہو کر تحریک انصاف چھوڑنے کا اعلان کر دیا۔ کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کی نالائقی کا دفاع نہیں کیا جا سکتا۔
فواد نامی ٹوئٹر صارف نے لکھا ہے کہ میڈیا کے پروپیگنڈے پر یقین نہ کریں، ڈالر 141.8 روپے کا ہے۔
ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں خاطر خواہ کمی پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان ہونے والے چھ ارب ڈالرز کے مالیاتی معاہدے کے بعد دیکھنے میں آئی ہے۔ آئی ایم ایف نے ڈالر کی قیمت کو مارکیٹ سے منسلک کرنے کی بات کی تھی جس کے بعد سے اس کی قیمت میں استحکام نہیں آیا۔

شیئر: