پاکستان میں بزرگ شہریوں کو بائیومیٹرک کی تصدیق کے حوالے سے مشکلات کا سامنا رہتا ہے خاص طور پر جب اُن کے فنگر پرنٹس ناقابلِ شناخت ہو جاتے ہیں۔
قیصر احمد (فرضی نام) بھی ایسے ہی ہزاروں شہریوں میں شمار ہوتے ہیں جنہیں تکنیکی رُکاوٹ کی وجہ سے روزمرہ کے معمولات میں بار بار پریشانی کا سامنا رہتا ہے۔
62 برس کے راولپنڈی کے رہائشی قیصر احمد کے لیے بینک سے پینشن وصول کرنا، نئی سِم حاصل کرنا، رقم منتقل کرنا یا وصول کرنا اب ایک مشکل مرحلہ بن چکا ہے۔
مزید پڑھیں
قیصر احمد کی بڑھتی عمر کے ساتھ جہاں ان کی صحت متاثر ہوئی ہے وہیں ان کے فِنگر پرنٹس بھی مدھم ہو چکے ہیں۔ ہر بار بائیومیٹرک تصدیق اُن کے لیے ایک نئی پریشانی بن کر سامنے آتی ہے۔
انہیں نادرا کے دفتر، کبھی بینک اور بعض اوقات فرنچائز کے چکر کاٹنا پڑتے ہیں، مگر اکثر انہیں کامیابی کے بغیر ہی واپس لوٹنا پڑتا ہے۔
قیصر احمد کا کہنا ہے کہ ’نادرا کے عملے کی جانب سے بتایا جاتا ہے کہ متعلقہ بینک یا فرنچائزز بائیومیٹرک کے متبادل ذرائع استعمال کرنے کے پابند ہیں۔‘
’جب میں بینک جاتا ہوں تو وہاں کا عملہ کہتا ہے کہ ہمارے پاس صرف فنگر پرنٹ کے ذریعے تصدیق کرنے والی ایک ہی ڈیوائس ہے اور اگر فنگر پرنٹس کام نہیں کر رہے تو یہ مسئلہ نادرا کا ہے، ہمارا نہیں۔‘
وہ متعدد بار اپنی بائیومیٹرک تفصیلات نادرا سے اپڈیٹ بھی کروا چکے ہیں لیکن کوئی مستقل حل تاحال سامنے نہیں آیا۔
اردو نیوز نے اس رپورٹ میں یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ آخر یہ مسئلہ کیوں پیدا ہوتا ہے، نادرا کے پاس اِس کا کیا حل موجود ہے اور متعلقہ ادارے بزرگ شہریوں کے لیے کیا آسانیاں پیدا کر سکتے ہیں؟
نادرا کا کیا موقف ہے؟
اردو نیوز نے بزرگ شہریوں کو بائیومیٹرک تصدیق میں درپیش مسائل کے حوالے سے نادرا کا مؤقف جاننے کے لیے ادارے کے ترجمان سید شباہت علی سے رابطہ کیا۔

انہوں نے بتایا کہ ’نادرا نے نیشنل آئیڈینٹٹی کارڈ رُولز 2002 میں اہم ترامیم کرتے ہوئے بائیومیٹرک تصدیق کی تعریف میں کچھ تبدیلیاں کی ہیں جن میں چہرے کی شناخت (فیشل ریکگنیشن) اور آئرس (آنکھوں کی پُتلیوں کی شناخت) کو بھی شامل کیا گیا ہے۔‘
’اس کا مطلب یہ ہے کہ اب شناختی تصدیق صرف فِنگر پرنٹس پر منحصر نہیں رہی، بلکہ اگر کسی شہری کے انگوٹھے یا انگلیوں کے نشانات قابلِ شناخت نہ ہوں، تو وہ بائیومیٹرک کے متبادل یعنی فیشل ریکگنیشن یا آئرس سکیننگ کے ذریعے بھی تصدیق کروا سکتے ہیں۔‘
سید شباہت علی مزید کہتے ہیں کہ ’اس جدید نظام پر مکمل عمل درآمد کے لیے وزارت داخلہ نے تمام متعلقہ اداروں کو 30 دسمبر 2025 تک مہلت دے رکھی ہے۔‘
اس سلسلے میں نادرا نے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے)، وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے)، سٹیٹ بینک آف پاکستان، سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) سمیت دیگر اداروں کو بھی آگاہ کر دیا ہے۔
ترجمان نادرا کا کہنا تھا کہ ’اس حوالے سے سٹیٹ بینک نے تمام بینکوں کو یہ ہدایات جاری کی ہیں کہ وہ جدید بائیومیٹرک ڈیوائسز استعمال کریں اور فیشل ریکگنیشن کی سہولت فراہم کریں تاکہ ان شہریوں کو سہولت دی جا سکے جن کے فِنگر پرنٹس ناقابلِ شناخت ہو چکے ہوں۔‘

اس سوال کے جواب میں کہ اگر بینک یا دیگر ادارے ان ہدایات پر عمل درآمد نہ کریں تو نادرا کیا حکمتِ عملی اپناتا ہے، سید شباہت علی نے بتایا کہ ’نادرا صرف تکنیکی معاونت فراہم کر سکتا ہے۔‘
’بائیومیٹرک نظام کا نفاذ متعلقہ ریگولیٹرز، جیسے کہ سٹیٹ بینک یا دیگر اداروں کی ذمہ داری ہے۔ اگر کسی بینک یا ادارے میں جدید بائیومیٹرک طریقوں پر عمل درآمد نہیں ہو رہا تو یہ اُن کے ریگولیٹری ادارے کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسے یقینی بنائے۔‘
بزرگ شہریوں کی انگلیوں کے نشانات کی شناخت کیوں نہیں ہو پاتی؟
بزرگ شہریوں کے فِنگر پرنٹس کے مسائل کی بنیادی وجہ عمر رسیدگی کے اثرات ہیں۔ جیسے جیسے انسان کی عمر بڑھتی ہے تو اُس کی جلد کی ساخت میں بھی نمایاں تبدیلیاں آتی ہیں۔
عمر بڑھنے کے ساتھ ہاتھوں کی جلد پتلی، خشک اور کم لچک دار ہو جاتی ہے جس کے باعث فنگر پرنٹس دُھندلے یا تقریباً مٹنے لگتے ہیں۔ بعض اوقات انگلیوں کی پوروں پر جُھریاں بڑھ جانے سے بھی بائیومیٹرک سکینر درست شناخت نہیں کر پاتے۔
اس کے علاوہ وہ بزرگ افراد جنہوں نے زندگی بھر ہاتھوں سے مشقت طلب کام کیے ہوں، جیسے کھیتی باڑی، سلائی یا مزدوری تو اُن کے فنگر پرنٹس اکثر وقت کے ساتھ گَھس جاتے ہیں۔
یہی وجوہات نادرا یا دیگر اداروں کے بائیومیٹرک سسٹم کے لیے شناخت میں رُکاوٹ بنتی ہیں، اسی وجہ سے بعض اوقات بزرگ شہریوں کو تصدیق یا رجسٹریشن میں دُشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔