Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’جرمن یونیورسٹیوں میں داخلہ مل جاتا ہے مگر ویزہ نہیں ملتا‘

جرمن سفارت خانے کا کہنا ہے کہ طلبہ کی ویزہ درخواستیں بہت زیادہ ہیں۔ تصویر: Unsplash
پاکستان سے ہرسال پڑھائی کی غرض سے سینکڑوں نوجوان جرمنی جاتے ہیں لیکن اس مرتبہ تمام دستاویزات مکمل ہونے کے باوجود طلبہ کو ویزہ ملنے میں تاخیر کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جس کی وجہ سے وہ سخت الجھن کا شکار ہیں۔
پاکستانی طلبہ کا کہنا ہے کہ جرمن یونیورسٹی کا ایڈمیشن لیٹر حاصل کرنے کے باوجود سٹوڈنٹس کو انٹرویو کے لیے سفارت خانے میں بلانے میں تاخیر ہو رہی ہے جس کے باعث طلبہ نے اپنی آواز کو حکام بالا تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا کا سہارا لیا ہے۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پرسٹوڈنٹ ویزا پر ٹرینڈ سامنے آتے ہی پاکستانی طلبہ نے اپنی رائے کا اظہار کرنا شروع کر دیا۔
دوسری جانب جرمن سفارت خانے کا کہنا ہے کہ ان کے پاس ویزے کے لیے آنے والی درخواستوں کی تعداد بہت زیادہ ہے جس کی وجہ سے فی الوقت طلبہ کو اس تاخیر کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
طالب علم عمیر ارشد کہتے ہیں کہ اس مسئلے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہم کیوں باقی ممالک سے پیچھے ہیں۔ ’ایک ایسے دور میں رہتے ہوئے بھی جہاں ٹیکنالوجی دن بدن جدید طریقے متعارف کراوتی چلی جا رہی ہے ۔ پاکستان میں ویزے سے متعلق مسائل ابھی تک وہیں ہیں۔‘

ایک ویڈیو  پیغام میں علی عثمان نامی ٹوئٹر صارف نے اپنا ایڈمیشن لیٹر دکھاتے ہوئے کہا کہ ’لیٹر ہاتھ میں ہونے کے باوجود جرمن سفارت خانے کی جانب سے طلبہ کو بلایا نہیں جا رہا جس کی وجہ سے ان کی تعلیم کا حرج ہو رہا ہے۔‘

انہوں نے کراچی میں جرمن قونصلیٹ کا حوالہ دیتے ہو ئے کہا کہ وہاں لوگوں کو فوری طور پر بلا لیا جاتا ہے اور بروقت ویزے بھی جاری کیے جا رہے ہیں۔ انہوں نے عمران خان سے اپیل کی کہ اس مسئلے کا فوری نوٹس لیا جائے۔  
علی عثمان کا کہنا تھا کہ سارا سال اعلی تعلیم کے مواقع ڈھونڈنے کے بعد جب سارے مراحل سے گزر چکے ہوں، تما م ادائیگیاں کرنے کے بعد منزل اس قدر قریب ہو تو اس طرح کی کوتاہیاں مجھ جیسے کئی طلبہ کا مستقبل خراب کرسکتی ہیں۔
اگراسلام آ باد میں موجود جرمن سفارت خانہ اس مسئلے کو حل کرنے کی صلا حیت نہیں رکھتا تو انہیں چاہیے ان تمام طلبہ کو کراچی میں موجود قونصلیٹ جانے کا کہہ دیا جائے تاکہ ان کا مزید وقت برباد نہ ہو۔
عبدالحنان نے اپنی رائے کا  اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر جرمنی کے دُبئی، اٹلی، سعودی عرب اور دیگر مما لک میں موجود سفارت خانوں میں ویزے سے متعلق بہترین انتظامات ہیں تو ایسا ہی نظام پاکستان کے لیے کیوں نہیں؟

 امتیاز خان کا کہنا تھا کہ میرےایک دوست کی باری تب آئی جب ان کی کلاسز کو شروع ہوئے 2 ماہ گزر چکے تھے۔

’اردو نیوز‘ کو موصول ہونے والی ایک ای میل میں ایک طالب علم شعور خان کا کہنا ہے کہ پاکستانی طلبہ کو پانچ مسائل کا سامنا ہے۔ ویزہ انٹرویو کے لیے وقت دینے میں تاخیر ہو رہی ہے، آن لائن ویزہ سروس میں وہ افراد بھی درخواست دے رہے ہیں جن کے پاس ایڈمیشن لیٹرز بھی نہیں ہیں جو تاخیر کی ایک وجہ ہو سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر اسلام آباد جرمن سفارت خانے میں رش ہے تو درخواست گزاروں کو کراچی قونصلیٹ میں کیوں نہیں بلایا جا رہا، ماسٹر کے طلبہ کو ویزہ لینے میں چھ سے سات ماہ لگتے ہیں جبکہ بیچلرز کے سٹوڈنٹس کو سات سے آٹھ ماہ لگ جاتے ہیں اور بعض اوقات اس سے زیادہ وقت بھی لگ سکتا ہے۔
شعور خان کا کہنا تھا کہ اگر ویزے کے لیے انٹرویو کا وقت تین سے چار ماہ کر دیا جائے تو پاکستانی طلبہ کے لیے آسانی ہو گی۔
اسلام آباد میں جرمن سفارت خانے کے  ترجمان  کے مطابق ’ہمارے پاس ویزے کے لیے آنے والی درخواستوں کی تعداد کی وجہ سے فی الوقت اس تاخیر کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، وہ تمام طلبہ جن کے پاس کلاسز شروع  ہونے کی تاریخ اور یونیورسٹی کی جانب سے موصول ہونے والا لیٹر موجود ہے ان تمام طلبہ کے ویزوں کے عمل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جائے گا۔‘

شیئر: