Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’کشمیری خواب نہیں دیکھ سکتے‘

وادی کشمیر کی موجودہ صورتحال کے باعث ’شادی انڈسٹری‘ بری طرح متاثرہوئی ہے۔ فوٹو اے ایف پی
ارشی نثار کا ایک خواب تھا، کہ ان کی شادی خوب دھوم دھام سے ہو، ہلہ گلہ اور ناچ گانا ہو۔ مایوں اور مہندی سے لے کر تمام رسومات ادا کی جائیں، طرح طرح کے پکوان نوش کیے جائیں اور سینکڑوں کے حساب سے مہمان ان کی خوشی کا حصہ بنیں۔
لیکن! مودی جی نے ان کے یہ خواب چکنا چور کر دیے۔
انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی آئینی حیثیت کیا ختم ہوئی کہ لوگوں کے لیے معمول کے مطابق زندگی گزارنا محال ہو گیا.
سرینگر کی 29 سالہ رہائشی ارشی کی تین روزہ شادی کی تیاریاں مکمل تھیں۔ انہوں نے سپیشل میک اپ سیشن کے لیے وقت لے رکھا تھا، میوزک کا اہتمام ہونا تھا، سات سو سے زائد لوگوں کو شرکت کے دعوت نامے جا چکے تھے، اور دس سے پندرہ ڈشز پر مشتمل کشمیری کھانوں کی فہرست تیار ہو چکی تھی۔
’میں ایک بڑی سی شادی کا خواب دیکھتے ہوئے بڑی ہوئی ہوں لیکن حالات کی وجہ سے جشن منانے کے لیے کچھ زیادہ نہیں۔‘
ارشی نے خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کو بتایا کہ وادی میں کشیدگی اور کرفیو کے نفاذ کے بعد سے ان کو صرف چالیس مہمانوں پر اکتفا کرنا پڑ رہا ہے۔ لیکن سکیورٹی صورتحال کی وجہ سے ان کی شرکت بھی یقینی نہیں۔

کرفیو کے نفاذ اور مواصلاتی نظام میں بندش کے باعث کشمیر میں بہت ساری شادیاں منسوخ یا تعطل کا شکار ہوئی ہیں۔ فوٹو اے ایف پی

’اب ہم نے سادہ سی تقریب کرنے کا فیصلہ کیا ہے لیکن میں پھر بھی پریشان ہوں کہ میرے سسرال اور خاندان والے ان کشیدہ حالات میں کس طرح نقل و حرکت کریں گے۔
انڈین حکام نے ویسے تو وادی کشمیر کے کچھ حصوں کی سیکیورٹی میں نرمی پیدا کی ہے لیکن اس کے باوجود کاروبار، مواصلاتی ذرائع اور تعلیمی ادارے بالکل بند پڑے ہیں۔ 5 اگست کو وادی کشمیر کی آئینی حیثیت ختم ہونے کے بعد سے اسی لاکھ کشمیریوں کا باہر کی دنیا کے ساتھ ہر قسم کا رابطہ منقطع ہے۔
بلال نے اپنی شناخت پوشیدہ رکھتے ہوئے بتایا کہ رواں مہینے میں ان کے بھائی کی شادی میں صرف پندرہ فیصد مہمان شریک ہو سکے تھے۔
’میرے گھر والے بہت افسردہ تھے۔‘
بلال نے کہا کہ والدین بچوں کی پیدائش کے فوراً بعد ہی ان کی شادی کی تیاری شروع کر دیتے ہیں اور سالوں سال شادیوں پر لٹانے کے لیے پیسے جمع کرتے ہیں، اور ایسے میں مہمانوں کا نہ شریک ہونا بہت دکھ کی بات ہے۔

کشمیری شادیوں میں اکثر پندرہ قسم کی روایتی ڈشز پر مشتمل کھانا تیار کروایا جاتا ہے جس کو مقامی زبان میں ’وازوان‘ کہا جاتا ہے۔ فوٹو وکی میڈیا

وادی کشمیر کی ایک اور متاثرہ خاتون تہمینہ کی شادی عنقریب ہونی تھی۔ ان کے بھائی منتظر نے بہن کے لیے فرنیچر، کپڑوں اور زیور کا آرڈر دے رکھا تھا۔
’میں نے بیڈ کا آرڈر کیا ہوا تھا او درزی کو کپڑے سلنے کے لیے دیے ہوئے تھے، لیکن دونوں دکانیں بند پڑی ہیں اور ان کے مالکان سے رابطہ کرنے کا کوئی راستہ نہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’شادی کا موقع تو زندگی میں ایک دفعہ آتا ہے۔‘
ارشی کو بھی اس موقع کا سالوں سے انتظار تھا۔ ارشی نے بتایا کہ ان کے ہونے والے شوہر سے شادی کے لیے والدین رضامند نہیں تھے، اور ان کو مناتے مناتے پانچ سال گزر گئے۔
’ہمیں اپنے گھر والوں کو شادی پر آمادہ کرنے میں بہت مشکل ہوئی تھی اور خوش ہونے کا یہی ایک موقع تھا۔‘
’لیکن کشمیر میں آپ خواب نہیں دیکھ سکتے۔‘

شیئر: