Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’وفاقی محتسب کا ہراسیت پر پیغام قانون سے متصادم ‘

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے انسداد ہراسیت محتسب کے رجسٹرار کو کشمالہ طارق کے ہراسیت سے متعلق پیغام کو کتابچے سے ہٹانے کا حکم دیا ہے۔
یہ حکم پیر کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے وفاقی محتسب برائے انسداد ہراسیت کے خلاف اپیلیں منظور کرتے ہوئے جاری کیا۔
عدالت نے انسداد ہراسیت محتسب کے خلاف مختلف اپیلوں کی سماعت کی اور ان کے فیصلوں کو کالعدم قرار دیا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ انسداد ہراسیت کے محتسب کے فیصلے انسداد ہراسیت ایکٹ 2010 سے متصادم ہیں۔ وفاقی محتسب برائے انسداد ہراسیت نے ہراسیت ایکٹ 2010 کی غلط تشریح کی ہے۔ ’ہراسیت‘ لفظ کی تشریح قانون میں کی جا چکی ہے اس میں رد و بدل کرنا وفاقی محتسب کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ وفاقی محتسب برائے انسداد ہراسیت کا دفتر صرف جنسی طور پر ہراساں کرنے کی درخواستیں سننے کا دائرہ اختیار رکھتا ہے۔ عدالت نے  اپیلوں کو سنتے ہوئے فیصلہ سنایا کہ ان کیسز میں جنسی طور پر ہراساں کرنے کی درخواست سامنے نہیں آئی جس پر وفاقی محتسب نے اپنے فیصلے جاری کیے ہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے تفصیلی فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ خواتین کو ملازمت کی جگہ پر تحفظ فراہم کرنے کے لیے انسداد ہراسیت ایکٹ 2010 کے مطابق ’عہدے کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے ملازمت کے دوران فوائد دینا، ملازمت کی جگہ میں  لفظی یا جنسی طور پر ہراساں کرنا اور ایسا ماحول بنانا جس سے ملازمت میں دشواری ہو یا انکار کی صورت میں ملازمت کے دوران ملنے والے فوائد سے دور رکھا جانا یا کوئی نقصان پہنچانا ‘ ہراسیت کے زمرے میں آتا ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے وفاقی محتسب برائے انسداد ہراسیت کے خلاف اپیلیں منظور کرلیں۔(تصویر:اے ایف پی)
اسلام آباد ہائیکورٹ نے وفاقی محتسب برائے انسداد ہراسیت کے فیصلوں کے خلاف اپیلیں منظور کیں۔ تصویر:اے ایف پی

 کشمالہ طارق کا پیغام کیا تھا؟ 

 فیصلے میں کشمالہ طارق کا انسداد ہراسیت کے کتابچے پر پیغام کا بھی حوالے دیا گیا ہے جسے انسداد ہراسیت ایکٹ 2010 کے منافی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہراسیت کی تعریف قانون میں طے شدہ ہے جسے تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔
کشمالہ طارق کے پیغام کے مطابق ’ہراسیت صرف جنسی طور پر نہیں بلکہ جنس، ذات، رنگ، نسل یا لسانیت کی بنیاد پر ملازمت کے دوران غیر مساوی سلوک اور فوائد پہنچانے جیسی سرگرمیاں بھی ہو سکتی ہیں۔ ’ہمارا نظریہ ہے کہ امتیازی سلوک کو ختم کیا جائے اور تمام جنس، زات اور عقائد رکھنے والوں کے لئے ساز گار ماحول مہیا کریں۔‘
یاد رہے کہ گزشتہ دنوں کشمالہ طارق نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ خواتین کو موبائل فون پر غیر ضروری پیغامات بھیجنا بھی ہراساں کرنے کے زمرے میں آتا ہے۔
’ادارے کے پاس جنسی ہراساں کرنے سے متعلق 73 کیسز زیرالتواء ہیں‘
'ادارے کے پاس جنسی ہراساں کرنے سے متعلق 73 کیسز زیرالتواء ہیں'

جنسی ہراساں کرنے کے 73 کیسز زیرالتوا

وفاقی محتسب برائے انسداد ہراسیت کے رجسٹرار رحمان شہزاد نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ادارے کے ہراسیت کے دائرہ اختیار کا معاملہ سپریم کورٹ میں بھی زیر التوا ہے، وفاقی محتسب وسیع پیمانے پر کام  کر رہا ہے جس میں جنسی ہراساں کرنے کے ساتھ اداروں میں خواتین کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک، انتقامی کارروائی اور دیگر طریقوں سے ہراساں کرنی کی شکایات کا ازالہ بھی شامل ہے۔
 رحمان شہزاد نے بتایا کہ اس وقت ادارے کے پاس مجموعی طور پر73 کیسز زیرالتوا ہیں جن میں جنسی ہراسگی کے 43 اور دیگر طریقوں سے ہراساں کرنےکی درخواستیں ہیں۔  

سوشل ایکٹوسٹ نگہت داد کیا کہتی ہیں؟

پاکستان میں خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنی والی سوشل ایکٹوسٹ نگہت داد نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہراسیت کے حوالے سے ملک میں قانون میں سقم ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہائی کورٹ کا فیصلہ قانونی طور پر تو درست ہے لیکن ہراسیت کے کیسز میں جنسی طور پر ہراساں کرنا ہی ضروری نہیں بلکہ مختلف اداروں میں خواتین کو لسانیت، رنگ، نسل یا دیگر وجوہات کی بنا پر امتیازی سلوک یا انتقام کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
نگہت داد کا کہنا تھا کہ ہراسگی کو روکنے کے لیے قانون سازی کی ضرورت ہے جس سے وفاقی محتسب برائے انسداد ہراسیت کو بااختیار بنایا جائے۔

شیئر: