Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’حقیقت پر مبنی کہانیاں نہ لکھتا تو مقبولیت نہ ملتی‘

عمر شاہد کا کہنا ہے کہ ان کے ناول حقیقت سے قریب ہونے کی وجہ سے مقبول ہوئے۔ فوٹو اے ایف پی
ذاتی تجربات کی عکاسی کرتی کہانیاں لکھنے والے کراچی کے پولیس آفیسر عمرشاہد حامد اپنے تیزی سے مقبول ہوتے ناولوں کی وجہ سے پاکستان میں انگریزی کے مشہور مصنفوں میں سے ایک بن رہے ہیں۔
عمر شاہد کے والد کے الیکٹرک (اس وقت کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن) میں اعلیٰ عہدے پر فائز تھے۔ عمر کے والد کو کراچی میں قتل کردیا گیا تھا۔  عمر شاہد کے ایک ساتھی پولیس آفیسر کو طالبان نے قتل کردیا تھا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق وہ تقریباً دو دہائیوں سے پاکستان کے ساحلی شہر کراچی میں فرائض انجام دے رہے ہیں، جو کئی سالوں سے شدت پسندی اورجرائم کا گڑھ رہا ہے۔
انہوں نے 2013 سے اب تک چار ناول لکھے ہیں جنہیں کافی مقبولیت حاصل ہوئی ہے۔

عمر شاہد تقریباً دو دہائیوں سے ساحلی شہر کراچی میں فرائض انجام دے رہے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

اے ایف پی کے مطابق ان کی کہانیاں نیٹ فلکس جیسے اداروں کی توجہ کا مرکز بنی ہیں جنہیں سیریز کے لیے جنوبی ایشیا سے مواد کی تلاش رہتی ہے۔
واضح رہے کہ ممبئی میں جرائم اور انڈرورلڈ سے متعلق نیٹ فلکس کی سیریز ’سیکرڈ گیمز‘ کو خاصی مقبولیت ملی ہے۔
عمر شاہد کا کہنا ہے کہ ان کے ناولوں کو اس لیے مقبولیت حاصل ہوئی ہے کیونکہ ان میں انہوں نے سیاسی فسادات، قاتلوں اور بے ایمان پولیس والوں کا ذکر کیا ہے، اور ساتھ ہی کراچی کے مختلف بنیادو پر تقسیم علاقوں کے بارے میں بھی لکھا ہے۔
ان کا ماننا ہے کہ اگر وہ حقیقت پر مبنی کہانیاں نہ لکھتے تو ان کی کتابوں کو مقبولیت حاصل نہیں ہوتی۔
انہوں نے اپنی زیادہ تر کتابیں تب لکھیں جب وہ ڈیوٹی سے عارضی رخصت پر تھے کیونکہ انہیں 2011 میں کراچی چھوڑنے کو کہا گیا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ انہیں کچھ گروپوں کی طرف سے دھمکیاں مل رہی تھیں۔

حقیقت سے قریب

ان کے پہلے ناول ’دا پرزنر‘ کے چھپنے کے کچھ ہفتوں بعد ان کے ساتھی پولیس افسر چودھری اسلم کو ایک خودکش حملے میں ہلاک کر دیا گیا تھا، جس کی ذمہ داری پاکستانی طالبان نے لی تھی۔
ان کے ناول کے کرداروں میں سے ایک کردار چودھری اسلم سے متاثر تھا۔
اپنے تیسرے ناول ’دا پارٹی ورکر‘ میں انہوں نے ان قاتلوں کا ذکر کیا ہے جو کہ لوگوں کو مبینہ طور پر ایک سیاسی جماعت کے کہنے پر قتل کرتے تھے۔

جن لوگوں کو کراچی کے بارے میں علم ہے انہیں معلوم ہوگا کہ اس ناول کا کردار صولت مرزا سے متاثر ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

جن لوگوں کو کراچی کے بارے میں علم ہے انہیں معلوم ہوگا کہ اس ناول کا کردار صولت مرزا سے متاثر ہے، جو کہ کراچی میں ایک سیاسی جماعت کا حصہ تھے۔ وہ عمر شاہد کے والد شاہد حامد کے قاتلوں میں سے ایک تھے۔
لیکن عمر شاہد کا کہنا ہے کہ ان کے ناول کا کردار خاص صولت مرزا سے متاثر نہیں بلکہ ایک نوجواں کی عکاسی کرتا ہے جو 40 سال کی عمر میں ایسے نظریات پر اپنی جان دے دیتا ہے جنہیں وہ صحیح مانتا ہے۔
کراچی میں جیو نیوز کے بیورو چیف فہیم صدیقی کا کہنا ہے، ’جو انہوں نے لکھا ہے وہ یوں تو افسانہ ہے لیکن حقیقت سے بہت قریب ہے۔‘
’ایک کرائم رپورٹر ہونے کے طور پر میں جانتا ہوں کہ شہر میں کیا ہوا تھا۔ ایسے واقعات کے بارے میں لکھنے کے لیے بہت ہمت کی ضرورت ہے۔‘
عمر شاہد نے اپنے ناولوں میں نہ صرف اپنے نقصانات کی عکاسی کی ہے، بلکہ ان واقعات کے بارے میں بھی لکھا ہے جنہوں نے پچھلے 30 سالوں میں کراچی کو ہلا کر رکھ دیا۔ ان واقعات میں پاکستان کے سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو کے بھائی مرتضیٰ بھٹو اور امریکی صحافی ڈینیل پرل کا قتل شامل ہیں، جو کہ کراچی میں ہوئے تھے۔

شیئر: