Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

امریکہ، ایران ایٹمی معاہدے کا مستقبل

 عبدالرحمان الراشد ۔ الشرق الاوسط
اب سے تقریباً2ہفتے بعد امریکی صدر ٹرمپ یہ فیصلہ کرلیں گے کہ آیا امریکہ ایران کے ساتھ کیا گیا ایٹمی معاہدہ برقرار رکھے گا یا اس سے دست بردار ہوجائیگا۔ امریکی صدر کے اس فیصلے کے نتائج انتہائی دور رس ہونگے۔
قبل اسکے کہ میں یہ بتاﺅں کہ امریکی صدر کے فیصلے کا مطلب کیا ہوگا ؟ ہمیں اس فیصلے کے اطراف چھائے ہوئے ماحول کو بھی جاننا ہوگا۔ مثال کے طو ر پر فرانسیسی صدر کو ہی لے لیجئے۔ وہ ایران کے ساتھ کئے گئے ایٹمی معاہدے کے حامی ہیں۔ وہ اس امید پرواشنگٹن پہنچے تھے کہ وہ صدر ٹرمپ کو معاہدہ برقرار رکھنے پر راضی کرلیں گے۔علاوہ ازیں جرمن چانسلر بھی اسی غرض سے واشنگٹن پہنچی تھیں۔ان کا موقف بھی فرانسیسی صدر جیسا ہے۔ ان کے دورہ امریکہ کی غرض بھی یہی تھی کہ صدر ٹرمپ کو ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدہ برقرار رکھنے پر تیارکرلیں گے۔ان دونوں سے قبل سعودی ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان امریکہ کے دورے پر واشنگٹن پہنچے تھے۔ ایران کے ایٹمی معاہدے کی بابت ان کا نقطہ نظر فرانس اور جرمنی سے بالکل مختلف تھا ۔ اسی دوران ایرانی رہنما، امریکی صدر کے فیصلے کی بابت اپنی پالیسی کا اظہار دھڑا دھڑبیان دیکر کررہے ہیں۔ بعض رہنما ترغیبات کی باتیں کررہے ہیں۔ دیگر ڈرانے ، دھمکانے کی گفتگو کررہے ہیں۔ کہہ رہے ہیں کہ اگر امریکہ نے ایٹمی معاہدہ سے پسپائی اختیار کی تو خطے کا امن ،اسرائیل کا امن اور خود امریکہ کا امن خطرات کے حوالے کرنے کے ذمے دار خود ٹرمپ ہونگے۔ایرانی، دھمکیوں کے ساتھ ساتھ سرگوشی کے لہجے میں دستبرداریاں دینے کی باتیں بھی کررہے ہیں۔ ایران نے ترغیب دیتے ہوئے کہا کہ اگر امریکہ معاہدے سے دستبردار نہ ہوا تو ایسی صورت میں اس کے قیدی بھی چھوڑے جاسکتے ہیں۔ 
ٹرمپ انتظامیہ کا نقطہ نظر اظہر من الشمس ہے ۔ کئی بار اعلان کیا جاچکا ہے کہ 3برس قبل باراک اوبامہ انتظامیہ نے یہ معاہدہ کرکے بھاری غلطی کی۔ٹرمپ کا خیال ہے کہ اس معاہدے کی بدولت گو عسکری مقاصد کیلئے یورینیئم کی افزودگی کا سلسلہ بند ہوگیا تاہم اس معاہدے نے ایران کو خطے میں عسکری سرگرمیوں کے حوالے سے فری ہینڈ دیدیا۔ ایران شام اور یمن میں خوفناک تخریبی طاقت بن گیا۔ معاہدے کے بعد عراق میں اپنا کنٹرول بڑھا لیا۔ لبنان اور غزہ میں ایرانی ملیشیائیں سرگرم ہوگئیں۔ٹرمپ کا کہنا ہے کہ یہ معاہدہ امریکہ کے حق میں قطعاً نہیں۔ اس سے خطے میں اس کے مفادات کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ اس معاہدے کے بموجب امریکہ ایرانی نظام کو بھاری ما لی معاوضے دینے پر مجبور ہوا۔ ان میں سے کچھ رقوم وہ بھی تھیں جو ایرانی انقلاب کے بعد امریکی خزانوں میں منجمد کردی گئی تھیں۔ 
مقصد ایٹمی معاہدے کی منسوخی نہیں ، حالانکہ بعض لوگ ایسا ہی سمجھ رہے ہیں۔ مقصد ایران کے عہدو پیمان کی حد بندی کیلئے مذاکرات کے نئے سلسلے کی شروعات ہے۔ معاہدے کے بعد ایران پر نافذ سخت اقتصادی پابندیاں اٹھا لی گئیں حالانکہ یہ پابندیاں خطے کے امن اور امریکی مفادات کے خلاف ایران کی پر خطر سرگرمیوں کے تناظر میں لگائی گئی تھیں۔
معاہدے نے ایٹمی دائرے کو محدود کردیا تاہم ایران اس معاہدے کے بعد زیادہ پرخطر اور زیادہ جارح بن گیا۔ شام میں 5لاکھ سے زیادہ افراد کے قتل کا ذمہ دار ایران ہی ہے۔ بغداد میں مرکزی حکومت کی ناکامی میں بھی ایران کا ہی ہاتھ ہے۔ ایران ہی نے یمن میں آئینی حکومت کا تختہ الٹوایا اور وہاں سعودی عرب کے خلاف جنگ کا بجٹ فراہم کیا۔
نیا منظر نامہ یہ ہے کہ یورپی ممالک ایران کے ساتھ طے پانیوالے ایٹمی معاہدے کو برقرار رکھنے کے خواہشمند نظر آرہے ہیں۔ اس تناظر میں اس کا بڑا امکان ہے کہ ایران کے ساتھ درمیانہ حل معاہدے کی بابت طے پاجائے۔ 
یورپی ممالک کو اس بات سے زیادہ دلچسپی نہیں کہ ایران کو لگام لگائی جائے یا نہ لگائی جائے۔ ویسے بھی یورپی ممالک تن تنہا ایران کو منہ توڑ جواب دینے کی عسکری صلاحیت نہیں رکھتے۔ وہ ایران کو چیلنج دینے کے سلسلے میں پرجوش بھی نہیں۔ان کا خیال ہے کہ ایران کے ساتھ طے پانے والا ایٹمی عسکری معاہدہ بذات خود بڑا کارنامہ ہے۔ ان کی سوچ یہ بھی ہے کہ مشرق وسطیٰ کے ممالک اپنے مسائل آپس میں بات چیت کرکے حل کرسکتے ہیں۔ انہیں اس حوالے سے جانی اور مالی قیمت سے کوئی دلچسپی نہیں۔ 
یورپی ممالک کو اب اس بات کا خدشہ ہے کہ کہیں ٹرمپ اس معاہدے کی دستاویز ہوا میں نہ اڑا دیں جو انہوں نے 5برس کی انتھک جدو جہد کرکے طے کیا تھا۔ اب 2موقف اور ہیں۔ ایک تو خلیجی ممالک کا، دوسرا اسرائیل کا ۔ سعودی عرب کا خیال ہے کہ یہ معاہدہ ناقص ہے۔ اس کے ذریعے خونریز تاریخ رکھنے والے نظام پر بھروسہ کیا گیا ہے۔تیسری جانب امریکی وزیر خارجہ اور قومی سلامتی کے مشیر معاہدے کی مخالفت پر کمر بستہ ہیں۔ اب دیکھنا ہے کہ آنے والے ایام میں معاہدہ برقرار رکھا جاتا ہے یااسے مسترد کیا جاتا ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 

شیئر: