انڈیا میں گذشتہ ایک سال سے شمال مشرقی ریاست آسام میں انڈین شہریت کی فہرست (این آر سی) کے حوالے سے آئے روز نئی خبریں سامنے آتی رہی ہیں۔
حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) شہریت کی اس فہرست کو پورے ملک میں نافذ کرتے ہوئے غیر قانونی شہریوں کو انڈیا سے باہر نکالنا چاہتی ہے۔
ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی جن ریاستوں میں برسر اقتدار ہے وہاں کے وزرائے اعلیٰ نے وقتاً فوقتاً اپنی اپنی ریاستوں میں اس کے نفاذ کی بات کی ہے۔
آسام میں جب این آر سی کی حتمی فہرست جاری کی گئی تو تقریباً 19 لاکھ افراد کی شہریت مشکوک ہوگئی۔ اتنی بڑی تعداد کی مشکلات میں اضافے کے باوجود بی جے پی کے متعدد رہنماؤں کا کہنا ہے کہ این آر سی ناکام ہو گئی ہے۔
ان کا خیال ہے کہ آسام میں اس سے کہیں زیادہ تعداد میں لوگوں کی شہریت مشکوک ہے۔
تاہم آسام میں این آر سی سے کوئی بھی خوش نہیں ہے۔
آسام کے قبائل جو اس کے لیے تحریک چلا رہے تھے وہ اس مشکوک شہریت والے افراد کی تعداد کم ہونے کی وجہ سے بدظن ہیں تو بی جے پی اس بات سے خوش نہیں کہ اس فہرست میں سارے مسلمان نہیں ہیں اس میں ہندوؤں کی بھی بڑی تعداد موجود ہے۔ جبکہ آزاد خیال لوگوں کا ماننا ہے کہ لوگوں کو خواہ مخواہ پریشان کیا گیا ہے اور یہ غیر ضروری بحران ہے۔
اگر آسام میں این آر سی کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا تو پھر اسے پورے ملک میں نافذ کرنے کے پس پشت کیا منطق ہو سکتی ہے؟
این آر سی در اصل نیشنل رجسٹر آف سٹیزن یعنی انڈین شہریوں کی فہرست ہے جس کا اعلان 1951 میں حکومت نے کیا تھا کہ انڈیا کے شہریوں کا ایک رجسٹر ہو جس میں تمام شہریوں کے نام درج ہوں۔
بہر حال اس پر عمل در آمد نہیں ہو سکا لیکن آسام میں مقامی قبائلی ایک زمانے سے یہ الزام لگاتے رہے ہیں کہ ان کی ریاست میں بنگلہ دیش اور بنگال سے بڑی تعداد میں غیر قانونی تارکین وطن آ کر آباد ہو گئے ہیں جو ان کے مقامی تشخص کے لیے خطرہ ہیں۔
آسام میں اس کے لیے تحریک بھی چلائی گئی اور سابق حکمران جماعت کانگریس نے شہریوں کی نشاندہی کی بات تسلیم کر لی لیکن وہ اس کے متعلق بہت سنجیدہ نظر نہیں آئی۔
بہر حال انڈیا کی سپریم کورٹ کے ایک حکم کے تحت 2013 میں ریاست میں اس پر کام شروع ہوا اور ریاست کی تقریباً تین کروڑ 30 لاکھ آبادی کو کہا گیا کہ وہ یہ ثابت کرے کہ وہ 24 مارچ 1971 سے قبل ریاست کے شہری تھے۔
اس ضمن میں جو پہلی فہرست جاری ہوئی اس میں تقریباً 40 لاکھ لوگ اپنی شہریت ثابت کرنے میں ناکام رہے لیکن اس کو بڑے پیمانے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ پھر 31 اگست کو حتمی فہرست جاری کی گئی جس میں یہ تعداد کم ہو کر 19 لاکھ رہ گئی۔
ان لوگوں کو یہ ثابت کرنا تھا کہ ان کے خاندان کا نام 1951 کی پہلی فہرست میں شامل تھا یا پھر 24 مارچ 1971 سے قبل کی ووٹر لسٹ میں ان کے آباو اجداد کے نام موجود تھے۔
اس کے علاوہ 24 مارچ 1971 سے قبل کی زمین جائیداد کی خرید و فرخت، بیمہ پالیسی، پیدائش کی سند، پاسپورٹ، لائسنس، بینک و پوسٹ آفس، اکاؤنٹس، تعلیمی اسناد، حکومت میں ملازمت کی سند وغیرہ بھی قابل قبول تھیں۔
اب ان لوگوں کو 120 دن کی مہلت دی گئی ہے کہ وہ ٹریبیونل میں اپنے نام کے نہ آنے کو چیلنج کریں۔
یہ بھی الزام لگایا جاتا ہے کہ شہریت کی فہرست میں کئی ایسے لوگ بھی شامل نہیں ہیں جنہوں نے فوج میں ملازمت کر رکھی ہے اور سرکاری ملازمتوں میں رہ چکے ہیں۔ بعض تو محض عملے کی غلطی کے سبب فہرست میں آنے سے رہ گئے ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ 120 دن کے بعد یہ تعداد مزید کم ہو جائے گی اور اس طرح بی جے پی حکومت کے دعوے کو مزید دھچکا لگے گا جو یہ کہتی آ رہی تھی کہ آسام میں بڑی تعداد میں بنگلہ دیشی رہائش پذیر ہیں۔
اب بی جے پی زور و شور سے این آر سی کو بنگال میں لانے کی بات کر رہی ہے لیکن مغربی بنگال کی وزیر اعلی ممتا بینرجی اس کے سخت خلاف ہیں اور کہہ رہی ہیں کہ وہ کسی بھی طرح اسے وہاں نافذ نہیں ہونے دیں گی اور انھوں نے اپنے ووٹروں کو اطمینان دلایا ہے کہ ان کے رہتے ہوئے این آر سی بنگال میں نہیں آ سکتی۔
جہاں این آر سی، بی جے پی اور مغربی بنگال میں ترنامول کانگریس کے درمیان سیاسی چبقلش کا سبب بنا ہوا ہے وہیں ہریانہ، اترپردیش، جھارکھنڈ اور بہار جیسی ریاستوں میں بھی اس کے نفاذ کی بات ہو رہی ہے اور تجزیہ نگار اس بات پر حیران ہیں کہ اس کا آخر مقصد کیا ہے۔
گذشتہ روز اتر پردیش کے سابق وزیر اعلی نے طنز کرتے ہوئے کہا کہ اگر اترپردیش میں این آر سی آتی ہے تو سب سے پہلے اترپردیش کے موجودہ وزیر اعلی اور بی جے پی رہنما یوگی آدتیہ ناتھ فہرست سے باہر ہوں گے کیونکہ وہ اتراکھنڈ کے رہائیشی ہیں۔
مزید پڑھیں
-
’اب آسامی باشندوں کے ساتھ کیا ہوگا؟‘Node ID: 431501
-
آسام: ’اگر میرے بچے انڈین شہری ہیں تو بیوی کیوں نہیں؟‘Node ID: 431626