اسرائیل اور ایران کے درمیان کشیدگی میں اضافے کی وجہ سے دنیا کی توجہ آبنائے ہرمز نامی اس سمندری تجارتی گزر گاہ کی جانب مبذول ہو رہی ہے جس کے ذریعے روزانہ دنیا کی کل کھپت کا پانچ فیصد تیل سپلائی کیا جاتا ہے۔
عرب نیوز پر حال ہی میں شائع ہونے والی ایک تجزیاتی رپورٹ کہ مطابق ایران اور عمان کے درمیان لگ بھگ 30 کلومیٹر چوڑی یہ سٹرٹیجک گزرگاہ کھلی ہوئی ہے لیکن تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اگر کشیدگی میں شدت آتی ہے تو ایران کی جانب سے اسے بند کیے جانے کا خدشہ بھی موجود ہے۔
آبنائے ہرمز کی بندش یا اس سے گزرنے والے جہازوں پر ایران کے حملوں کی صورت میں اس اہم سمندری راستے سے ہونے والی تجارت بہت زیادہ متاثر ہو گی۔
مزید پڑھیں
-
'امریکہ آبنائے ہرمز پر ایف 16 کی حفاظتی پروازیں بڑھائے گا'
Node ID: 779911
-
-
سعودی جیوپولیٹیکل تجزیہ کار سلمان الانصاری نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’آبنائے ہرمز صرف سمندری گزرگاہ نہیں ہے بلکہ یہ عالمی توانائی کی شہ رگ بھی ہے۔ اگر اسے بند کیا کیا تو عالمی معیشت پر اس کے وسیع تر اثرات پڑیں گے جس کے لیے کوئی بھی تیار نہیں ہے۔‘
امریکہ کی انرجی انفارمیشن ایڈمنسٹریشن (ای آئی اے)کے مطابق آبنائے ہرمز سے روزانہ 20 ارب بیرل تیل گزرتا ہے۔
یہ گزرگاہ اس لیے بھی زیادہ اہمیت کی حامل ہے کہ اس کا کوئی اور بہتر متبادل نہیں ہے۔ خلیجی ممالک کے تیل کی بیش تر کھیپوں کو بہت زیادہ التوا کے بغیر نئے راستوں سے نہیں لے جایا جا سکتا۔
آبنائے ہرمز ہی واحد گہرے پانی والا رُوٹ ہے جو دنیا کے سب سے بڑے خام تیل کے ٹینکرز کے گزرنے کے لیے موزوں ہے۔
گزشتہ برس فروری میں واشنگٹن میں قائم سینٹر فار سکیورٹی پالیسی نے آبنائے ہرمز میں ایران کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کا تجزیہ کیا اور کہا کہ اس آبی گزرگاہ سے گزرنے والے خام تیل کا 76 فیصد ایشیائی منڈیوں کے لیے ہوتا ہے۔
جب اسرائیل پر ایرانی جوابی حملوں کے بعد گزشتہ ہفتے کے دوران خطے میں سیاسی کشیدگی میں اضافہ ہوا تو برینٹ کروڈ ایک ہی دن میں 69 سے بڑھ کر 74 ڈالر فی بیرل ہو گیا تھا حالانکہ اس وقت تک کوئی بھی جہاز آبنائے ہرمز میں روکا نہیں گیا تھا۔
لبنان کی یونیورسٹی کے ماہر اقتصادیات اور پروفیسر جاسم اجاکا نے کہا کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ محض عدم استحکام کے خدشے پر ہی مارکیٹیں کس قدر حساس ہیں۔

پروفیسر جاسم اجاکا نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’آبنائے ہرمز کی بندش سے تیل کی ایک بیرل قیمت میں بہرصورت 100 ڈالر سے زیادہ کا اضافہ ہو جائے گا یعنی قیمت ایک ہی جست میں تقریباً 25 ڈالر تک بڑھ جائے گی اور ایسا اضافہ عالمی معیشت میں معمول نہیں ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’تیل ایک سٹریٹجک اور اہم شے ہے اور جب اس کی قیمت بڑھے گی تو اس کے ساتھ مہنگائی بھی بڑھے گی۔ خام مال کے نکالنے، کھانے پینے کی اشیا اور دیگر چیزوں کی تیاری سے ان کی قیمتیں بڑھیں گی۔‘
تجزیہ کار سلمان الانصاری نے کہا کہ ’ایران اور اسرائیل پہلے ہی براہ راست تصادم میں ہیں اور اس کشیدگی کا اس اہم آبی گزرگاہ میں بڑھنے کا خطرہ خطرناک حد تک حقیقی ہے۔ ایران آبنائے ہرمز کو دباؤ کے آخری حربے کے طور پر دیکھتا ہے۔ اسے بند کرنے سے عالمی سطح پر تیل کو جھٹکا لگے گا، مہنگائی بڑھے گی اور یہ سب کمزور معیشتوں کو خوف میں مبتلا کر دے گا۔‘
جاسم اجاکا نے وضاحت کی کہ تیل کی زیادہ قیمتیں دنیا بھر کے مرکزی بینکوں کو اس مخمصے میں ڈال دیں گی کہ آیا شرح سود کم کرنا ہے یا بڑھانا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ انشورنس کی قیمتیں بڑھیں گی جس سے افراط زر میں اضافہ ہو گا اور یہ کہ کئی ممالک میں سپلائی چین میں بھی خلل پڑے گا۔
’مثال کے طور پر لبنان میں اس کشیدگی کے نتیجے میں بجلی مکمل طور پر بند ہو جائے گی کیونکہ لبنان عراق سے آنے والے ایندھن کے تیل پر مکمل انحصار کرتا ہے۔‘
سعودی عرب دنیا کا سب سے بڑا تیل برآمد کرنے والا ملک ہے۔ اس نے گزشتہ برس آبنائے ہرمز کے راستے 5.5 ملین بیرل تیل یومیہ منتقل کیا۔

لندن میں قائم ریئل ٹائم انسائٹس ڈیلیوری فرم ورٹیکسا کے تیار کردہ ٹینکر ٹریکنگ ڈیٹا کے مطابق یہ آبنائے میں خام تیل کے کل بہاؤ کا 38 فیصد ہے۔
دوسری جانب برطانیہ کے پاس ہنگامی پائپ لائنیں تو ہیں لیکن وہ بھی ایک بہترین حل نہیں ہیں۔ ایسٹ ویسٹ پائپ لائن کی گنجائش سات ملین بیرل یومیہ ہے جو خام تیل کو بحیرۂ احمر کی طرف موڑ سکتی ہے لیکن جہازوں پر حوثیوں کے حالیہ حملوں کی وجہ سے یہ پہلے ہی اپنی پوری صلاحیت کے قریب آپریشنل ہے۔
یو اے ای کی فجیرہ پائپ لائن میں 1.8 ملین بیرل یومیہ گنجائش ہے۔ یہ بھی بہت زیادہ استعمال کی جاتی ہے۔
ایران کی گورہ جاسک پائپ لائن تین لاکھ بیرل یومیہ کی ترسیل کے لیے بنائی گئی ہے جو بمشکل ہی اپنا کام کر رہی ہے۔
اس پائپ لائن نے سنہ 2024 کے آخر میں بند ہونے سے پہلے صرف 70 ہزار بیرل یومیہ ہینڈل کیا تھا۔
ای آئی اے کے مطابق اگر آبنائے ہرمز کو بند کر دیا جاتا ہے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات صرف 2.6 ملین بیرل یومیہ متبادل راستے سے بھیج سکتے ہیں جو کہ عام طور یہاں سے گزرنے والے 20 ملین سے کہیں کم ہے۔
جاسم اجاکا کے مطابق زیادہ تر خلیجی ممالک بالخصوص سعودی عرب کی معیشتیں تیل کی برآمدات پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہیں، اس لیے آبنائے ہرمز کی بندش سے ان کے معاشی استحکام کو شدید دھچکا لگے گا۔
انہوں نے کہا کہ ’مالی نقصان کی شرح اس بات پر منحصر ہو گی کہ آبنائے ہرمز کب تک بند رہے گی۔ طویل دورانیے تک بندش سے پورے خطے میں بجٹ خسارے کا امکان ہے۔‘
یہ صورت حال توانائی کے سلسلے میں زیادہ ضرورت مند ایشیائی معیشتوں کے لیے تباہ کن ہو گی۔

سلمان الانصاری نے کہا کہ ’اس تنگ آبی گزرگاہ سے دنیا کے سمندری تیل کا تقریباً ایک تہائی حصہ جاتا ہے۔ اس کی بندش سے عالمی تجارتی راستے بند ہو جائیں گے، توانائی کی سپلائی بند ہو جائے گی اور ایشیا سے یورپ تک اقتصادی ترقی کا پہیہ جام ہو جائے گا۔‘
چین اپنی تقریباً نصف خام درآمدات کے لیے آبنائے ہرمز پر انحصار کرتا ہے۔ انڈیا، جاپان اور جنوبی کوریا کو بھی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ عالمی جہازرانی کے اخراجات بہت زیادہ بڑھ جائیں گے کیونکہ ٹینکروں کو افریقہ کے گرد طویل راستے اختیار کرنے کی ضرورت ہو گی۔
جاسم اجاکا نے کہا کہ آبنائے ہرمز کی بندش سے متاثر ہونے والی پہلی ایشیائی معیشت چین ہو گی۔ ’اگر آبنائے کی بندش کے اثرات متعدد معیشتوں میں پھیل گئے تو یہ عالمی کساد بازاری کا باعث بن سکتا ہے۔ یہ عالمی معیشت کو بحال کرنے کے حوالے سے ایک اور چیلنج ہو گا۔‘
امریکہ نسبتاً کم خطرے سے دوچار ہے کیونکہ وہ خلیج سے روزانہ صرف نصف ملین بیرل درآمد کرتا ہے جو امریکہ کی کل درآمدات کے سات فیصد کے برابر ہے۔ لیکن آبنائے ہرمز کی بندش کی وجہ سے امریکہ بھی مہنگائی کا سامنا کرے گا۔
سلمان الانصاری نے اس بات پر زور دیا کہ بحران صرف تیل کا نہیں ہے ’یہ اس نازک توازن سے متعلق بھی ہے جو مارکیٹوں کو مستحکم اور معاشروں کو متحرک رکھتا ہے۔‘
ایران نے ماضی میں بھی آبنائے ہرمز کو بند کرنے کی دھمکیاں دی ہیں لیکن اس نے ایسا کبھی کیا نہیں۔

عرب نیوز کے لیے ایک حالیہ مضمون میں گلف ریسرچ سینٹر کے بانی اور سربراہ عبدالعزیز بن عثمان بن صقر نے کہا کہ آبنائے ہرمز کی مکمل بندش سے ’ایران کی اپنی معیشت کو بھی نقصان پہنچے گا اگر وہ اپنی تیل کی برآمدات کے لیے اس آبی گزرگاہ پر انحصار کرتا ہے۔‘
ایران کے اس آبی گزرگاہ پر بہت زیادہ انحصار کے باوجود پارلیمنٹ کی قومی سلامتی کمیٹی کے پریزیڈیم کے رکن بہنام سعیدی نے جمعرات کو مہر نیوز ایجنسی کے حوالے سے بتایا کہ آبنائے کی ناکہ بندی کا آپشن پیش نظر ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’ایران کے پاس اپنے دشمنوں کو جواب دینے کے لیے بے شمار آپشنز موجود ہیں اور وہ حالات کی بنیاد پر ایسے آپشنز کا استعمال کرے گا۔ آبنائے ہرمز کو بند کرنا ایران کے لیے ممکنہ آپشنز میں سے ایک ہے۔‘
مہر نیوز ایجنسی نے ایک اور قانون ساز علی یزدیخہ کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ کیا کہ ایران آبنائے ہرمز اور خلیج میں اس وقت تک مفت جہاز رانی کی اجازت دیتا رہے گا جب تک کہ اس کے اہم قومی مفادات کو خطرہ نہ ہو۔
علی یزدیخہ نے کہا کہ ’اگر امریکہ سرکاری طور پر اور عملی طور پر صہیونیوں (اسرائیل) کی حمایت میں جنگ میں داخل ہوتا ہے تو یہ ایران کا جائز حق ہے کہ امریکہ اور مغربی ممالک کی تیل کی تجارت میں خلل ڈالے۔‘
تاہم آبنائے ہرمز کی بندش ایسا فیصلہ نہیں ہے کو ایران بہت سہولت سے کر سکتا ہے۔
جاسم اجاکا نے مزید کہا کہ ’اگر ایران آبنائے ہرمز کو بند کرے گا تو اس کا بلاشبہ اسے معاشی اور عسکری لحاظ سے نقصان ہو گا۔ ہر ملک جو جنگ بڑھانے چاہے گا، اگر اس کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر مناسب مقدار میں نہیں تو وہ خسارے میں رہے گا۔ یہی پہلو ہے جو آبنائے ہرمز کی بندش کو فیصلے کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ایران کو آبنائے کی بندش کی جانب ایک ہی چیز لے جا سکتی ہے اور وہ ہے موجودہ برسراقتدار قوت کے زوال پذیر نہ ہونے کے امید۔‘

ایران جیسا کہ پہلے ہی دیوار سے لگا ہوا محسوس ہو رہا ہے، اس لیے یہ بہت حد تک ممکن ہے کہ وہ اپنا آخری کارڈ بھی کھیل دے۔
سلمان الانصاری نے کہا کہ ’ایران کی معیشت پہلے ہی سے دِگرگوں ہے اور اس وقت اسے اپنے وجود سے متعلق خطرے کا سامنا ہے۔ اس تناظر میں آبنائے ہرمز کی بندش کی آپشن بعید از قیاس نہیں ہے۔‘
ماضی کے اس نوع کے واقعات میں بھی عالمی سطح پر تیل کی ترسیل میں کمی واقع ہوتی رہی ہے۔
جب سنہ 2019 میں سعودی تیل بردار جہازوں کو فجیرہ اور عبقائق میں نشانہ بنایا گیا تو تیل کی بین الاقوامی سپلائی میں پانچ فیصد کمی ہو گئی تھی۔
اس لیے عالمی طاقتوں کا مفادات کا انحصار آبنائے ہرمز کے کھلے رہنے پر ہی ہے۔
جاسم اجاکا کے مطابق ’اگر آبنائے ہرمز بند کی گی تو امریکہ اور برطانیہ کی جانب سے فوجی مداخلت کا خدشہ بھی موجود رہے گا۔‘
