یہ 1995 کا برس تھا۔ ضلع ایبٹ آباد کے ایک گاؤں نملی میرا میں 20 سالہ دلشاد بی بی کی زندگی نئی امیدوں اور خوابوں سے بھرنے والی تھی۔ گھر والے ان کی شادی کی تیاریاں زور و شور سے کر رہے تھے۔
ان کا رشتہ ایک خوش شکل، خوش مزاج اور مالی طور پر مستحکم نوجوان سردار گلزار سے طے پایا تھا جو دبئی میں کام کرتے تھے اور ایک بہتر مستقبل کے خواب لیے وطن لوٹے تھے۔
25 سالہ سردار گلزار کی آمد پر ان والدین اور گاؤں والے خوش تھے۔ دلشاد بی بی کی قسمت سنورتی نظر آ رہی تھی۔
شادی کی تیاریاں مکمل تھیں۔ مہمانوں کی فہرست بن چکی تھی اور گاؤں میں باتیں ہو رہی تھیں کہ دلشاد بی بی کی قسمت جاگ اٹھی ہے۔
مزید پڑھیں
-
اعلیٰ تعلیم کو خیرباد کہہ کر کھیتی باڑی اپنانے والی باہمت خاتونNode ID: 529351
-
صحرا میں اونٹوں کے ساتھ تنہا زندگی گزارنے والی سعودی خاتونNode ID: 889553
لیکن قسمت نے اچانک ایسا رخ بدلا کہ پورے گاؤں کی فضاء سوگوار ہو گئی۔ شادی سے صرف تین دن قبل سردار گلزار کے قریب جنگل میں لکڑیاں کاٹنے چلے گئے۔
اس دور میں لکڑی کے بغیر گاؤں کی شادی کا تصور ممکن نہ تھا۔ لکڑیاں کاٹتے وقت خالد کا پاؤں پھسلا اور وہ گہری کھائی میں جا گرے۔
حادثہ اتنا شدید تھا کہ اُن کا جسم بالکل ناتواں ہو گیا اور دماغ پر ایسا زخم آیا کہ وہ کومے میں چلے گئے۔
ہسپتال کے بستر پر پڑے خالد کی زندگی اور موت کی کشمکش شروع ہو گئی۔چھ ماہ تک وہ کومے میں رہے اور دلشاد بی بی کی زندگی گویا تھم گئی۔
گھر والے جو چند روز پہلے تک شادی کی تیاریوں میں مصروف تھے، اب بیٹی کو سمجھا رہے تھے کہ یہ رشتہ ختم کر دینا ہی بہتر ہے۔ سب کا کہنا تھا کہ گلزار اب چل سکتا ہے نہ کما سکتا ہے اور نہ زندگی کی دوڑ میں آگے بڑھ سکتا ہے۔
لیکن دلشاد بی بی کا دل حالات کی اس تلخی کو ماننے کو تیار نہ تھا۔ وہ اپنے فیصلے پر ڈٹ گئیں۔’اگر حادثے سے پہلے میں خالد کو اپنا شوہر تسلیم کر چکی تھی تو اب جب وہ سب کچھ کھو بیٹھا ہے، میں اسے کیسے چھوڑ سکتی ہوں؟‘
یہ وہ الفاظ تھے جو دلشاد بی بی نے اپنے گھر والوں سے کہے اور سب کو حیران کر دیا۔

سردار گلزار کی جمع پونجی ان کے علاج پر ختم ہو چکی تھی۔ جسم کمزور تھا لیکن دلشاد بی بی کا حوصلہ مضبوط۔ گھر والوں کی ناراضگی، معاشرتی دباؤ اور مستقبل کے اندیشوں کے باوجود انہوں نے اپنی بڑی بہن کی مدد سے سردار گلزار سے نکاح کر لیا۔
لیکن دلشاد بی بی کا امتحان یہاں ختم نہیں ہوا تھا، اصل آزمائش تو اس وقت شروع ہوئی جب اُن کا شوہر خود کچھ کما سکتا تھا اور نہ ہی ذہنی طور پر مکمل صحت مند تھا۔
ایسے حالات میں زندگی کی گاڑی کو آگے بڑھانے کی ذمہ داری دلشاد بی بی کے کندھوں پر آ گئی۔ انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور اپنی گزر بسر کے لیے خود محنت کرنے کا فیصلہ کیا۔
ابتدائی دنوں میں دلشاد بی بی نے مختلف گھروں میں کام کرنا شروع کر دیا۔ لیکن جب ایک روز ان کے والد نے انہیں یوں محنت کرتے دیکھا تو دل برداشتہ ہو گئے۔ بیٹی کی مشکلات دیکھ کر انہوں نے اس کی مدد کا فیصلہ کیا اور ایک بھینس خرید کر دے دی۔
یہ بھینس دلشاد بی بی کے لیے امید کی ایک نئی کرن ثابت ہوئی۔

انہوں نے گاؤں میں دودھ بیچنا شروع کیا اور اس معمولی کاروبار سے گھر کا چولہا جلنے لگا۔ لیکن قسمت نے انہیں ایک بار پھر آزمایا۔ کچھ عرصہ بعد ان کی بھینس مر گئی اور وہ دوبارہ مشکلات میں گھر گئیں۔
اس مرتبہ گاؤں کے لوگوں نے ان کا ساتھ دیا۔ سب نے مل کر دلشاد بی بی کی مالی مدد کی اور وہ دوبارہ ایک بھینس خریدنے کے قابل ہو گئیں۔
زندگی جیسے جیسے آگے بڑھی، دلشاد بی بی کی آزمائشوں کا سلسلہ بھی جاری رہا۔
دلشاد بی بی اور سردار گلزار کے تین بچے ہوئے۔ ایک بیٹا اور اس کے بعد جڑواں بچے جن میں ایک بیٹی اور ایک بیٹا تھا۔ مگر اس بار بھی قسمت نے ایک تلخ امتحان لیا۔
ان کا جڑواں بیٹا معذور پیدا ہوا جب کہ بیٹی مکمل صحت مند تھی۔
بیٹے کی معذوری نے دلشاد بی بی کو ایک نئی آزمائش میں ڈال دیا۔ دس سال تک ان کا بیٹا چل نہیں سکا۔ اس کی دیکھ بھال، علاج، اور ضروریات پوری کرنا دلشاد بی بی کے لیے ایک الگ جدوجہد بن گیا۔

لیکن انہوں نے ہار نہیں مانی۔ انہوں نے دن رات محنت کی، صبر کیا اور بیٹے کے علاج میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ آخرکار دس سال کی طویل جدوجہد کے بعد ان کا بیٹا قدرے بہتر ہوا اور زندگی کی معمولی سرگرمیوں میں شامل ہونے کے قابل ہو گیا۔
ابتدائی عمر میں مشکلات کا سامنا کرنے کے باوجود مصدق گلزار نے ہمت نہ ہاری اور ایبٹ آباد کہیال کے ’کنگسٹن سکول برائے معذوراں‘ میں تعلیم حاصل کرنا شروع کی۔ اسی دوران ان کے استاد اور خالہ زاد بھائی محمد عرفان نے انہیں سکیئنگ سے متعارف کروایا۔
محمد عرفان نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا مصدق گلزار میں محنت اور لگن خاندانی طور پر منتقل ہوئی ہے لیکن یہ آسان سفر نہیں تھا۔ مسلسل 15 برس کی انتھک محنت، گرنے، سنبھلنے اور سیکھنے کے بعد آج وہ پاکستان کے نمایاں سکیئنگ کھلاڑیوں میں شامل ہیں۔
محمد عرفان کا کہنا تھا کہ مصدق گلزار نے پیرا اولمپکس گیمز کے لیے بھی کوالیفائی کرنے کی بھرپور کوشش کی تھی اور وہ تقریباً منتخب بھی ہو چکے تھے لیکن آخری لمحوں میں کچھ کوالیفکیشن مکمل نہ ہو سکی۔

دلشاد بی بی کی وفا کی کوئی حد نہیں: شوہر سردار گلزار
دلشاد بی بی کے شوہر سردار گلزار نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کے اور دلشاد بی بی کے رشتے کو 30 برس گزر چکے ہیں مگر یہ رشتہ آج بھی ویسا ہی مضبوط اور خالص ہے جیسے ابتدا میں تھا۔
سردار گلزار نے ماضی کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ ’آج سے 30 برس پہلے میری زندگی بالکل مختلف تھی۔ میرے پاس پیسہ تھا، میں خود چل پھر سکتا تھا، صحت مند تھا۔ لیکن وقت نے سب کچھ بدل دیا۔ آج حالات بہت مختلف ہیں، جسم ساتھ نہیں دیتا، مالی حالات بھی ویسے نہیں رہے مگر ایک چیز جو نہیں بدلی، وہ میرے اپنے لوگ ہیں، خاص طور پر دلشاد بی بی کا ساتھ جو 30 سال پہلے بھی تھا اور آج بھی ہے۔‘
دوسری جانب دلشاد بی بی بھی اپنے شوہر کے ساتھ گزرے دنوں کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں ’زندگی آسان نہیں تھی۔ میں نے کئی بار تھک ہار کر، پریشان ہو کر، غصے میں آ کر ان سے اونچی آواز میں بات کی ہو گی، شکایت کی ہو گی مگر سردار گلزار نے کبھی میرے ساتھ اونچی آواز میں بات نہیں کی۔ وہ پریشان ہوتے تھے، بعض اوقات خاموشی سے مسجد چلے جاتے، وہاں جا کر اللہ کے سامنے رو لیتے، لیکن میرے سامنے کبھی پریشانی کا اظہار نہیں کیا۔‘

آج بھی دلشاد بی بی گاؤں میں بکریاں پالتی ہیں، گھریلو کام کاج کرتی ہیں اور محنت سے گھر چلاتی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’زندگی میں ہر کسی کی خواہشات ہوتی ہیں کہ ہم فلاں طرح زندگی گزاریں گے، فلاں سہولیات ہوں گی لیکن حقیقت میں جو نصیب میں لکھا ہے، وہی ملتا ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ صبر اور محنت کے ساتھ خوش رہنا سیکھے۔‘