Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا ’پے پال‘ پاکستان آئے گا؟

'پے پال' 200 سے زائد ممالک میں خدمات فراہم کرتی ہے۔ تصویر: اے ایف پی
پاکستان کی حکومت نے ایک بار پھر آن لائن ادائیگیوں کا نظام چلانے والی بین الاقوامی امریکی کمپنی پے پال کو ملک میں لانے کے لیے کوششیں تیز کر دی ہیں۔
حکومتی ذمہ داران کو امید ہے کہ آئندہ برس جون تک کمپنی پاکستان میں اپنی خدمات کی فراہمی کا آغاز کر دے گی۔
انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وزارت کے ایک اعلیٰ افسر نے اردو نیوز کو بتایا کہ پاکستان کا ایک وفد رواں ماہ ہی کمپنی کے اعلیٰ حکام سے ملاقات کے لیے امریکہ جا رہا ہے جہاں کمپنی کو حکومت پاکستان کی طرف سے مکمل سہولیات اور تحفظ کی یقین دہانی کروائی جائے گی۔
یاد رہے کہ فری لانسر اور ای کامرس سے وابستہ افراد کا طویل عرصے سے مطالبہ ہے کہ پے پال کو پاکستان لایا جائے۔
paypal casinos
حکومت چاہتی ہے کہ کمپنی آئندہ برس پاکستان میں کام شروع کر دے، تصویر: اے ایف پی

پے پال کیا ہے؟

آن لائن دنیا میں پے پال کو رقم کے لین دین کے حوالے سے ایک اہم مقام حاصل ہے۔ یہ ایک طرح سے کسی صارف کا ذاتی بین الاقوامی بینک اکاؤنٹ ہوتا ہے۔
 پے پال پاکستان کے پڑوسی ملک انڈیا سمیت دنیا بھر کے 200 سے زائد ممالک میں افراد اور کاروباروں کو رقوم بھیجنے اور وصول کرنے کی خدمات فراہم کرتی ہے۔
 کمپنی کی ویب سائٹ کے مطابق اس وقت دنیا بھر کے قریباً 10 کروڑ افراد معاوضے اور رقوم حاصل کرنے کے لیے یہ سروس استعمال کرتے ہیں۔ اس سروس کو قریباً دو دہائیوں سے آن لائن رقوم کی ترسیل کا اہم طریقہ مانا جاتا ہے۔
دنیا بھر میں کروڑوں آن لائن شاپنگ مالز اس سروس کے گاہک ہیں۔ یہ اپنے گاہگوں سے رقم کی ترسیل کا بہت معمولی معاوضہ لیتی ہے۔
paypal casinos at Stroke of Luck

پاکستان میں 2 کروڑ 17 لاکھ افراد ڈیبٹ کارڈ استعمال کرتے ہیں، تصویر: پے پال     

سینکڑوں دیگر کمپنیوں کے ساتھ مقابلے کے باوجود یہ اپنی خدمات اپنے معیار کو مدنظر رکھ کر ہی فراہم کرتی ہے۔
ماہرین کے خیال میں پے پال کے پاکستان آنے سے ایک تجارتی اور کاروباری انقلاب آنے کے امکانات ہیں کیونکہ ملک کے طول و عرض میں کاروباری شخصیات اور اجناس فروخت کرنے والے افراد براہ راست بین الاقوامی منڈی سے منسلک ہو جائیں گے اور ملک میں اس کے ذریعے سے بھی زرمبادلہ بھی آنا شروع ہو جائے گا۔

پے پال پاکستان لانے کے لیے حکومت اب زیادہ پرامید کیوں؟

یاد رہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے سابق وزیر خزانہ اسد عمر نے بھی پے پال کو پاکستان لانے کے عزم کا اظہار کیا تھا مگر یہ کوششیں ناکام رہی تھیں اور رواں سال مئی میں اس وقت کے سیکرٹری آئی ٹی معروف افضل نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو بتایا تھا کہ پے پال پاکستان نہیں آ رہی اور اس کی وجہ اس کا اپنا داخلی نظام ہے۔
best NZ paypal casinos

سٹیٹ بینک کے مطابق پاکستان میں 5 کروڑ 56 لاکھ افراد کے بینک اکاؤنٹس ہیں، تصویر: ٹوئٹر

تاہم اردو نیوز کو دستیاب معلومات کے مطابق اس بار پے پال کو لانے کے لیے حکومت کی جانب سے کوششوں کو مختلف طریقے سے آگے بڑھایا جا رہا ہے۔
آج سے قبل ہمیشہ حکومت اور پے پال کے درمیان کبھی براہ راست بات چیت نہیں ہوئی اور صرف خط و کتابت ہی پر انحصار کیا جاتا تھا، تاہم یہ پہلی بار ہے کہ کمپنی اور پاکستانی حکومت کے نمائندوں کے درمیان امریکہ میں براہ راست ملاقات ہو رہی ہے جس سے معاملات میں پیش رفت کی امید بڑھ گئی ہے۔
پاکستانی وفد میں شامل ایک افسر کے مطابق یہ بات درست ہے کہ پے پال راتوں رات پاکستان نہیں آئے گی مگر ان کا کہنا ہے کہ اس بات کا بھی قوی امکان ہے کہ اگلے سال جون تک پاکستانی پے پال سروس استعمال کر پائیں گے۔
انہوں نے بتایا کہ اجلاس میں پاکستانی وفد پے پال حکام کو سٹیٹ بینک اور دیگر اداروں کی طرف سے مالی معاملات کی شفافیت اور سکیورٹی سے متعلق کیے گئے اقدامات سے آگاہ کر کے انہیں پاکستان میں مکمل سہولیات فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائے گا۔

سابق وزیر خزانہ اسد عمر کی ’پے پال‘ کو لانے کی کوششیں ناکام رہیں، تصویر: اے ایف پی

پاکستانی فری لانسرز کو پے پال کا انتظار

دوسری طرف پاکستانی فری لانسرز کی نمائندگی کرنے والی تنظیم پاکستان سافٹ ویئر ہاؤس ایسوسی ایشن (پاشا) کے سیکرٹری جنرل شہریار حیدری بھی پاکستانی حکام اور پے پال کے درمیان پہلی ملاقات کو بہت اچھی خبر قرار دے رہے ہیں، تاہم وہ جون 2020 تک کمپنی کے پاکستان آنے کے دعوے سے متفق نہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ پے پال دیگر ممالک میں اپنے مفاد اور کاروباری منصوبے کو دیکھ کر جانے کا فیصلہ کرتی ہے۔ اس عمل میں چار سے پانچ سال بھی لگ سکتے ہیں۔
شہریار کے مطابق پے پال سروس نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان کے قریباً تین لاکھ کے قریب فری لانسرز اور متعدد کاروباری افراد اور ادارے اپنی مصنوعات اور خدمات کو بیرون ملک آسانی سے فروخت نہیں کر پا رہے۔
’ حکومتی سطح اور مقامی سطح پر ادائیگیوں کے لیے بنائے گئے نظام پے پاک اور پرائیویٹ ادائیگی کے نظام جیسے ایزی پیسہ وغیرہ کی بدولت لوگوں کے لیے آن لائن کاروبار کرنا آسان ہے مگر بین الاقوامی سطح پر پاکستانی فری لانسرز کو پیسوں کی وصولی میں شدید مشکلات درپیش ہیں۔‘

 کمپنی کا دعویٰ ہے کہ 10 کروڑ افراد اس کی سروس استعمال کرتے ہیں، تصویر: اے ایف پی

ان کا کہنا تھا کہ ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں ہونے اور دیگرخدشات کے باعث بیرونی ممالک سے خریدار پاکستانیوں کے اکاؤنٹس میں براہ راست پیسے بھیجنے سے کتراتے ہیں۔ ایسی صورت میں پے پال جیسی سروس ہوتی تو ایمیزون اور ای بے سمیت اہم ویب سائٹس پر پاکستانی برآمد کنندگان آسانی سے اپنی اشیا اور خدمات بیچ کر قیمتی زرمبادلہ حاصل کر پاتے۔
انہوں نے کہا کہ پے پال کی عدم موجودگی میں لوگ یا تو اپنے بیرون ملک رشتہ داروں کے اکاؤنٹس میں پیسہ منگواتے ہیں یا پھر اپنے گاہکوں کو فری لانسرز کی خصوصی ویب سائٹ پر اکاؤنٹ بنا کر پیسہ بھیجنے کا کہتے ہیں جس سے کئی گاہک متفق ہی نہیں ہوتے۔
ماہرین کے مطابق پاکستان میں پے پال جیسی سروسز کو لانے کے لئے ضروری ہے کہ پاکستان اپنی ادائیگیوں کے ڈھانچے کو جدید بنائے اور اپنی معیشت کو دستاویزی شکل دے۔

ماہرین کے مطابق 'پے پال' کو لانے میں 4 سے 5 سال بھی لگ سکتے ہیں، تصویر: اے ایف پی

سٹیٹ بینک آف پاکستان کے 2018 کے اعدا و شمار کے مطابق پاکستان کی 20 کروڑ سے زائد آبادی میں 5 کروڑ 56 لاکھ افراد نے اپنے بینک اکاؤنٹس بنوا رکھے ہیں۔
سرکاری حکام کے مطابق ملک میں کریڈٹ کارڈز کی مجموعی تعداد 14 لاکھ ہے جبکہ ڈیبٹ کارڈ استعمال کرنے والے افراد کی تعداد 2 کروڑ 17 لاکھ ہے۔
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ میں شامل ہوں

شیئر: