Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سجنے سنورنے پر ٹیکس: لاہور میں ’نا منظور‘ کے نعرے

’یہ کوئی عام سا ٹیکس نہیں ہے بلکہ میں اسے ظلم کی انتہا کہوں گی۔‘ فوٹو اے ایف پی
’سجنے سنورنے پر ٹیکس نامنظور، معاشی قتل نامنظور، بیوٹی آئیٹمزپر ٹیکس نامنظور، ظالمانہ ٹیکس نامنظور‘
جب سے رواں مالی سال کا بجٹ ایوان میں پیش کیا گیا ہے، لاہور کی فضا بیوٹیشنز اور ’ہیئر ڈریسرز الائنس‘ کے کاسمیٹکس پر لگے ٹیکسز کے خلاف نعروں سے گونج رہی ہے۔
کاسمیٹکس پر ٹیکس لگنے سے بیوٹی پارلر چلانے والی خواتین کا روزگار متاثر ہوا ہے اور اس کاروبار سے وابستہ کم آمدنی والی خواتین بیوٹی پارلرز پر لگائے جانے والے 16 فیصد ٹیکس کو ظلم قرار دے رہی ہیں۔
مسلم لیگ ن کی ایم پی اے سعدیہ تیمور پنجاب اسمبلی کے باہر بیوٹیشنز اور ہیئر ڈریسرز الائنس کے احتجاج کی قیادت کر رہی ہیں اور پنجاب اسمبلی میں اس مسئلے کی جانب توجہ دلانے کے لیے قرار داد بھی پیش کر چکی ہیں۔
سعدیہ تیمور خود بھی اس شعبے سے منسلک ہیں۔


خواتین بیوٹی پارلرز پر لگائے جانے والے 16 فیصد ٹیکس کو ظلم قرار دے رہی ہیں۔ فوٹو نوشین نقوی

انہوں نے ’اردو نیوز‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ کوئی عام سا ٹیکس نہیں ہے بلکہ میں اسے ظلم کی انتہا کہوں گی۔ کسی چھوٹی سی گلی میں بنا پارلر اور لاکھوں کمانے والا سیلون برابر کیسے سمجھے جا سکتے ہیں؟ آج سے چار سال پہلے ن لیگ کی حکومت نے بھی یہ ٹیکس عائد کیا تھا لیکن جب ہم نے اپنی ایسوسی ایشن کی جانب سے ان سے مذاکرات کیے تو انہوں نے صرف پوش علاقوں پر ٹیکس عائد کیا، اس طرح چھوٹے پارلرز کو استثنیٰ مل گیا تھا۔‘
سعدیہ تیمور کہتی ہیں کہ ’یہ حکومت تو جب سے آئی ہے غریبوں کے مسائل کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کر رہی۔ ہم ان مسائل سے نمٹنے کے لیے ایک کمیٹی بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اگر ہمارے ساتھ کیے گئے وعدوں کو پورا نہ کیا گیا تو ہم سڑکوں پر آ جائیں گے‘

بڑے اور پوش علاقوں کے مہنگے بیوٹی پارلرز بھی اس ٹیکس سے متاثر ہو رہے ہیں۔ 
بڑے اور پوش علاقوں کے مہنگے بیوٹی پارلرز بھی اس ٹیکس سے متاثر ہو رہے ہیں۔ فوٹو اے ایف پی

لاہور کی معروٖف بیوٹیشن بی جی نے ’اردو نیوز‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ ہمارے ساتھ ظلم ہو رہا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ اس پیشے سے انتہائی مجبور اور ضرورت مند خواتین منسلک ہیں، کوئی بیوہ ہے، کسی کا شوہر کوئی کام نہیں کرتا تو کوئی اپنے خاندان کے لیے سہارا ہے۔ کئی خواتین اپنے ایک کمرے کے گھر میں ایک کرسی رکھ کے حلال روزی کما رہی ہیں۔ یہ بم غریبوں پر ٹیکس بم گرایا گیا ہے اس لیے حکومت کو یہ فیصلہ واپس لینا چاہیے۔‘
ان ٹیکسوں سے جہاں کم آمدن والے چھوٹے بیوٹی پارلرز اور گلی محلوں میں کھلے ہیئر سیلونز سے منسلک افراد کو معاشی طور پر دھچکا لگا ہے وہیں بڑے اور پوش علاقوں کے مہنگے بیوٹی پارلرز بھی اس ٹیکس سے متاثر ہو رہے ہیں۔
پاکستان میں فیشن آئیکون سمجھے جانے والے سٹائلسٹ خاور ریاض ’اردو نیوز‘ سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں ’یہ کام دن بدن مہنگا ہوتا جا رہا ہے، ہمیں مارکیٹ کے مطابق ریٹ بڑھانا پڑتے ہیں۔ جو افورڈ نہیں کرسکتا پھر وہ یہاں نہیں آتا۔ جب حکومت مصنوعات مہنگی کرے گی تو مارکیٹ میں جعلی پراڈکٹس آ جائیں گی۔ میں اس سے زیادہ ٹیکس دینے کو بھی تیار ہوں، اگر مجھے شفافیت کا یقین ہو، اگر مجھے پتا ہو کہ میرے پیسے عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ ہوں گے۔‘

بیوٹشنز کہتی ہیں کہ مہنگائی نے ان کی کمر توڑ دی ہے۔
بیوٹشنز کہتی ہیں کہ مہنگائی نے ان کی کمر توڑ دی ہے۔

بیوٹیشن ورکر شاہدہ بشیر کہتی ہیں کہ ’پراڈکٹس بہت مہنگی ہو چکی ہیں، مہنگائی نے کمر توڑ دی ہے، ہمارے سیلون مالکان ہمیں کہاں سے بہتر تنخواہ دیں جبکہ خود ان کی بچت ٹیکسوں میں جا رہی ہے۔’
ہر سال بجٹ میں کاسمیٹکس، بیوٹی پارلرز اور ہیئر ڈریسرز کی مصنوعات کو غیر ضروری سمجھتے ہوئے ٹیکسوں کی بھرمار کر دی جاتی ہے تاہم لوکل اورامپورٹڈ آئٹمز پر لگے ٹیکس کو اس بار بیوٹیشنز اور ہیئر ڈریسرز خاموشی سے قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ انہوں نے بھی اپنے ڈیرے پنجاب اسمبلی کے باہر لگانے کی دھمکی دے دی ہے۔

شیئر: