Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

خیبرپختونخوا کے قبائلی اضلاع میں انتخابات،آزاد امیدواروں کی برتری

قبائلی اضلاع کی 16 نشستوں پر انتخابات میں 282 امیدواروں نے حصہ لیا۔
فاٹا انضمام کے بعد پہلی بار قبائلی اضلاع میں صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر انتخابات ہوئے۔ صوبائی اسمبلی کی 16 نشستوں پر پولنگ کا عمل ہفتہ کی صبح 8 بجے شروع ہوا جو شام 5 بجے تک جاری رہا۔
ووٹنگ کے بعد گنتی کا عمل جاری ہے۔ ابتدائی نتائج کے مطابق آزاد امیدوار آگے ہیں۔ 7 نشستوں پر کامیابی حاصل کی ۔تحریک انصاف5نشستوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہی ۔ جے یو ا آئی (ف ) 2 ، جماعت اسلامی اور عوامی نیشنل پارٹی ایک ایک نشست پر کامیاب ہو سکی ۔
پی کے 100، باجوڑ 1 کے غیرحتمی اور غیر سرکاری نتیجے مطابق تحریک انصاف کے انور زیب خان 13160 ووٹ لے کر جیت گئے۔جماعت اسلامی کے وحید گل 11694 ووٹ کر دوسرے نمبر پر رہے۔
پی کے 101، باجوڑ 2 سے تحریک انصاف کے اجمل خان 12204 ووٹ لے کرکامیاب ہو گئے۔ جماعت اسلامی کے ہارون الرشید 10448 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے۔
پی کے 102، باجوڑ 3 میں جماعت اسلامی کے سراج الدین19088 ووٹ لے کرکامیاب رہے۔ تحریک انصاف کے حامدالرحمان 13436 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے۔
پی کے 103، مہمند 1 سے اے این پی کے نثار احمد 11218 ووٹ لے کر کامیاب ہو گئے ۔ تحریک انصاف کے رحیم شاہ 10314 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے۔
پی کے 105،خیبر1 سے آزاد امیدوار شفیق آفریدی 19ہزار 524 ووٹ لے کر جیت گئے۔ آزاد امیدوار شیرمت خان 10744 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے۔
پی کے 106، خیبر 2 سے آزاد امیدوار بلال آفریدی 12800 ووٹ لے کر کامیاب رہے تحریک انصاف کے عامر محمد خان آفریدی 6521 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے۔
پی کے 108، کرم 1 میں جے یو آئی کے محمد ریاض 12138 ووٹ لے کرکامیاب رہے۔ آزاد امیدوار جمیل خان 11431 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے۔
پی کے 109، کرم 2 میں تحریک انصاف کے سید اقبال میاں 39539 ووٹ لے کر کامیاب رہے۔ آزاد امیدوار عنایت حسین 22975 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے۔
پی کے 115 میں تحریک انصاف کے عابد الرحمان 20669 ووٹ لے کر میدان مار لیا ۔جے یو آئی (ف) کے محمد شعیب 18373 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے۔
قبل ازیں ڈائیریکٹر الیکشنز چوہدری ندیم قاسم نے اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے قائم کیے گئے کنٹرول روم میں دن بھر معمولی نوعیت کی چار شکایات موصول ہوئیں۔انہوں نے بتایا کہ قبائلی اضلاع میں کچھ ایسے علاقے بھی ہیں جہاں رات کو سفر ممکن نہیں اور انٹرنیٹ سروس کے مسائل کے باعث مکمل نتائج آنے میں تاخیر ہو سکتی ہے۔
قبائلی اضلاع کے انتخابات کی کوریج کرنے والے صحافی عمر برنی کے مطابق انتخابات کا عمل پر امن طریقے سے مکمل ہوا اور کسی بھی غیر معمولی واقعے کی اطلاعات نہیں ملیں۔ ووٹرز ٹرن آؤٹ کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ  ٹرن آؤٹ انتہائی کم رہا ، دن بھر پولنگ سٹیشنز پر غیر معمولی رش دیکھنے کو نہیں ملا جبکہ پولنگ سٹیشن میں لگائے گئے سی سی ٹی وی کیمروں پرخواتین کی جانب سے اعتراض کیا گیا، جس کی وجہ سے پولنگ سٹیشن پر خواتین کی تعداد کم رہی۔ 
انہوں نے بتایا کہ دن بھر قبائلی اضلاع میں سیاسی جماعتوں کے کیمپس میں گہما گہمی رہی جبکہ چند آزاد امیدواروں کی جانب سے ووٹرز کو متحرک کرنے کے لیے ریلیاں بھی نکالی گئیں۔ 

صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لینا سابقہ فاٹا کے عوام کا دیرینہ مطالبہ تھا۔ (فوٹو:اے ایف پی)

الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مطابق انتخابات کے لیے 18 سو 97 میں سے  مردوں کے لیے 492، خواتین کے لیے 366 جبکہ ایک ہزار 39 مشترکہ پولنگ سٹیشنز قائم کیے گئے۔
قبائلی اضلاع کے خیبر پختنوخوا اسمبلی کی 16 نشستوں پر انتخابات میں 282 امیدواروں نے حصہ لیا۔  
اس کے علاوہ خواتین کی چار مخصوص نشستوں پر 22 جبکہ ایک اقلیتی نشست پر چھ امیدوار تھے۔  
ان 16 حلقوں میں 28 لاکھ ایک ہزار ووٹرز رجسٹرڈ ہیں، جس میں 16 لاکھ 71 ہزار مرد جبکہ 11 لاکھ تیس ہزار 5 سو خواتین ہیں۔ 
پولنگ کے لیے 18 سو 97 پولنگ سٹیشزن قائم کیے گئے تھے۔ جن میں سے 464 پولنگ سٹیشنز کو حساس قرار دیا تھا۔ فرنٹئیر کور اور پاکستان فوج کے جوانوں نے سیکیورٹی کے فرائض سر انجام دیے۔ 
پولنگ سٹیشنز کے باہر پاک فوج کے جوان تعینات کیے گئے جبکہ حساس ہولنگ سٹیشنز کے اندر  پاک فوج کی نگرانی میں پولنگ کا عمل مکمل ہوا۔
فاٹا اصلاحات
2015 میں حکومت نے فاٹا اصلاحات کے لیے سابق مشیرخارجہ سرتاج عزیزکی سربراہی میں اصلاحاتی کمیٹی تشکیل دی تھی، جس نے فاٹا اصلاحات کے حوالے سے تجاویز پیش کیں۔ 
کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کا فیصلہ کیا گیا، تاہم اس فیصلے پر عملدرآمدر کروانے میں حکومت کو متعدد سیاسی جماعتوں کی جانب سے مخالفت کا سامنا تھا۔ مسلم لیگ ن کی حکومت میں شامل اتحادی جماعت جمیعت علمائے اسلام ف اور پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی فاٹا اور خیبر پختونخوا کے انضمام کے فیصلے کی شدید مخالفت کرتے رہے۔ 
ستمبر 2017 کو وفاقی کابینہ نے فاٹا اصلاحات بل پارلیمنٹ میں لانے کی منظوری دی۔

کسی ناخوشگوار واقعے سے نمٹنے کے لیے پاکستان فوج کے جوان پولنگ سٹیشنز کے باہر تعینات تھے۔ (فوٹو:اے ایف پی)

مسلم لیگ ن کی حکومت کے آخری روز 24 مئی 2018 کو وفاقی وزیر قانون نے فاٹا اصلاحات کا آئینی ترمیمی بل قومی اسمبلی میں پیش کیا جو بھاری اکثریت سے منظور کر لیا گیا۔ اسکے بعد سینیٹ سے بھی پچیسواں آئینی ترمیمی بل کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا۔
فاٹاآئینی ترمیمی بل منظوری کے دوران حکومتی اتحاد میں شامل مولانا فضل الرحمن اور محمود خان اچکزئی نے احتجاجاً اجلاس سے واک آؤٹ کیا تھا۔ 
فاٹا انضمام کے بعد قبائلی اضلاع کے رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ نے پرائیوٹ بل پیش کیا جس میں قبائلی علاقوں میں عوامی نمائندگی بڑھانے کا مطالبہ کیا گیا۔
مئی 2019 میں قومی اسمبلی نے رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ کا چھبیسواں آئینی ترمیمی بل متفقہ طور پر منظور کرلیا۔
آئینی ترمیم کے تحت خیبرپختونخوا اسمبلی کی نشستوں کی تعداد میں اضافہ ہوا اور یوں قبائلی اضلاع کےلیے 21 نشستیں مختص کی گئیں۔ قبائلی اضلاع کی صوبائی اسمبلی کی 21 میں سے 16 عام، چار خواتین جبکہ ایک اقلیتی نشست مقرر کی گئی۔

شیئر: