Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آسام: ’اگر میرے بچے انڈین شہری ہیں تو بیوی کیوں نہیں؟‘

حکام کے مطابق صرف ان لوگوں کو شہریت دی جا سکتی تھی جن کے آباؤ اجداد 1971 سے پہلے انڈیا میں موجود تھے (فوٹو:اے ایف پی)
انڈیا کی شمال مشرقی ریاست آسام میں انڈین حکومت کی جانب سے مقامی باشندوں کی شناخت کے لیے جاری کی گئی حتمی فہرست نیشنل رجسٹر آف سیٹزن (این آر سی) کو خود حکومتی جماعت کے حامی تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
ہفتے کو جاری ہونے والی اس فہرست میں کم از کم 19 لاکھ باشندوں کو شامل نہیں کیا گیا تھا جس کے بعد مختلف حلقوں نے شہریت کی فہرست میں شامل نہ کیے جانے والے باشندوں کے غیر یقینی مستقبل کے حوالے سے سوال اٹھانا شروع کر دیے تھے۔
انڈین وزیر اعظم نریندر مودی کی جماعت ہمیشہ کہتی آئی ہے کہ آسام کے شہریوں کی فہرست تیار کرنا اور تارکین وطن کو ملک سے نکالنا بہت اہم ہے تاہم اب جماعت کے اپنے ہی لوگ اس سے ناخوش دکھائی دیتے ہیں۔
پریس ٹرسٹ آف انڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے آسام میں بی جے پی کے صدر رنجیت کمار داس کا کہنا تھا کہ ’ہم اس فہرست پر یقین نہیں کرتے اور ہم بہت ناخوش ہیں۔ جعلی سرٹیفیکیٹ والے بہت سے باشندوں کو فہرست میں شامل کر لیا گیا ہے جبکہ کئی ’اصل انڈینز‘ کو اس میں جگہ نہیں دی گئی۔‘
انڈین حکومت کے مطابق جو باشندے فہرست میں شامل نہیں ہو سکے اور انہیں اس چیز پر اعتراض ہے تو وہ 120 دن کے اندر اندر ٹربیونلز کے سامنے اپیل کر سکتے ہیں۔

شہریت کی فہرست میں شامل نہ کیے جانے والے زیادہ تر افراد غریب اور ان پڑھ ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

رنجیت کمار کے بقول ’ٹربیونلز اصل انڈین شہریوں کے خلاف فیصلے دے رہے ہیں، ہم اس حوالے سے قانون سازی کرتے ہوئے ایکٹ بنائیں گے اور اپنے شہریوں کی حفاظت کریں گے۔‘
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اپوزیشن جماعت گانگریس کے ایک رہنما ادھیر رنجن چوہدری کا کہنا ہے کہ وہ غلطی سے فہرست میں شامل نہ کیے جانے والوں کو قانونی مدد فراہم کریں گے۔
آسام تین کروڑ 30 لاکھ افراد کی آبادی پر مشتمل ہے، برطانوی دور اور 1971 میں بنگلہ دیش بننے کے وقت تارکین وطن کی ایک بڑی تعداد یہاں آباد ہوئی تھی۔
حکام کے مطابق صرف ان لوگوں کو شہریت دی جا سکتی تھی جو 1971 سے پہلے انڈیا میں اپنی یا اپنے آباؤ اجداد کی موجودگی کو ثابت کریں گے۔
آسام کے دیہاتیوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ ایک ہی طرح کی دستاویزات ہونے کے باوجود ان کے خاندان کے کچھ افراد کو فہرست میں شامل کر لیا گیا ہے جبکہ کچھ کو نہیں کیا گیا۔
جینال ابو دین نامی مقامی رہائشی نے کہا کہ ’ہمارے بچوں کے نام فہرست میں شامل ہیں مگر میری بیوی کا نام شامل نہیں حالانکہ اس نے بھی تمام دستاویزات جمع کروائی تھیں، ایسا کیوں ہوا؟‘
شہریت کی فہرست میں شامل نہ کیے جانے والے زیادہ تر افراد غریب اور ان پڑھ ہیں لیکن انڈیا کا شہری بننے کے لیے اب انہیں قانونی جنگ لڑنا پڑے گی۔ ان کے کیسز اگر فارن ٹربیونلز سے مسترد ہو جاتے ہیں تو انہیں شاید عدالت سے بھی رجوع کرنا پڑے۔

فہرست کے خلاف مقامی باشندے چار ماہ کے اندر اپیل کر سکتے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

کشمیر کی آئینی حثیت کے خاتمے کے بعد اب آسام میں شہریت کی فہرست جاری ہونے سے انڈیا میں بسنے والے 17 کروڑ سے زائد مسلمان ہندو قوم پرست وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت میں مزید عدم تحفظ کا شکار ہوگئے ہیں۔ 
بی جے پی کا کہنا ہے کہ وہ آسام ہی نہیں بلکہ ملک کی دیگر تمام ریاستوں میں بھی ایسی ہی فہرستیں جاری کرنا چاہتی ہے۔
ہفتے کو فہرست جاری ہونے کے بعد دلی میں بی جے پی کے سربراہ میجوج تیواری کا کہنا تھا کہ دارالحکومت میں بھی ایسی فہرست بنائی جائے کیونکہ غیر قانونی تارکین کی نشاندہی کرنا انتہائی اہم ہے
وزیراعظم نریندر مودی کی ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے ناقدین کا کہنا تھا کہ نیشنل رجسٹر آف سیٹزن کے عمل سے لگ رہا ہے کہ حکومت ہندوؤں کے لیے کام کرنا چاہتی ہے۔
خیال رہے کہ گذشتہ جنوری میں لوک سبھا میں منظور کیے گئے ایک قانون کے تحت انڈیا میں چھ برسوں سے مقیم بنگلہ دیش، پاکستان اور افغانستان کے ان شہریوں کو شناخت دی گئی جو مسلمان نہیں تھے۔
انڈین وزیر داخلہ امیت شاہ نے الیکشن سے پہلے کہا تھا کہ وہ غیر قانونی تارکین کی اس ’دیمک‘ کو ختم کر دیں گے اور ملک بھر میں ایک مہم کے ذریعے انہیں واپس بھیجا جائے گا۔

شیئر: