Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گاڑیوں کی رجسٹریشن: اسلام آباد کا ہی رخ کیوں ؟

ٹریفک جام کے خاتمے اور سڑکوں کو بچانے کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ پر توجہ دینا ہوگی۔
پنجاب کے دارالحکومت لاہور شہر کی سڑکوں پر اکا دکا اسلام آباد نمبر پلیٹ کی گاڑیاں نظر آنا تو معمول کی بات لگتی تھی اور پہلا تاثر یہی ہوتا ہے کہ لوگ ویک اینڈ پر شاید لاہور آتے ہیں۔
لیکن پچھلے کچھ برسوں سے اسلام آباد نمبر پلیٹ کی گاڑیاں آپ کو لاہور کی سبھی سڑکوں پر پورا ہفتہ ہی نظر آتی ہیں اور دن بدن ان کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔
ایسے میں تجسس پیدا ہوا کہ اسلام آباد والوں نے لاہور کا رخ کیوں کر لیا۔ جب معاملے کی کھوج لگائی تو کچھ اور ہی حقائق سامنے آئے۔
2017  کی مردم شماری کے مطابق اسلام آباد کی آبادی ساڑھے دس لاکھ ہے۔ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ڈیپارٹمنٹ اسلام آباد انتظامیہ کے مطابق ان کے پاس کل سوا گیارہ لاکھ گاڑیاں رجسٹر ہو چکی ہیں جن میں موٹر سائیکل سے لے کر بڑی گاڑیوں تک سب شامل ہیں۔ یعنی دوسرے لفظوں میں اسلام آباد پاکستان کا پہلا شہر بن چکا ہے جہاں کی آبادی سے وہاں چلنے والی رجسٹرڈ گاڑیوں کی تعداد زیادہ ہو چکی ہے۔

پنجاب میں رجسٹرڈ گاڑیوں میں سے 40 فیصد پر لاہور کا نمبر درج ہے۔ 

ایکسائز ڈیپارٹمنٹ اسلام آباد کے ایک اہلکار کے مطابق اسلام آباد میں گاڑیوں کی اتنی تعداد میں رجسٹریشن کی کئی وجوہات ہیں جن میں ایک وجہ ٹوکن ٹیکس اور رجسٹریشن فیس میں کمی ہے۔ جب لگژری ٹیکس نہ ہونے کی وجہ سے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں بڑی گاڑیاں خریدنے والے اسلام آباد رجسٹریشن کو فوقیت دیتے ہیں۔ 

اسلام آباد رجسٹریشن کی اہمیت کیوں؟ 

تو کیا محض ٹوکن ٹیکس اور رجسٹریشن کی کم فیس ہی وہ وجہ ہے جس کے لیے لوگ اسلام آباد میں گاڑی کی رجسٹریشن کو ترجیح دیتے ہیں؟ جب اس سلسلے میں پنجاب کے ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ڈیپارٹمنٹ سے رابطہ کیا گیا تو ان کا نکتہ نظر تھوڑا مختلف تھا۔
ڈائریکٹر محکمہ ایکسائز عمران اسلم کے مطابق یہ ایک وجہ نہیں ’کیا آپ اس بات پر یقین کریں گے کہ اس وقت لاہور میں کل رجسٹرڈ گاڑیوں کی تعداد 47 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے اور یہ تعداد پنجاب کی کل رجسڑڈ گاڑیوں کا 40 فیصد ہے۔
انہوں نے بتایا کہ لوگوں کے اندر ایک کلچر بن چکا ہے کہ لوگ بڑے شہر میں گاڑیوں کی رجسٹریشن کروانا پسند کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا ’پولیس کلچر کا بھی اس میں بڑا ہاتھ ہے آپ لاہور میں داخل ہو رہے ہوں اور گاڑی کا نمبر لاہور کا ہو تو پولیس والے زیادہ پوچھ گچھ نہیں کرتے۔ یہی حال اسلام آباد کا ہے۔ تمام تفریحی پہاڑی مقامات جانے کے لیے اسلام آباد سے گزرنا پڑتا ہے اگر گاڑی پر اسلام آباد کا نمبر ہوگا تو آپ پولیس کے روکے جانے سے بے فکر رہتے ہیں۔

شہر کی آبادی سے گاڑیوں کی تعداد بڑھ جائے تو متعلقہ محکمے کے ذمہ داران کو اس پر سوچنا چاہیے۔

اسلام آباد میں کئی برس سے گاڑیوں کا کاروبار کرنے والے زیرک بنگش ان ساری باتوں سے متفق ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ اسلام آباد ایکسائز کے محکمے نے سب سے پہلے سارا عمل کمپیوٹرائز کیا اس لیے لوگوں کو لگتا ہے کہ اسلام آباد کی نمبر لگی گاڑی خریدنے سے مسائل کم ہوتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’اس وقت اسلام آباد نمبر ٹاپ پر ہے۔ دوسرے نمبر پر لاہور تیسرے پر پشاور اور چوتھے پر کراچی ہے۔ اسلام آباد کی نمبر لگی گاڑی بیچنے میں کوئی پرابلم نہیں ہوتا۔ جتنے کی لیں اتنے میں یا اس سے زیادہ کی نکل جاتی ہے۔ پہلے لاہور نمبر بھی قابل اعتبار تھا لیکن اب دو نمبریوں کی وجہ سے اس کی مانگ میں کمی آئی ہے۔
 زیرک بنگش کے مطابق صرف اسلام آباد کے نمبر کی وجہ سے ہی گاڑی کی قیمت میں 50 ہزار سے لاکھ کا فرق پڑ جاتا ہے۔

کیا اسلام آباد کی نمبر پلیٹ سٹیٹس سمبل ہے؟ 

محکمہ ایکسائز پنجاب نے گاڑیوں کی رجسٹریشن سمارٹ کارڈ پر منتقل کرنے کا عمل شروع کر دیا ہے، کیا جب سارا سسٹم کمپیوٹر پر منتقل ہو جائے گا تو لوگ اسلام آباد کے نمبر کو ترجیح دینا بند کر دیں گے؟ اس سوال پر زیرک بنگش کا کہنا تھا ’اگر ایسا ہو جائے تو فرق تو پڑے گا لیکن لوگوں کے ذہن بدلنا پھر بھی مشکل ہے اسلام آباد کے نمبر کو لوگوں نے سٹیٹس سمبل بھی بنا لیا ہے۔
وہ کہتے ہیں ’دارالحکومت کے نمبر کی گاڑی لوگ پسند کرتے ہیں حالانکہ نمبر میں کچھ نہیں رکھا ہوا نہ تو اس سے گاڑی کی قانونی حیثیت متاثر ہوتی ہے نہ قانونی فائدہ ملتا ہے۔ ہاں البتہ اس بھیڑ چال کی وجہ سے نمبر پلیٹ مارکیٹ اکانومی کو تھوڑا بہت اثر انداز ضرور کرتی ہے۔
محکمہ ایکسائز پنجاب کے ڈائریکٹر عمران اسلم کے مطابق سٹیٹس سمبل کے علاوہ ایک وجہ لوگوں کی سہل پسندی اور مجبوری بھی ہے۔ جہاں لوگوں کا آنا جانا زیادہ ہو وہ چاہتے ہیں ان کی گاڑی کی شناخت اگر اسی شہر کی ہوگی تو ان کا وقت بچے گا۔ بلاوجہ روکے جانے سے کاروباری لوگوں کا وقت ضائع ہوتا ہے۔ 

گاڑیوں کا کاروبار کرنے والے کہتے ہیں کہ اسلام آباد نمبر گاڑی کی قیمت زیادہ لگتی ہے۔

شتر بے مہار رجسٹریشن کی اصل وجہ

لوگوں کے خود ساختہ دارالحکومت کلچر، سٹیٹس سمبل یا پھر گاڑی کی قیمت برقرار رکھنے کی وجوہات نے اسلام آباد میں گاڑیوں کی رجسٹریشن وہاں کی آبادی سے زیادہ کر دی ہے۔ تو کیا یہ سلسلہ ایسے ہی چلے گا؟ گاڑیوں کی رجسٹریشن کو کنٹرول کیسے کیا جا سکتا ہے اور کنٹرول کرنا کیوں ضروری ہے؟ ان سوالوں کے جواب محکمہ ایکسائز پنجاب کے ہی ایک نوجوان آفیسر عدیل امجد کے تحقیقی مقالہ میں موجود ہیں۔
وہ اپنے مقالے میں لکھتے ہیں کہ کسی بھی شہر یا ملک میں گاڑیوں کی رجسٹریشن کی حد مقرر کرنا انتہائی ضروری ہے اور یہ براہ راست اس ملک یا شہر کے مواصلاتی نظام سے منسلک ہے اور یہ پریکٹس پوری دنیا میں کی جاتی ہے۔
مقالے کے مطابق محکمہ مواصلات سے زیادہ کوئی نہیں جانتا کہ کن شہروں کے اندر اور باہر سڑکوں کی صلاحیت کتنی گاڑیوں کو برداشت کرنے کی ہے۔ اور یہی ڈیٹا متعلقہ ایکسائز کے محکموں کے پاس موجود ہو تو ہر شہر میں رجسٹریشن کے عمل کو روک لگائی جا سکتی ہے۔ اور یقیناً اس کے ساتھ مناسب پبلک ٹرانسپورٹ نظام کا ہونا بھی ضروری ہے۔
ان کے اس مقالے میں حاصل تجزیے کے مطابق اسلام آباد سمیت ملک بھر کا انفراسٹرکچر اتنی زیادہ گاڑیوں کا متحمل نہیں یہی وجہ ہے کہ سڑکیں بہت جلد ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتی ہیں یا ٹریفک جام کے لا متناہی مسئلے کا سامنا رہتا ہے۔ 

شیئر:

متعلقہ خبریں