امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے زیر انتظام ادارے ’ٹرمپ آرگنائزیشن‘ نے پیر کے روز ایک موبائل فون پلان اور 499 ڈالر مالیت کا سمارٹ فون متعارف کرایا ہے جو ستمبر میں لانچ کیا جائے گا۔
سی این بی سی کے مطابق یہ نئی سروس ’ٹرمپ موبائل‘، ماہانہ 47.45 ڈالر کے پلان کی پیشکش کرے گی جس میں لامحدود کالز، میسجز اور ڈیٹا شامل ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ ’روڈ سائیڈ اسسٹنس‘ اور ’ٹیلی ہیلتھ اینڈ فارمیسی بینیفٹ‘ کی سہولت بھی دی جائے گی جیسا کہ ٹرمپ آرگنائزیشن کی ویب سائٹ پر درج ہے۔
مزید پڑھیں
-
نہیں چاہتا ایپل انڈیا میں اپنی مصنوعات بنائے، ڈونلڈ ٹرمپNode ID: 889731
اس کمپنی نے یہ بھی اعلان کیا ہے کہ وہ ’ٹی ون‘ نامی سمارٹ فون فروخت کرے گی جو گولڈ کلر کے دھاتی ڈھانچے کے ساتھ آئے گا اور اس پر امریکی پرچم بنا ہوگا۔
وائرلیس سروس کا نام The 47 Plan اور اس کی ماہانہ قیمت، دونوں ٹرمپ کی شخصیت سے جڑے ہوئے ہیں۔ ٹرمپ پہلے 45ویں امریکی صدر تھے اور اب 47ویں صدر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔
ادھر فون کی ویب سائٹ پر دکھائے گئے ایک سکرین شاٹ پر ٹرمپ کا انتخابی نعرہ 'Make America Great Again' بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
جیسے دیگر کئی مصنوعات مثلاً گھڑیاں، سنیکرز اور بائبلز جو ٹرمپ اور ان کے کاروباری اداروں نے ان کی سیاسی زندگی کے دوران متعارف کروائیں، یہ نیا ٹیلی کمیونیکیشن منصوبہ بھی دراصل ایک ’لائسنسنگ معاہدے‘ پر مبنی ہے۔
ویب سائٹ کے آخر میں لکھا ہے ’ٹرمپ موبائل، اس کی مصنوعات اور خدمات ٹرمپ آرگنائزیشن یا اس سے وابستہ کسی بھی ادارے یا سربراہان کی جانب سے ڈیزائن، تیار یا فروخت نہیں کی گئیں۔‘
ناقدین نے ٹرمپ سے جڑی مختلف لائسنسنگ ڈیلز اور برانڈڈ اشیاء سے متعلق اخلاقی خدشات کا اظہار کیا ہے۔ مگر صدر اور ان کے اہلِ خانہ ایسی منافع بخش تجارتی سرگرمیوں کو جاری رکھے ہوئے ہیں جن میں مالی یا سیاسی طور پر نقصان کا خطرہ کم ہے۔
جمعے کے روز صدر نے رپورٹ کیا کہ انہوں نے 2024 میں مختلف لائسنسنگ معاہدوں سے 80 لاکھ ڈالر سے زائد کی آمدن حاصل کی۔
47 پلان کی قیمت امریکہ میں موجودہ معروف وائرلیس کمپنیوں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ مثال کے طور پر ویریزون صرف ماہانہ 25 ڈالرز میں لامحدود کال، میسجز، ڈیٹا اور ہاٹ سپاٹ پلان پیش کرتا ہے، جبکہ ’مِنٹ موبائل‘ کے سالانہ پلان پر 30 ڈالر ماہانہ خرچ آتا ہے۔
ٹرمپ موبائل کی ویب سائٹ پر دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس کا نیٹ ورک ’تین قومی فون سروسز جیسی ہی کوریج دیتا ہے، اور اس کا کسٹمر سروس کال سینٹر امریکہ میں واقع ہے‘۔
پیر کی صبح جب سی این بی سی نے ٹرمپ موبائل کی کسٹمر سروس پر رابطہ کیا تو نمائندے نے سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر کال سینٹر کے مقام کے بارے میں بتانے سے انکار کیا۔
ویریزون، ٹی موبائل اور اے ٹی اینڈ ٹی نے بھی اس معاملے پر بات کرنے سے گریز کیا۔
ٹرمپ موبائل کی ویب سائٹ کے مطابق، اس کا T1 فون اینڈرائیڈ 15 کے آپریٹننگ سسٹم پر چلے گا اور اس میں 6.8 انچ کا AMOLED سکرین، 16 میگا پکسل کا سیلفی کیمرہ، 12 جی بی ریم، 256 جی بی انٹرنل سٹوریج اور 50 میگا پکسل کا مین کیمرہ ہوگا۔
کیا ٹرمپ کا ’میڈ ان امریکہ‘ فون بھی چائنہ میں بنے گا؟
ماہرین کے مطابق، اگرچہ ٹرمپ آرگنائزیشن کا دعویٰ ہے کہ اس کا نیا سمارٹ فون امریکہ میں تیار کیا جائے گا، امکان یہی ہے کہ یہ فون ’چین میں تیار ہوگا‘۔
انٹرنیشنل ڈیٹا کارپوریشن کے نائب صدر فرانسسکو جیرو نیمو نے سی این بی سی سے منگل کو بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘یہ ممکن نہیں کہ فون کو مکمل طور پر نیا ڈیزائن کیا گیا ہو اور اسے مکمل طور پر امریکہ میں اسمبل یا تیار کیا جائے۔ یہ بالکل ناممکن ہے۔‘
جیرو نیمو کے مطابق، یہ فون ممکنہ طور پر چینیODM (اوریجنل ڈیوائس مینوفیکچرر) کے ذریعے تیار کیا جائے گا۔ یہ ایسی کمپنیاں ہیں جو دوسرے اداروں کے لیے ان کی دی گئی معلومات کے مطابق پروڈکٹس تیار کرتی ہیں۔
کاؤنٹر پوائنٹ ریسرچ کے تجزیہ کار بلیک پرازسمیکی نے پیر کو جاری کردہ ایک نوٹ میں کہا کہ ’اگرچہ اس فون کو امریکی ساختہ قرار دیا جا رہا ہے، غالب امکان یہی ہے کہ اسے ابتدائی طور پر ایک چینی ODM کے ذریعے تیار کیا جائے گا۔‘
کمپنی کے ڈائریکٹر جیف فیلڈ ہیک نے مزید کہا کہ ’امریکہ کے پاس اس وقت مقامی سطح پر سمارٹ فون بنانے کی فوری صلاحیت دستیاب نہیں ہے۔‘
سمارٹ فون مینوفیکچرنگ اس وقت خبروں میں آئی تھی جب ٹرمپ نے امریکہ میں درآمد کیے جانے والے فونز پر محصولات لگانے کی دھمکی دی تھی۔ اگرچہ یہ ٹیرف ابھی لاگو نہیں ہوئے لیکن ٹرمپ نے ’ایپل‘ کی سپلائی چین پر تنقید کی اور کمپنی پر زور دیا کہ وہ امریکہ میں آئی فون تیار کرے۔
یہ اپیل صدر ٹرمپ کی اس بڑی مہم کا حصہ ہے جس کا مقصد امریکہ میں مزید الیکٹرانکس مصنوعات بنانا ہے۔
کئی ماہرین نے کہا ہے کہ امریکہ میں آئی فون بنانا تقریباً ناممکن ہے اور اگر ممکن بھی ہو تو اس کی قیمت بہت بڑھ جائے گی۔ اس کے علاوہ امریکہ میں بڑی سطح پر تیاری کا عمل شروع کرنے میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔