Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تاریخ کا بڑا ’سائنسی جوا‘

ہزاروں سال قبل انسان جنگلوں،غاروں میں رہتا تھا، خوراک کے لیے لڑنا جھگڑنا، مرنا مارنا عام سی بات تھی۔ بات بے بات خون بہایا جاتا، جانوروں کی سی زندگی گزارتا تھا۔ پھر معلوم ہوا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسان مہذب ہوتا گیا، تعلیم عام ہوئی، ایک دوسرے کا احترام سیکھا گیا، ایک دوسرے کے حقوق تسلیم کیے گئے۔ کیا واقعی ایسا ہے؟
آج انسان جنگلوں کے بجائے گھروں میں رہتا ہے۔ بھوک اور خوراک آج بھی اس کا سب سے بڑا مسئلہ ہے، چلو مان لیتے ہیں کہ جانوروں کی سی زندگی نہیں گزار رہا تو مشینوں کی سی ضرور گزار رہا ہے۔ رہ گئے لڑائی جھگڑے، تو وہ بڑھ کر جنگوں میں تبدیل ہو گئے ہیں۔ ہاں ایک نکتہ البتہ مختلف ہے تب خون بہایا جاتا تھا اب تو یوں پگھلایا، جلایا یا اڑایا جاتا ہے کہ خون بہتا ہے نہ جمتا۔
ایسے میں اس قسم کے سوال کہ ’پھر ایسی ترقی کا فائدہ‘ پوچھنے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ سب کے پاس اپنے اپنے ’چونکہ چنانچہ اگر مگر‘ وغیرہ ہیں تاہم اس سوال کہ جنگی مقاصد کے لیے ایٹم کو بم میں ڈھالنے کا خیال سب سے پہلے کسے آیا، ہیروشیما، ناگاساکی پر گرائے گئے بم کب، کیسے، کس نے اور کہاں بنائے؟ کا جواب ضرور دیا جا سکتا ہے۔

6 اگست 1945 کو ہیروشیما پر گرایا جانے والا ایٹم بم لٹل بوائے۔ تصویر: وکی پیڈیا

مین ہیٹن پراجیکٹ
دوسری عالمی جنگ کے آغاز سے کچھ عرصہ قبل 1939 میں امریکہ، برطانیہ اور کینیڈا نے مل کر ایٹم بم بنانے کے منصوبے کا آغاز کیا تھا جس کا نام ’مین ہیٹن پراجیکٹ‘ تھا۔ یہ ایک خفیہ منصوبہ تھا۔ اس کے لیے دو ارب ڈالرز کی رقم رکھی گئی۔ اس وقت امریکہ کے سیکرٹری برائے جنگ ہنری ایل سٹیمسن ایک ریپبلکن تھے جبکہ آرمی چیف آف سٹاف جنرل جارج سی مارشل تھے۔ انہوں نے کانگریس کے چند ایک رہنماؤں کو ہی اس سے آگاہ کیا تھا۔ انہوں نے منصوبے کے حوالے سے بننے والی کمیٹی کے اہم اراکین کے علاوہ زیادہ تر کانگریسی ارکان کے مشورے کے بغیر ہی منصوبے کے لیے درکار رقم فراہم کر دی تھی۔

9 اگست کو ناگا ساکی پر ایٹمی حملے کے بعد تباہی کا منظر۔ تصویر: وکی پیڈیا

ایٹم بطور جنگی ہتھیار
ایٹم کے حوالے سے نظریات انیس ویں صدی کے آغاز میں ہی آنا شروع ہو گئے تھے تاہم پہلی عالمی جنگ تک اس کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کا خیال کسی کو نہیں آیا، اس کے بعد اس بارے میں سوچا جانے لگا۔ کچھ مزید نظریات پیش ہونے، صورت حال واضح ہونے اور سائنس دانوں کی تحقیق کے بعد امریکہ نے اس پر کام کرنے کا سوچا جو اس وقت تیز ہوا جب جرمنی، پولینڈ پر حملے کی تیاری کر رہا تھا۔
ایک نظر آتی بڑی جنگ کے پیش نظر امریکی حکام نے عملی بنیادوں پر کام کا فیصلہ کیا، 1939 میں اس وقت کے صدر فرینکلن روزویلٹ نے یورینیئم پر ابتدائی تحقیق کے لیے کمیٹی بنائی اور اس کے لیے فنڈز بھی جاری کیے۔
جرمنی نے پولینڈ پر حملہ کیا تو یکے بعد دیگرے کئی ممالک جنگ میں کودتے گئے جس پر امریکہ میں ایٹمی تحقیق کا کام مزید تیز کر دیا گیا۔ چند ماہ بعد جاپان، اٹلی اور جرمنی نے امریکہ کے خلاف اعلان جنگ کر دیا۔

مین ہٹن ایٹمی پراجیکٹ کے ڈائریکٹر جے اوپن ہیمر۔ تصویر: اے ایف پی

اس دوران ایٹم بم کی تیاری کا کام تیزی سے جاری رہا اور قریباً ساڑھے چار سال میں ایسے ایٹم بم بنا لیے گئے جو چلانے کے لیے تیار تھے۔
پہلا ایٹمی تجربہ
امریکہ کی جانب سے دنیا کے پہلے ایٹمی دھماکے کا تجربہ قریباً 74 برس قبل 16 جولائی 1945 کو میکسیکو کے علاقے ٹرینیٹی سائٹ پر صبح ساڑھے پانچ بجے کیا گیا۔
دن رات ایک کر کے ایٹم بم بنانے والے سائنس دان اس سے ایک منٹ قبل انتہائی متفکر تھے کیونکہ تمام تر تیاری کے باوجود ان کے ذہن میں ایسی کھٹک بھی تھی کہ کہیں تجربہ ناکام نہ ہو جائے۔
اس منصوبے میں شامل ماہر طبعیات ایڈورڈ ٹیلر نے اپنی یادداشتوں میں لکھا کہ ’میں اس وقت کافی متجسس تھا کہ یہ سب کیسے ہو گا اور فکرمند بھی کہ کہیں کوئی گڑ بڑ نہ ہو جائے، اسی پراجیکٹ میں میرے ساتھ کام کرنے والے کئی سائنس دانوں کا خیال تھا کہ یہ کام نہیں کرے گا۔‘

دوسری جنگ عظیم کے دوران ایٹمی مواد انڈیانا پولس نامی جنگی بحری جہاز کے ذریعے لے جایا گیا۔ تصویر: وکی پیڈیا

انہوں نے لکھا کہ ’شاید کسی کو یقین نہ آئے لیکن ایٹم بم کے مرکزی مواد کو ایک بیوک کار کی پچھلی سیٹ پر رکھ کر سائٹ تک لے جایا گیا۔‘
ایک اور ماہر طبعیات فلپ مورسن کے مطابق ’دھماکے سے چند لمحے قبل جب سورج نہیں ابھرا تھا اندھیرا تھا لیکن دھماکہ ہوتے ماحول ایک گرم دن کی طرح روشن ہو گیا۔‘
 مین ہینٹن پراجیکٹ کے ڈائریکٹر رابرٹ اوپین ہائمر لکھتے ہیں ’پہلے یقین ہی نہیں آیا کہ تجربہ کامیاب ہو چکا ہے، وہ ایک جذباتی منظر تھا، کچھ لوگ ہنس رہے تھے، کچھ خاموش تھے اور کچھ رو رہے تھے۔‘
ایٹم بم کی مشرقی ایشیا روانگی
فرینکلن روزویلٹ کے بعد ہیری ایس ٹرومین صدر بن چکے تھے۔ انہوں نے کامیاب تجربے کے چند ہی روز بعد جوہری مواد مشرقی ایشیا میں امریکی بحری بیڑے کے لیے بھجوانے کی اجازت دی۔ یہ مواد انڈیانا پولس نامی بحری جہاز لے کر گیا جسے واپسی پر جاپان کی آبدوز نے نشانہ بناتے ہوئے تباہ کر دیا تھا تاہم موت کا سامان مرکزی بیڑے پر پہنچ چکا تھا۔

دوسری جنگ عظیم کے دوران 9 اگست 1945 کو ناگاساکی پر گرایا جانے والا ایٹم بم۔ تصویر: وکی پیڈیا

ایٹمی حملے سے چند گھنٹے قبل ہیری ایس ٹرومین نے جاپان کو خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’اگر ہماری شرائط تسلیم نہیں کی جائیں گی تو آپ کو آسمان سے برسنے والی ایسی تباہی کے لیے تیار رہنا چاہیے جس کی مثال دنیا میں کہیں موجود نہیں۔‘
حملے کے بعد انہوں نے مین ہیٹن کے سائنس دانوں کو خراج تحسین پیش کیا تھا اور کہا تھا کہ ’ہم نے تاریخ کا سب سے بڑا سائنسی جوا کھیلا اور جیت لیا۔‘
ہیروشیما، ناگاساکی پر ایٹمی حملہ
چھ اور نو اگست کو’لٹل بوائے‘ اور ’فیٹ بوائے‘ نامی بم بالترتیب ہیروشیما اور ناگاساکی پر گرائے گئے جس سے مجموعی طور پر دو لاکھ 14 ہزار افراد ہلاک اور لاکھوں زخمی ہوئے، پلک جھپکتے شہروں کے شہر اجڑ گئے۔ اس تباہی نے جاپان کو ہلا کر رکھ دیا۔ اس کے چند روز بعد ہی جاپانی فوج نے ہتھیار ڈال دیے اور دوسری عالمی جنگ کا خاتمہ ہو گیا۔
جوہری صلاحیت رکھنے والے ممالک
امریکا کے بعد دوسرے ممالک بھی ایٹمی ٹیکنالوجی کے حصول میں جت گئے۔ اس وقت دنیا کے نو ممالک کے پاس ایٹمی ہتھیار موجود ہیں جن میں امریکہ، روس، برطانیہ، چین، فرانس، پاکستان، انڈیا، اسرائیل اور شمالی کوریا شامل ہیں۔ 

شیئر:

متعلقہ خبریں