Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سلامتی کونسل: صرف بیانات اور قرادادیں؟

کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے میں ناکامی پر اقوام متحدہ کئی حلقوں کی جانب سے تنقید کی زد میں ہے۔ فوٹو اے ایف پی
سنہ 1947 میں انڈیا اور پاکستان کے قیام کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان کشمیر کے تنازعے پر جنگ ہوئی تو یہ مسئلہ عالمی سطح پر بھی موضوع بحث بن گیا۔ اسی حوالے سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی جنوری 1948 میں ایک قرار داد منظور کی جس میں پاکستان اور انڈیا کے نمائندوں کو کشمیر میں بگڑتی ہوئی صورت حال پر بیان بازی سے روکا گیا تاکہ حالات مزید کشیدہ نہ ہوں۔
وہ دن جائے اور آج کا آئے، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے اب تک ایک درجن سے زائد قراردادیں منظور ہو چکی ہیں لیکن یہ مسئلہ 70 سال سے زائد کا عرصہ بیت جانے اور ہزاروں ہلاکتوں کے باوجود بھی حل نہیں ہو سکا۔

 پاکستان کا ہمیشہ یہی مؤقف رہا ہے کہ مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیریوں کی امنگوں کے مطابق حل کیا جائے۔ فوٹو اے ایف پی

سرکاری سطح پر پاکستان کا بھی ہمیشہ یہی مؤقف رہا ہے کہ اس مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیریوں کی امنگوں کے مطابق حل کیا جائے۔
پانچ اگست کو انڈیا کی جانب سے کشمیر کی خصوصی آئینی حثیت ختم کیے جانے کے بعد بھی پاکستان نے یہی مؤقف اپنایا کہ کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں حل کیا جائے وگرنہ دونوں ملکوں کے درمیان ایٹمی جنگ ہوسکتی ہے کیونکہ پاکستان کشمیر کو ’نیوکلیئر فلیش پوائنٹ‘ قرار دیتا ہے۔
اس حوالے سے پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی رواں ماہ اقوام متحدہ کو دو خطوط بھی لکھ چکے ہیں جن میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ کشمیر میں انڈیا کے حالیہ اقدامات غیر قانونی اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے منافی ہیں اور کشمیری عوام ان اقدامات کو کبھی تسلیم نہیں کریں گے۔
اس کے علاوہ 1965 کے بعد پہلی بار 16 اگست کو کشمیر پر سلامتی کونسل کا ایک مشاورتی اجلاس بھی ہوا جس میں پاکستان اور انڈیا کو اپنے مسائل پُرامن رہتے ہوئے باہمی طور پر حل کرنے کا کہا گیا۔
اقوام متحدہ کے اجلاس اور درجنوں قراردایں اپنی جگہ مگر بہت سے لوگوں کا ماننا ہے کہ دنیا کے متعدد حصوں میں کشیدگی کم کروانے میں ناکام رہنے والی اقوام متحدہ کشمیر کے معاملے پر بھی کچھ نہیں کر سکے گی۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ 1945 میں اپنے قیام کے بعد سے اب تک اقوام متحدہ دنیا میں کہاں کہاں امن قائم کرنے اور جنگ بندی کروانے میں ناکام رہا۔

فلسطین اور اسرائیل کا مسئلہ

اسرائیل اور فلسطین کے درمیان تنازع بھی لگ بھگ اتنا ہی پرانا جتنا کہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان کشمیر کا مسئلہ۔
بالکل مسئلہ کشمیر کی طرح اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل فلسطین اور اسرائیل کے تنازعے میں بھی اب تک پونے دو سو سے زائد قراردایں منظور کر چکی ہے مگر یہ مسئلہ آج بھی حل طلب ہے۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے کشمیر کے حوالے سے درجنوں قراردادیں منظور کی ہیں۔  فوٹو اے ایف پی 

اقوام متحدہ کے اعدادوشمار کے مطابق اس لڑائی میں 2008 سے اب تک پانچ ہزار 512 فلسطینی جبکہ 236 اسرائیلی شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔ دنیا کے مسلمان ممالک ان شہری اموات کو اقوام متحدہ کی ناکامی قرار دیتے ہیں۔

روانڈا میں خانہ جنگی

افریقی ملک روانڈا کی مسلح افواج اور باغی گروہ روانڈا پیٹریاٹک فرنٹ (آر پی ایف) کے درمیان 1990 سے 1994 کے درمیان جاری رہنے والی خانہ جنگی میں ہونے والی نسل کشی کو دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا کی بدترین نسل کشی تصور کیا جاتا ہے۔
اس لڑائی کے دوران بین الاقوامی مداخلت کو روکنے کے لیے اقوام متحدہ کے امن مشن کے 10 اہلکاروں کو بھی مار دیا گیا تھا۔
امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے مطابق اس خانہ جنگی میں لگ بھگ آٹھ لاکھ افراد کو مارا گیا تھا جبکہ کم و بیش اڑھائی لاکھ خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی تھی جن کے بطن تقریباً 20 ہزار بچے پیدا ہوئے۔
اس خانہ جنگی کو روکنے میں اقوام متحدہ کوئی کردار ادا نہ کر سکی۔
بعدازاں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اس وقت کے سربراہ کوفی عنان کی نگرانی میں لکھی گئی ایک رپورٹ میں یہ تسلیم کیا گیا کہ اقوام متحدہ روانڈا میں خانہ جنگی روکنے میں ناکام رہی۔

برما میں روہنگیا مسلمانوں کی ’نسل کشی

برما جسے اب میانمار کہا جاتا ہے، بنگلہ دیش، انڈیا، لاؤس، تھائی لینڈ اور چین کی سرحدوں سے لگتا ہے۔ اگست 2017 میں یہاں کی حکومت نے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف ایک کریک ڈاؤن شروع کیا۔
کینیڈا کی سماجی تنظیم اونٹاریو انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ ایجنسی کے مطابق امن کا نوبل انعام پانے والی آنگ سانگ سوچی کے ناک تلے ہونے والے اس فوجی آپریشن میں تقریباً 24 ہزار شہری ہلاک ہوئے جبکہ ان میں لگ بھگ ساڑھے سات لاکھ شہریوں میں بچے اور خواتین بھی شامل تھیں کو بنگلہ دیش کی طرف ہجرت کرنا پڑی۔
اس کریک ڈاؤن کے بعد پاکستان سمیت دنیا کے بیشتر ممالک نے حالات پر قابو پانے کے لیے اقوام متحدہ کے دروازے پر دستک دی مگر سلامتی کونسل نے اپنی سرگرمیاں روہنگیا مسلمانوں کی اموات اور ہجرت کے اعدادوشمار اکھٹے کرنے تک محدود رکھیں۔
اقوام متحدہ روہنگیا مسلمانوں کو ’دنیا کے سب سے مظلوم لوگ‘ قراد دیتی ہے تاہم اس پر الزام ہے کہ اس نے چین کے دباؤ کی وجہ سے برما میں روہنگیا مسلمانوں کے لیے کچھ نہیں کیا اور وہ آج بھی دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔
مذکورہ بالا واقعات کے علاوہ بھی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل پر الزام ہے کہ وہ اپنے امن مشن کمبوڈیا، سوڈان اور شام میں انسانی جانوں کا ضیاع روکنے میں کوئی خاطر خواہ کردار ادا نہیں کر سکی۔
ایسے میں بہت سے لوگوں کا ماننا ہے کہ کشمیر کے معاملے پر بھی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل قراردادوں اور بیانات کے سوا شاید کچھ نہیں کر سکے گی۔

شیئر: