’جب میں سری نگر ایئر پورٹ سے باہر نکلا تو میرا دل بیٹھ گیا کیوں کہ شاہراؤں پر انسان نام کی کوئی چیز موجود ہی نہیں تھی۔ لگ رہا تھا کہ سارے کشمیر کے لوگوں کو قتل کر دیا گیا ہو۔‘
یہ الفاظ تھے انڈین پنجاب کی ایک یونیورسٹی میں زیر تعلیم ایک طالب علم دانش فرقان کے، جو کرفیو کے دوران اپنے گھر والوں سے رابطہ نہ ہونے کے باعث واپس کشمیر جا پہنچا تھا۔
10 سے 20 اگست تک ڈیڑھ ہفتہ کشمیر میں گزارنے کے بعد دانش ان دنوں واپس اپنی یونیورسٹی میں موجود ہیں۔
انڈیا کے زیر انتطام کشمیر میں کرفیو نافذ ہوئے 30 دن ہوگئے ہیں۔ اس ایک مہینے میں ہزاروں کشمیریوں کا اپنے خاندان سے رابطہ تک نہیں ہوسکا۔ بیشتر کو تو یہ بھی معلوم نہیں کہ ان کے اہل و عیال زندہ بھی ہیں یا نہیں یا کسی کو گرفتار تو نہیں کیا گیا اور اگر کیا گیا ہے تو اسے کہاں رکھا گیا ہے۔
گھر والوں سے ایک ہفتہ بات نہ ہونے کے بعد دانش فرقان نے کشمیر جانے کا فیصلہ کیا لیکن اس کے پاس کے گھر جانے کے پیسے بھی نہیں تھے۔ دانش نے کچھ دوستوں سے ادھار پیسے مانگے اور یونیورسٹی انتظامیہ نے ریٹرن ٹکٹ دکھانے پر جانے کی اجازت دے دی۔

انڈین پنجاب سے ’اردو نیوز‘ سے بات کرتے ہوئے دانش نے کہا کہ عید کی وجہ سے جو کوئی بھی سری نگر ایئر پورٹ پہنچ رہا تھا اسے باہر نکلنے کی اجازت دی جا رہی تھی اور ان کے پاس یونیورسٹی کا خصوصی اجازت نامہ بھی تھا جس کی وجہ سے انھیں بھی اجازت مل گئی۔
’سری نگر مظفر آباد ہائی وے اس لیے کھلی تھی کہ اس پر فوجی کانوائے رواں دواں رہتے ہیں۔ گاڑی والے نے ایک ہزار کے بجائے تین ہزار کرایہ لیا اور ہائی وے پر ہی سفر کیا۔ لنک روڈ کا فاصلہ غیر روایتی راستوں سے پیدل طے کیا اور گھر پہنچے۔‘
دانش کا کہنا ہے کہ 30 کلومیٹر کے راستے میں 25 بار ان کی جامہ تلاشی اور شناخت پریڈ ہوئی۔
’جب بھی کانوائےکی گاڑیاں ساتھ سے گزرتیں تو وہ لوگ لوہے کے راڈ ہماری گاڑی کی چھت پر برساتے اور ڈرانے کی کوشش کرتے۔‘
مزید پڑھیں
-
سلامتی کونسل: صرف بیانات اور قرادادیں؟Node ID: 431211
دانش نے بتایا کہ گھر پہنچ کر دیکھا کہ والدین تو مسلسل جائے نماز پر بیٹھے دعائیں مانگ رہے تھے اور انھیں اپنے سامنے زندہ دیکھ کر حیران و پریشان بھی تھے۔
’والدین میرے کشمیر آنے کے فیصلے سے نالاں تھے کیونکہ ان کو ڈر تھا کہ یا تو میں مارا جاؤں گا یا پھر گرفتار کر لیا جاؤں گا۔ میرے کئی رشتے دار اور محلے دار پہلے سے گرفتار تھے اور ان کا کچھ اتا پتہ نہیں تھا کہ ان کو کہاں رکھا گیا ہے۔‘
دانش کے مطابق نوجوانوں کو گرفتار کرکے آگرہ، یوپی اور دیگر علاقوں کی جیلوں میں بھیجا جا رہا ہے جبکہ سیاسی ورکرز کو گرفتار کرکے مقامی جیلوں میں ہی ڈالا جا رہا ہے۔
نوبیاہتا صفیہ بی بی بھی ان لوگوں میں شامل ہیں جن کی زندگی انڈین حکومت کے حالیہ فیصلوں سے متاثر ہوئی ہے۔ صفیہ بی بی کو اپنے میکے کا غم کھائے جا رہا ہے۔ ان کی شادی انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے ایک شہر بانڈی پورہ ضلع سوپور کے ایک گاوں میں ہوئی ہے۔ ان کے مطابق گاؤں میں کرفیو کے دوران لوگ اپنے گھروں کے قریب اگائی گئی سبزیاں اور گھر میں موجود دال چاول کھا کر گزارہ کر رہے ہیں۔

’گاؤں میں تو سبزی بھی ہے اور چاول بھی لیکن شہر میں میرے ماں باپ کے گھر میں اب صرف قہوہ بچا ہوگا۔ قہوہ پی کر انسان کب تک زندہ رہ سکتا ہے۔ چھوٹی کو تو ویسے بھی بھوک زیادہ لگتی ہے۔ پتہ نہیں سب لوگ کس حال میں ہوں گے؟‘
اردو نیوز سے گفتگو میں صفیہ بی بی نے بتایا کہ انھیں اپنے شوہر یوسف کریم کی بھی فکر ہے کہ انڈین فوج انھیں کوئی نقصان نہ پہنچائے۔
’حالانکہ وہ (یوسف کریم) مسلح تحریک میں شامل نہیں ہیں لیکن فوجی یہ تھوڑی دیکھتے ہیں، وہ تو دیکھتے ہیں نوجوان ہے اور کشمیری ہے اس کے بعد اس کو مارنے یا گرفتار کرنے کے لیے کسی دوسرے ثبوت کی ضرورت نہیں رہتی۔‘
صفیہ بی بی نے اپنے میکے اور سسرال والوں سے آخری مرتبہ تین اگست کو بات کی تھی جس کے بعد سے وہ منتظر ہیں کہ کب کرفیو ہٹے گا اور کب مواصلاتی رابطے بحال ہوں گے اور وہ اپنے پیاروں سے بات کر سکیں گی۔
پاکستان میں مقیم ایک طالب علم خالد کشمیری تو شاید اب مایوس ہی ہوچکے ہیں۔ ’میری اپنے خاندان، دوستوں اور پورے کشمیر کے لیے نیک خواہشات ہیں سب کو پیغام دیتا ہوں کہ بس اپنا خیال رکھیں اگر کہیں ہیں تو۔۔۔ ‘
خالد آخری مرتبہ جنوری 2019 میں کشمیر گئے تھے اور ان کا گھر والوں سے فون پر آخری رابطہ یکم اگست کو ہوا تھا جس کے بعد سے دونوں ایک دوسرے کے بارے میں مکمل طور پر لاعلم ہیں۔
