Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’پانچ ماہ قبل سب کو اطلاع کی تھی کہ حمیرا لاپتہ ہے مگر کسی نے کچھ نہیں کیا‘

پولسی کے مطابق حمیرا اصغر کی لاش نو ماہ پرانی ہے۔ (فوٹو: انسٹاگرام، حمیرا اصغر)
’فوری اطلاع، اداکارہ حمیرا اصغر علی لاپتہ ہیں۔ آخری بار 7 اکتوبر 2024 کو آن لائن دیکھی گئیں۔‘ یہ وہ الفاظ ہیں جو گذشتہ سال ایک ایکس اکاؤنٹ سے پوسٹ کیے گئے مگر کسی کو خبر نہ ہوئی۔
یہ الفاظ کس کے تھے اور کسی نے ان پر کان کیوں نہ دھرے اس سے پہلے کچھ اہم باتیں دہرانا ضروری ہیں۔
کراچی کے پُرہجوم شہر میں ایک فلیٹ کے بند دروازے کے پیچھے حمیرا اصغر علی کی زندگی خاموشی سے ختم ہو چکی تھی۔ وہ دروازہ جس پر کبھی دستک نہیں دی گئی، منگل کی صبح عدالت کے بیلف نے اسے زبردستی کھولا۔
فلیٹ کے اندر ایک سناٹا تھا جو شاید نو ماہ سے وہاں موجود تھا۔ اس سناٹے میں اداکارہ اور ماڈل حمیرا اصغر علی کی باقیات موجود تھیں۔
یہ وہی حمیرا تھیں جنہوں نے 2014 میں ’مس ویٹ سپر ماڈل‘ کا تاج اپنے نام کیا، جنہیں ڈراموں، فلموں اور ریئلٹی شوز میں دیکھا گیا۔
عرب نیوز کے مطابق پولیس کا کہنا ہے کہ بظاہر حمیرا کی موت اکتوبر 2024 میں ہوئی۔ پوسٹ مارٹم کرنے والی پولیس سرجن نے ابتدائی طور پر موت کا وقت تقریباً ایک ماہ قبل بتایا تھا، مگر فون ریکارڈز، سوشل میڈیا سرگرمی اور ہمسایوں کی گواہیوں نے اس کہانی کو بہت پیچھے کھینچ لیا۔
ان کی آخری انسٹاگرام پوسٹ 30 ستمبر 2024 کو ہوئی تھی، اس کے بعد صرف خاموشی تھی۔ نہ کوئی کال، نہ پیغام، نہ آواز۔
پڑوسیوں نے بتایا، وہ ستمبر کے بعد حمیرا کو دیکھ نہ سکے۔ ان کے اپارٹمنٹ میں بجلی اکتوبر میں بند ہو چکی تھی، شاید بل ادا نہ ہونے کی وجہ سے۔ پولیس کو فلیٹ میں نہ کوئی موم بتی ملی، نہ بجلی کا کوئی متبادل ذریعہ۔ کچن میں پڑے برتن زنگ آلود ہو چکے تھے، خوراک چھ ماہ سے زائد المیعاد ہو چکی تھی۔ پانی کی لائنیں خشک اور زنگ آلود تھیں۔ وہ تنہا تھیں اور شاید بہت عرصے سے۔
ان کے فلیٹ کے برابر والا فلیٹ خالی تھا، کوئی سننے والا، محسوس کرنے والا، پوچھنے والا نہ تھا۔ یہ شہر، جہاں وہ کبھی سکرینوں پر جگمگاتی تھیں، وہی شہر ان کی موت کا گواہ بنا۔
پولیس سرجن ڈاکٹر سمعیہ سید نے جائے وقوعہ سے متعدد نمونے جمع کیے جو لیبارٹری بھیج دیے گئے، لیکن انہوں نے مزید کچھ کہنے سے گریز کیا ہے۔
افسوسناک بات یہ تھی کہ کہ ان کے اہل خانہ نے بھی لاش وصول کرنے سے انکار کر دیا۔
کسی وقت اداکارہ جو ’تماشا گھر‘ جیسے ریئلٹی شو میں نظر آتی تھیں، ’جلیبی‘ اور ’لو ویکسین‘ جیسی فلموں میں جلوہ گر تھیں، ان کا ایسا خاموشی سے دنیا سے چلے جانا کافی سوال چھوڑ گیا ہے جو سوشل میڈیا صارفین گذشتہ دو دن سے کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔
سب سے اہم سوال جو اٹھا وہ سوشل میڈیا کی ایک حال ہی میں وائرل ہونے والی پرانی پوسٹ ہے جس کا اس تحریر کے آغاز میں ذکر کیا گیا تھا۔
یہ پوسٹ فروری 2025 میں شوبز اینڈ نیوز نامی اکاؤنٹ نے کی جس میں کہا گیا کہ ’حمیرا علی لاپتہ ہیں، ان کا فون بند ہے، وہ کہیں کسی تقریب میں نظر نہیں آئیں، سات اکتوبر کے بعد اپنی انسٹاگرام یا فیس بُک سٹوری پر کچھ پوسٹ نہیں کیا۔ ہم ان کی خیریت کے لیے دعاگو ہیں۔‘
اب سوال یہ ہے کہ اس بات کا علم ’شوبز اینڈ نیوز نامی‘ اکاؤنٹ کو کیسے تھا؟ اس پر بھی اس ہی اکاؤنٹ سے آج جواب دیتے ہوئے نئی پوسٹ کی گئی ہے۔
جمعرات کو اس اکاؤنٹ سے کی گئی پوسٹ میں لکھا گیا کہ ’ہمیں حمیرا کی گمشدگی کا ان کے سٹائلسٹ سے پتا چلا تھا جو ان کے ساتھ پہلے کام کر چکے تھے۔ ہم نے یہ پوسٹ فروری 2025 میں کی تھی۔ اس پیغام کو ہم نے متعدد اینکرز، اداکاروں اور انفلوئنسرز کو بھیجا تھا مگر کسی نے حمیرا سے رابطہ کرنے کی کوشش نہیں کی۔‘
اس پوسٹ پر کئی افراد نے سوالات اٹھائے اور یہاں تک کہ اکاؤنٹ کے ایڈمن سے بھی سوال کیے گئے کہ انہوں نے پولیس کو اطلاع کیوں نہیں دی؟
ایک اور صارف نے پوسٹ کے نیچے اپنے کمنٹ میں لکھا کہا ’کئ ماہ پرانی لاش گھر سے برآمد ہوئی کسی کو کوئی خبر نہ ہوئی، اتنے بڑے شہر میں ایک خاتون کی لاش کیسے اتنے ماہ پڑی رہ سکتی ہے؟ کراچی نے انہیں نظرانداز نہیں کیا بلکہ خاموشی میں دفن کر دیا۔‘
جہاں سوشل میڈیا صارفین اور شوبز شخصیات حمیرا اصغر کی موت پر سوگوار ہیں وہیں اس معاملے پر نئی پیش رفت یہ سامنے آئی ہے کہ پاکستان کے صوبہ سندھ کے محکمہ ثقافت نے جمعرات کو اعلان کیا کہ وہ حمیرا اصغر علی کی تدفین کی ذمہ داری لے گا۔
عرب نیوز کے مطابق سندھ کے وزیر ثقافت و سیاحت سید ذوالفقار علی شاہ نے عرب نیوز سے گفتگو میں کہا کہ اداکارہ کے اہل خانہ نے لاش وصول کرنے سے انکار کر دیا ہے، اس لیے محکمہ ثقافت ان کی آخری رسومات ادا کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ ’حمیرا اصغر علی یتیم نہیں ہیں، سندھ حکومت کا محکمہ ثقافت ان کا سرپرست ہے۔ پہلے مرحلے میں والدین کو لاش وصول کرنے پر قائل کرنے کی کوشش کی جائے گی، لیکن اگر ایسا نہ ہو سکا تو محکمہ ثقافت پولیس کے ساتھ مکمل تعاون کرے گا تاکہ حمیرا کی تدفین عزت و احترام کے ساتھ کی جا سکے۔‘
سید ذوالفقار علی شاہ نے بتایا کہ انہوں نے کراچی کے ایڈیشنل آئی جی پولیس سے رابطہ کیا ہے اور سیکریٹری ثقافت نے ڈی آئی جی ساؤتھ کو خط لکھ کر لاش محکمہ ثقافت کے حوالے کرنے کی درخواست کی ہے۔
عرب نیوز کو موصول خط میں کہا گیا ہے کہ وزیر ثقافت کو اداکارہ کے قانونی ورثا کے عدم تعاون پر افسوس ہے اور چونکہ حمیرا اصغر نے فن و ثقافت میں اہم کردار ادا کیا، اس لیے سندھ حکومت ان کی تدفین کی ذمہ داری باوقار طریقے سے نبھانا چاہتی ہے۔
خط میں پولیس سے کہا گیا ہے کہ قانونی ضابطے مکمل ہونے کے بعد لاش محکمہ ثقافت کے حوالے کی جائے۔

شیئر: