Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’ڈر لگتا ہے کہ کوئی پیچھا نہ کر رہا ہو‘

پاکستان میں خواتین نے ہراسیت کے خلاف آواز بلند کرنا شروع کر دی ہے۔ فوٹو: گوگل امیجز
پاکستان میں خواتین کے خلاف ہراسانی کے واقعات میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ یا یوں کہیے کہ اب نشانہ بننے والی خواتین نے نا صرف اس کے خلاف آواز بلند کرنا شروع کر دی ہے بلکہ انہوں نے سوشل میڈیا کی مدد سے مجرمان کو سزا دینے کے لیے ان کی تصاویر یا ویڈیو بنا کر دوسروں تک اس جرم کی داستان پہنچانا بھی شروع کر دیا ہے۔
رواں ہفتے میں تقریباً تین خواتین کی کہانیاں سوشل میڈیا پر دیکھنے میں آئی ہیں جن میں نشانہ بننے والی نوجوان لڑکیوں نے ان کو ہراساں کرنے والوں کی تصاویر سوشل میڈیا پر شیئر کیں تاکہ دوسری لڑکیوں کو بھی ہمت ملے اور لوگوں کو معاشرے میں پھیلتی ہوئی اس وبا کے بارے میں علم مل سکے۔
زویا نامی 25 سالہ لڑکی لاہور میں اپنے کالج سے گھر کو لوٹ رہی تھیں جب پیدل چلنے والے برج پر ان کا سامنا ایک نوجوان لڑکے سے ہوا جو ان کو دیکھ کر برہنہ ہوا اور پھر غیر اخلاقی عمل میں مصروف ہوگیا۔
کچھ اسی طرح کا واقعہ ایک اور خاتون کے ساتھ ہوا جو ملتان سے اسلام آباد کا سفر بس سے طے کر رہی تھیں۔ کافی دیر بعد ان کو اندازہ ہوا کے ان کی پیچھے والی نشست پے بیٹھا ایک باریش شخص مسلسل ان کے جسم پر ہاتھ مل رہا ہے۔
کراچی کی سنینا نامی خاتون نے بھی ایسی ہی ہراسانی کا سامنا کیا جب وہ اپنی جامعہ کی طرف سفر کر رہی تھیں اور ایک دم بائیک پر دو شخص نمودار ہوئے اور پیچھے بیٹھے ہوئے مسافر نے ان کی طرف مسلسل غیر اخلاقی اشارے کیے۔
ان تین با ہمت خواتین میں ایک بات یہ مشترک ہے کہ انہوں نے ہراسانی کرنے والے مردوں کو معاف نہیں کیا بلکہ آڑے ہاتھوں لے کر دوسری خواتین کو بھی ایک پیغام دیا جو روزانہ یہ سب سہتی ہیں مگر حالات کے پیشِ نظر چپ رہ جاتی ہیں۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے ذویا نے بتایا کہ پیدل چلنے والے برج پر اس برہنہ نوجوان کو دیکھ کر وہ دم بخود رہ گئی تھیں۔ لیکن اس قسم کی ایک ویڈیو انہوں نے سوشل میڈیا پر دیکھ رکھی تھی لہذا انہیں خیال آیا کہ وہ اپنا موبائل نکالیں۔
جب وہ میری طرف آیا تو میں بہت ڈری ہوئی تھی۔ مجھے لگ رہا تھا کہ وہ میرا موبائل چھین لے گا یا پھر مجھے برج سے نیچے دھکا دے گا۔ لیکن میں اس کو معاف نہیں کر سکتی تھی۔ اگر میں اسے معاف کر دیتی تو وہ شاید مجھے آرام سے جانے دیتا اور میرا راستہ نہ روکتا۔
ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے فوراً یہ فیصلہ لیا کہ اس شخص کی ویڈیو بنائی جائے۔
میں اس کو کچھ نہیں کہتی یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ غلط کام کر رہا ہے۔ میں نے ویڈیو غصے میں بنائی کیونکہ وہ مجھے روکنا چاہ رہا تھا۔ میں چپ نہیں رہ سکتی تھی۔ میں نے یہ قدم اس لیے اٹھایا تاکہ یہ ویڈیو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچ سکے اور دوسری لڑکیاں اس سب سے نہ گزریں جس سے میں گزری ہوں۔

خواتین کمزوری کا مظاہرہ کریں تو مردوں کی ہمت مزید بڑھتی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

ویڈیو بنانے کے بعد ذویا نے اپنی جان بچانے کے لیے نیچے کی جانب دوڑ لگائی اور پھر رکشہ روک کر اس پر سوار ہوئیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ بار بار پیچھے مڑ کر دیکھتی رہیں کہ کہیں وہ شخص ان کا تعاقب نہ کر رہا ہو۔
’اب مجھے گھر جاتے ہوئے ڈر لگتا ہے۔ اب اس برج کا رخ بھی نہیں کرتی۔‘
دوسری خواتین نے بھی لکھا ہے کہ انہوں ان مردوں کو سبق سکھانے کے لیے ان کی ویڈیو بنائی تاکہ آئندہ انہیں یہ قبیح کام کرتے ہوئے کچھ شرم محسوس ہو۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے ماہر قانون اور خواتین کی تحریک سے وابستہ عبیرہ اشفاق نے کہا کہ ’خواتیں کو ہمارے معاشرے میں بہت کم سماجی قوت حاصل ہوتی ہے اور لے دے کر ان کے پاس یہی ایک طریقہ رہ جاتا ہے کہ وہ اس طرح کی ویڈیوز بنا کر اس ناانصافی پر چوٹ لگا سکیں۔‘
’میں سمجھتی ہوں کہ اس طرح سے ویڈیو یا تصویر بنانا نہایت ضروری ہے کیونکہ ایسا کرنے سے آپ اس مجرم جو ہراسانی کر رہا ہوتا ہے اس سے طاقت چھین لیتے ہیں اور ایسا کرنے سے دوسری خواتین کو بھی آگاہ کیا جا سکتا ہے۔ سب سے بڑھ کر اس سے معاشرے میں ہراسانی کے واقعات کے بارے میں آگاہی پیدا ہوتی ہے کہ ہمارے یہاں یہ سب ہو رہا ہے۔ کیونکہ عموماً عورتوں کو یہ سکھایا جاتا ہے کہ ایسے واقعات کو نظرانداز کر دیں۔‘

’ یہ پہلی دفعہ ہورہا ہے کہ خواتین کھل کر اپنے اوپر ہونے والے مظالم پر اس طرح سے آواز بلند کر رہی ہیں‘ فوٹو: اے ایف پی

عبیرہ نے مزید کہا کہ یہ پہلی دفعہ ہو رہا ہے کہ خواتین کھل کر اپنے اوپر ہونے والے مظالم پر اس طرح سے آواز بلند کر رہی ہیں جہاں وہ ویڈیو بنا کر خوف کے بت گرا کر سارے نشتروں کا منہ اصل مجرم کی طرف کر دیتی ہیں۔
’بحثیت وکیل میرا ماننا ہے کہ اس معاملے میں دونوں اطراف کو کورٹ میں موقعہ ملنا چاہیے۔ ہمیں یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہمیں انسان کی رازداری کے آئینی حقوق اور عورت کے آزادی اظہارِ رائے اور قانونی حفاظت کو بھی بیلنس کرنا پڑے گا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’رازداری کے حقوق کو مدِنظر رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ شاید یہ ویڈیو بنانا اور نشر کرنا خلافِ قانون قرار دیا جائے مگر اس کی افادیت کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم سیاسی بحث کو قانون کے اندر فروغ دیں۔ یہ سمجھنا اور اس پر کام کرنا اہم ہے کہ قانون کا اطلاق عورت کی حفاظت کے لیے نہیں ہو رہا تب ہی ان کو براہ راست قدم اٹھانا پڑ رہا ہے تاکہ وہ اپنے آپ کو اور دیگر خواتین کو تحفظ فراہم کر سکیں۔‘

شیئر: