Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’ہمارے لیے اپنی شناخت پہلی ترجیح‘

پابندیوں میں نرمی کے باوجود کشمیر میں دکاندار دکانیں کھولنے کو تیار نہیں۔ فوٹو روئٹرز
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں طویل بلیک آوٹ کے خاتمے کے لیے ہنگامی مہم شروع کر دی ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے انڈیا چیپٹر کے مطابق ’کشمیر میں رہنے والے 80 لاکھ لوگوں کو ایک مہینے سے زائد عرصے سے ان کے گھروں میں بند رکھا گیا ہے۔‘
ایمنسٹی انڈیا کے بیان میں کہا گیا کہ کشمیر میں کرفیو نافذ ہونے کی وجہ سے رابطے منقطع ہیں جو لوگوں کی آزادی پر ایک اشتعال انگیز حملہ ہے۔
بیان کے مطابق ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا نے پانچ ستمبر 2019 سے ’کشمیر کو بولنے دو‘ (LetKashmirSpeak) کے ہیش ٹیگ کے ساتھ آگاہی مہم کا آغاز کیا ہے۔

آکر پٹیل کا کہنا تھا کہ جموں کے کچھ علاقوں میں کرفیو ختم کیا گیا تاہم  کشمیر کے زیادہ تر علاقوں میں رابطے منقطع ہیں۔ فوٹو ایمنسٹی انڈیا

ایمنسٹی انڈیا کے سربراہ آکر پٹیل کے مطابق ’کشمیر میں نافذ کرفیو کو ایک ماہ کا عرصہ ہو گیا ہے، انڈین حکومت اسے مزید طول نہیں دے سکتی کیونکہ اس نے کشمیریوں کی روزمرہ زندگی، ان کی جذباتی اور ذہنی صحت، طبی سہولیات، بنیادی ضروریات اور ایمرجنسی سروسز تک رسائی پر بہت برا اثر ڈالا ہے۔‘
ان کا مزید کہنا ہے کہ گو کہ جموں کے کچھ علاقوں میں کرفیو ختم کر دیا گیا ہے، تاہم کشمیر کے زیادہ تر حصوں کا دیگر علاقوں سے رابطہ منقطع ہے۔
’پوری آبادی کو آزادی اظہار رائے سے روکنا اور غیر معینہ مدت کے لیے ان کے نقل و حمل پر پابندی عائد کر دینا خطے کو تاریک دور میں لے جانے کے مترادف ہے۔‘
مزید پڑھیں

 

ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ انہیں ایسی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں کہ لوگوں کو ہنگامی صورتحال کے باوجود ہسپتالوں تک نہیں پہنچایا جا رہا، بڑے پیمانے پر گرفتاریاں ہو رہی ہیں، بچوں اور نوجوانوں کو رات کے اندھیرے میں اٹھایا جا رہا ہے، عام شہریوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے جبکہ مظاہرین پر آنسو گیس اور پیلٹ گنز کا بے جا استعمال کیا جا رہا ہے۔ ’یہ سب بھاری فوجی نفری کے ذریعے انسانی حقوق کی تاریخی خلاف ورزی کرتے ہوئے ہو رہا ہے۔‘
ایمنسٹی کا مزید کہنا ہے کہ میڈیا پر بھی پابندیاں عائد کی جا رہی ہیں جس کی حالیہ مثال صحافی گوہر گیلانی کو جرمنی جاتے ہوئے ایئرپورٹ پر روکا جانا ہے۔

’ہمارے لیے اپنی شناحت کی حفاظت ترجیح ہے‘

دوسری جانب خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں جاری کرفیو میں جزوی نرمی کے باوجود کشمیری دکاندار اور کاروباری لوگ اپنا کاروبار کھولنے پر تیار نہیں۔ رپورٹ کے مطابق پابندیوں میں جزوی نرمی کے باوجود، طالب علموں، دکانداروں اور حکومتی اور نجی سیکٹر کے ملازمین کی جانب سے غیر اعلانیہ لیکن بھرپور بائیکاٹ جاری ہے۔
روئٹرز کی جانب سے درجنوں حکومتی اہلکاروں اور وادی کے باشندوں سے کیے جانے والے انٹرویوز کے مطابق لوگ انڈین حکومت کی جانب سے ریاست کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے پر بہت غصے میں ہیں۔

ہوٹل اونرز کے مطابق کشمیر میں ہوٹلز کی بکنگ کی شرح صفر تک آ گئی ہے۔ فوٹو: روئٹرز

سری نگر کے ایک دکاندار شبیر احمد نے روئٹرز کو بتایا کہ ان کی شناخت خطرے میں ہے اور اس وقت شناخت کی حفاظت ان کی پہلی ترجیح ہے۔
پانچ اگست 2019 سے پہلے انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں ہڑتال اور کاروبار بند کرنے کی اپیل عموماً علیحدگی پسند تنظیموں یا ان کے اتحاد کی جانب سے کی جاتی تھی لیکن اس دفعہ علیحدگی پسند رہنماؤں کو جموں کشمیر کے مین سٹریم سیاستدانوں کے ساتھ ہی حراست میں لیا گیا ہے۔ زیر حراست رہنماؤں میں وادی کے تین سابق وزرائے اعلیٰ بھی شامل ہیں۔
گذشتہ ماہ کے آخر میں سری نگر میں چسپاں کیے گئے پوسٹرز میں دکانداروں سے کہا گیا تھا کہ وہ شام یا صبح سویرے دکانیں کھولیں تاکہ لوگ بنیادی ضروریات زندگی خرید سکیں۔ تاہم سری نگر کے کاروباری علاقے میں اکثر دکانیں تاحال بند ہیں۔
سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کی جانب سے دکانداروں کو کاروبار معمول کے مطابق کھولنے کا کہنے کے باوجود اکثریت دکانیں کھولنے پر تیار نہیں۔
سری نگر کے ایک دکاندار محمد ایوب نے روئٹرز کو بتایا کہ وہ اپنی دکان صرف شام کے وقت کھولتے ہیں۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ سکیورٹی اہلکار زور ہدایت جاری کرتے ہیں کہ یا تو دکان دن بھر کے لیے کھولیں یا بالکل نہ کھولیں۔
جموں و کشمیر حکومت کے سرکاری ترجمان روہت کنسال نے دکانیں بند ہونے کی ذمہ داری ’ملک دشمن‘ قوتوں پر ڈال دی۔ ان کا کہنا ہے کہ سکیورٹی فورسز نے اس کا نوٹس لیا ہے۔

 

ایک سرکاری عہدیدار نے روئٹرز کو بتایا کہ سری نگر میں سرکاری محکموں کے دفاتر میں حاضری 50 فیصد سے کم ہے تاہم چھوٹے سرکاری دفاتر میں حاضری اس سے بھی خاصی کم ہے۔  سری نگر کی مشہور ڈل جھیل کی صفائی پر مامور عملہ ابھی تک کام پر نہیں آیا۔
دوسری جانب وادی کے سکولوں میں حاضری انتہائی کم ہے۔ سری نگر کے رہائشی جاوید احمد کا کہنا ہے کہ وہ کیسے اپنے بچے سکول بھیج سکتے ہیں جب کرفیو لگا ہو۔ ’ہم اپنے بچوں کی سیکیورٹی کے حوالے سے پریشان ہیں۔‘
دوسری جانب کشمیر میں جاری کرفیو کی وجہ سے سیاحت ٹھپ ہو گئی ہے۔ ہوٹل مالکان کے مطابق ہوٹل کی بکنگ شرح صفر تک آ گئی ہے۔ سری نگر کی تاریخی جامع مسجد کو بھی ایک مہینے کے لیے بند کیا گیا ہے۔

شیئر:

متعلقہ خبریں