Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کشمیر میں روزانہ اوسطاً 20 مظاہرے

انڈیا کا دعویٰ ہے کہ کشمیر میں پرتشدد واقعات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی
گذشتہ چھ ہفتوں کے دوران انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں تمام تر رکاوٹوں اور بندشوں کے باوجود انڈین حکومت کے خلاف روزانہ اوسطاً 20 مظاہرے ہو رہے ہیں۔
فرامسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق یہ مظاہرے انڈیا کی جانب سے کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے کے بعد سخت پابندیوں اور لاک ڈاؤن کے باوجود ہوئے۔
اے ایف پی نے ایک سینئر سرکاری عہدیدار کے حوالے سے بتایا ہے کہ کرفیو، نقل و حرکت پر پابندیوں، انٹرنیٹ اور موبائل سروس کی بندش اور دیگر پابندیوں کے باوجود انڈین کے خلاف عوامی مظاہرے تسلسل سے جاری ہیں۔

مظاہروں میں اب تک 200 شہری اور 415 سکیورٹی اہلکار زخمی ہوئے ہیں۔ فوٹو اے ایف پی

ان کے مطابق زیادہ تر مظاہرے کشمیر کے دارالحکومت سری نگر میں ہوئے ہیں۔
اے ایف پی نے سرکاری ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ 5 اگست کے بعد سے کشمیر میں اب تک کل 722 مظاہرے ہوئے اور سری نگر کے علاوہ شمال مغربی ضلعے بارہ مولا اور جنوب میں واقع پلوامہ ضلع ان مظاہروں کے مراکز رہے۔
رپورٹ کے مطابق 5 اگست کے بعد سے 200 سویلین اور 415 سکیورٹی اہلکار ان مظاہروں کی وجہ سے زخمی ہوئے ہیں۔
سرکاری عہدیدار کے مطابق 95 سویلین گذشتہ دو ہفتوں کے دوران زخمی ہوئے۔ انہوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ اب تک چار ہزار ایک سو افراد بشمول 170 سیاسی رہنما گرفتار ہوئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ گرفتار ہونے والوں میں سے تین ہزار کو گذشتہ دو ہفتوں کے دوران رہا کر دیا گیا۔  
 تاہم یہ واضح نہیں کہ رہا ہونے والوں میں کوئی سیاسی رہنما بھی شامل ہیں یا نہیں۔

کشمیر میں گذشتہ کئی ہفتوں سے کرفیو نافذ ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

انڈین حکام کا دعویٰ ہے کہ ابھی تک پرتشدد واقعات نہ ہونے کے برابر ہے اور کرفیو کے نفاذ سے اب تک صرف پانچ عام شہری ہلاک ہوئے ہیں۔
ان پانچ ہلاک ہونے والوں میں سے چار کے لواحقین نے اے ایف پی کو بتایا کہ ان کی موت کی ذمہ دار سکیورٹی فورسز ہیں۔
مذکورہ بالا اعداد شمار اس وقت سامنے آئے ہیں جب جمعرات کو انڈین پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ اس نے پاکستان میں موجود شدت پسند تنظیموں سے منسلک تین افراد کو انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی طرف اسلحہ لانے کی کوشش کرتے ہوئے گرفتار کیا۔
ایٹمی اسلحے سے لیس پاکستان اور انڈیا کشمیر کی وجہ سے اب تک تین جنگیں لڑ چکے ہیں۔ دونوں کا دعویٰ پوری ریاست پر ہے تاہم دونوں کشمیر کے حصوں کو کنٹرول کرتے ہیں۔
انڈیا نے 5 اگست کو ریاست کی داخلی خود مختاری ختم کرنے کے فیصلے سے پہلے کشمیر میں تقریباً 70 ہزار اضافی فوجی تعینات کر دیے تھے جو کہ ریاست میں پہلے سے موجود پانچ لاکھ فوجیوں کے علاوہ تھے۔
پاکستان نے انڈیا کے اقدام کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے اور اس اقدام سے اس کی متنازع حیثیت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
جمعرات کو پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے وعدہ کیا کہ وہ اس مسئلے کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے آنے والے سیشن میں اٹھائیں گے۔

شیئر: